۲۲ جون ۲۰۱۹ء
آج کچھ ایسے مسائل پر ہلکا پھلکا تبصرہ پیش خدمت ہے جو عام مجلسوں میں زیر بحث رہتے ہیں اور ان پر طرح طرح کے خدشات و تحفظات کا اظہار دیکھنے میں آتا ہے۔
- وزیر اعظم عمران خان کی پالیسیوں کے بارے میں اکثر بات ہوتی ہے جس کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ وہ ذاتی طور پر قومی مسائل کے حوالہ سے کچھ کرنا چاہ رہے ہیں جس کے لیے وہ مخلص بھی دکھائی دیتے ہیں اور ہر طرح سے ہاتھ پاؤں بھی مار رہے ہیں، ان کے اہداف کے صحیح یا غلط ہونے کی بات اپنی جگہ مگر وہ جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے نہ ان کے پاس موزوں ٹیم ہے اور نہ ہی وہ کوئی مناسب ہوم ورک رکھتے ہیں۔ ان سے جو کام لینے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں اور جو کام کرنے کی وہ خود کوشش کر رہے ہیں ان کے اردگرد کا ماحول اور پس پشت تناظر اسے قبول نہیں کر رہا۔ اب تک جو صورتحال ہے مجھے وہ ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘ کا مصداق دکھائی دے رہی ہے اور میں اس دن سے ڈر رہا ہوں جب یہ دونوں ماحول خدانخواستہ آمنے سامنے ہو جائیں گے۔ اللہ تعالٰی وطن عزیز کو ایسی کسی آزمائش سے محفوظ رکھیں، آمین یا رب العالمین۔
- مولانا فضل الرحمان ایک درست موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اس کے لیے نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم و مغفور کی روایت زندہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ مجھے ان کے اس موقف سے اتفاق ہے کہ قومی خودمختاری اور دستور کی بالادستی کا ناگزیر تقاضہ ہے کہ قومی پالیسیوں کو بین الاقوامی ایجنڈے کی گرفت سے آزاد کرایا جائے، تمام ریاستی ادارے اپنی حدود میں دستور کے مطابق فرائض سرانجام دیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کی روش ترک کر دیں۔ یہ دستور کا تقاضہ ہے، قومی وحدت کا تقاضہ ہے اور ملکی سالمیت کا تقاضہ بھی ہے، جبکہ قومی خودمختاری کے لیے تو اسے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ مگر مولانا فضل الرحمان کے گرد بھی کوئی ایسی ٹیم دکھائی نہیں دے رہی جو ان قومی تقاضوں کے حوالے سے ان کا دست و بازو بن سکے۔ میں نے گزشتہ ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ یہ صرف سیاسی قوتوں کی باہمی محاذ آرائی نہیں ہے بلکہ قومی خودمختاری اور دستوری بالادستی کی جدوجہد ہے جس کے بعض مراحل ہم دیکھ چکے ہیں اور بہت سے مراحل ابھی دیکھنے باقی ہیں۔ جبکہ ہوم ورک، پیپرورک، لابنگ اور صف بندی کے دائروں میں وہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا جو اس جدوجہد کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ اس لیے مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ مولانا صاحب کے گرد ’’۔ ۔ ۔ ۔ رام بھلی کرے گا‘‘ قسم کی صدائیں کہیں ان پر اثر انداز نہ ہو جائیں۔
- قومی اور صوبائی بجٹ اس وقت منتخب ایوانوں، میڈیا اور عوامی حلقوں میں زیربحث ہیں اور اس حوالہ سے کوئی نئی بات دکھائی نہیں دیتی ، وہی ٹیکس، وہی مہنگائی، وہی قرضے، وہی سود، وہی پاکستانی کرنسی کی مسلسل بے قدری، اور وہی خوشنما وعدے اور تسلیاں ہیں جو کم از کم نصف صدی سے ہم اسی لب و لہجے میں سنتے چلے آرہے ہیں۔ ایک مختلف بات صرف اس وقت سنی تھی جب غلام اسحاق خان مرحوم و مغفور وفاقی وزیر خزانہ تھے اور انہوں نے ایک سال بجٹ پیش کرتے ہوئے قوم کو خوشخبری سنائی تھی کہ ملک کو سودی معیشت سے نجات دلانے کا فیصلہ ہوگیا ہے، غیر سودی معیشت کا ڈھانچہ تشکیل دیا جا چکا ہے اور اگلے سال کا بجٹ غیر سودی ہوگا۔ غلام اسحاق خان مرحوم اس کے بعد ملک کے صدر بھی بنے، ان کی یہ تقریر ریکارڈ پر موجود ہے، مگر یہ ’’اگلا سال‘‘ ابھی تک نہیں آیا اور نہ ہی اس کے کوئی امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ بجٹ سے قبل آئی ایم ایف سے مذاکرات کے ماحول میں اسٹیٹ بینک کے گورنر کی اچانک تبدیلی کے بعد بھی ہم اس خوش فہمی میں ہیں کہ یہ ہمارا اپنا بنایا ہوا بجٹ ہے، جبکہ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ خوش فہمیوں کا یہ تسلسل کہیں ہمیں غالب مرحوم کے اس یادگار شعر کا مصداق نہ بنا دے کہ:
قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن - ’’سی پیک‘‘ ایک اچھا منصوبہ دکھائی دیتا ہے جو مجموعی طور پر ہمارے مفاد میں بتایا جاتا ہے کہ اس سے ہمیں ترقی اور خوشحالی کے نئے راستے ملیں گے۔ یہ بات درست ہے بشرطیکہ یہ صرف تجارتی معاملات اور ماحول میں رہے۔ ہم اس کا خیرمقدم اور اس کی حمایت کرنے والوں میں شامل ہیں اور تمام تر تحفظات کے باوجود اس میں پیشرفت کے خواہاں ہیں۔ مگر ہر معاملہ کے کچھ پہلو ہوتے ہیں، ہمارے معالجین کا اصول چلا آرہا ہے کہ وہ کسی بیماری میں نسخہ تجویز کرتے ہوئے اس کے سائیڈ ایفیکٹ کو پورا کرنے کے لیے اس میں کوئی اور دوائی بھی شامل کر دیتے ہیں تاکہ معاملہ بیلنس ہو جائے۔ سی پیک سے پیدا ہونے والی عالمی تبدیلیوں کے امکانات کے حوالہ سے عالمی قوتوں کے تحفظات کو تو ہم ان کے استعماری عزائم کا حصہ ہی سمجھتے ہیں، مگر ہمارے داخلی ماحول میں سی پیک کے ساتھ جو تہذیبی اور معاشرتی ماحول دھیرے دھیرے سامنے آرہا ہے اس سے آنکھیں بند کرنا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ’’بادام‘‘ بہت مفید ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ بسا اوقات ’’کالی مرچ‘‘ بھی شامل کرنا پڑتی ہے تاکہ توازن رہے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ وسیع تر مفادات دکھانے والا یہ ’’ہائی وے‘‘ کہیں تحفظات کی ان ’’کھائیوں‘‘ سے ہمیں بالکل ہی غافل نہ کر دے جنہیں ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کے ساتھ تجارتی معاہدات کے وقت ہم بھول گئے تھے اور پھر گہری کھائیوں میں گر جانے کے بعد ان سے نکلنے کے لیے ہمیں حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے فتویٰ کی ضرورت پڑ گئی تھی۔