ایک طرف ہماری سستی یہ ہے کہ قرآن کریم کو براہ راست سمجھنے کی ہم ضرورت ہی سرے سے محسوس نہیں کرتے، اکثریت کی بات کر رہا ہوں، مستثنٰی لوگ ہر طبقے میں ہیں۔ میں عمومی بات کر رہا ہوں، اکثریت کی بات کر رہا ہوں کہ قرآن کریم کو براہ راست سمجھنے کی ہم سرے سے ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس کی دوسری انتہا یہ ہے کہ مجھ میں اگر قرآن کریم کی پانچ سات دس آیتوں کے ترجمے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے تو میں مجتہد بن کر کھڑا ہو جاتا ہوں کہ اب ہر بات مجھ سے ہی پوچھو بھئی! پھر میں اتھارٹی بن جاتا ہوں۔ میں ہی مفتی ہوں، میں ہی مجتہد ہوں، میں ہی مفسر ہوں، میں ہی سب کچھ ہوں۔ ایک انتہا وہ ہے کہ ایک جملے کا ترجمہ سمجھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتا، اور ایک انتہا یہ ہے کہ کچھ تھوڑی بہت سمجھ میں آتی ہے تو میں اتھارٹی بن جاتا ہوں کہ اب ہر بات مجھ سے ہی پوچھو۔
میں ایک بات آپ کے ذہن میں ڈالنا چاہوں گا، دیکھیں! سمجھنے کا لیول اور ہوتا ہے اور سمجھانے کا لیول اور ہوتا ہے۔ میں اس کی ایک چھوٹی سی مثال دوں گا۔ ملک کا کوئی بھی شہری ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملک کے قانون سے واقف ہو۔ ملک کا کوئی شہری کسی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ مجھے قانون کا پتہ نہیں تھا اس لیے میں نے خلاف ورزی کی ہے، یہ عذر اس کا چلے گا؟ کہیں بھی؟ کسی عدالت میں؟ کہ جناب میں قانون کی پابندی اس لیے نہیں کر سکا کہ مجھے قانون کا پتہ نہیں تھا۔ دنیا کی کوئی عدالت کسی لیول پر یہ عذر کسی شہری کا نہیں مانے گی۔ تیری ذمہ داری ہے بھئی، تجھے قانون کا پتہ ہونا چاہیے، تم شہری ہو، ایک شہری کی حیثیت سے اپنے ملک کے قانون سے واقف ہونا تیری ذمہ داری ہے۔ اور قانون سے واقف نہ ہونا قانون شکنی کے لیے کوئی عذر نہیں ہے۔
یہ تو ہر شہری کی بات ہے، لیکن کوئی شخص ہائیکورٹ میں جا کر کھڑا ہو جائے کہ جناب میں ملک کا شہری ہوں، قانون سے واقفیت میری ذمہ داری ہے، اس لیے میں آپ کے سامنے قانون پر بحث کرنا چاہتا ہوں، کسی قانون کی تشریح کرنا چاہتا ہوں، قانون پر آرگو کرنا چاہتا ہوں۔ کوئی ہائیکورٹ اسے کھڑے ہونے دے گی؟ نہیں بھئی! تمہارا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ایل ایل بی کی ڈگری چاہیے، بار کا لائسنس چاہیے، کم از کم ہائیکورٹ کا دس سال کا تجربہ چاہیے، تب قانون پر بات کر سکتے ہو۔
قانون کو سمجھنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے لیکن قانون پر آرگو کرنا یہ ہر وکیل کا کام بھی نہیں ہے۔ اس کی شرائط ہیں، اس کی لمٹس ہیں کہ جناب ڈگری ہے، لائسنس ہے، تجربہ ہے، تب قانون پر بات کرو ورنہ نہیں۔ تو میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ قرآن کریم کو سمجھنا یہ تو ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے لیکن قانون پر آرگو کرنا، کسی آیت سے استدلال کرنا، کسی آیت سے مسئلہ بیان کرنا، یہ ہر آدمی کا کام نہیں ہے، یہ اس لیول کے عالم کا کام ہے جس نے ڈگری لی ہے، جس کا تجربہ ہے، جو اس پراسیس سے گزرا ہے، اس پراسیس کے بغیر کسی آیت کی تشریح اور اس پر آرگو کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔