گزشتہ دنوں خواتین کے حقوق کا دن منایا گیا، اس موقع پر ملک بھر میں خواتین کے حقوق کی وضاحت کے لیے اجتماعات ہوئے اور مختلف طبقات اور اہل دانش نے اپنے اپنے ذوق اور نقطۂ نظر کے مطابق خواتین کے حقوق پر روشنی ڈالی۔
خواتین بلاشبہ اس دور میں بہت مظلوم ہیں۔ ایک طرف آزادی کے نام پر عورت کو اس کے فطری تقدس اور عصمت و عفت سے محروم کرنے کی کوششیں جاری ہیں جبکہ دوسری طرف معاشرتی اقدار اور حدود و قیود کی جکڑ بندیوں میں اس کی آزادی اور حقوق کا استحصال ہو رہا ہے۔ستم خیزی کی انتہا یہ ہے کہ مادر پدر آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھی اسلام کے حوالے سے بات کہنے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں اور ظالمانہ کلچر کی استحصالی اقدار کے علمبردار بھی عورت کو اپنے خول میں بند رکھنے کے لیے اسلام کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کشمکش میں اسلام اور عورت دونوں بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔
آپ اسے اسلام کے نام پر بدترین استحصال اور ظالمانہ جبر کے سوا اور کیا عنوان دے سکیں گے کہ خود ہمارے ملک کے ایک حصے میں جاگیردار طبقہ کے بعض لوگ اپنی بیٹیوں کو وراثت کے حق سے محروم کرنے کے لیے ان کی شادی قرآن کریم سے رچا دیتے ہیں (نعوذ باللہ)۔ اور باقاعدہ شادی کی تقریب کر کے نوجوان بیٹی کی گود میں قرآن کریم رکھ کر اسے کہہ دیتے ہیں کہ اس کی شادی اللہ تعالیٰ کے پاک کلام سے ہوگئی ہے (العیاذ باللہ)۔ اور یہ کہ اب اس نے ساری زندگی اسے تلاوت کرتے ہوئے بسر کرنی ہے۔
گزشتہ دنوں جب اس سلسلہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے سامنے آئی کہ اس نے ایسی شادی کو ناجائز قرار دیا ہے تو راقم الحروف نے عرض کیا کہ بات صرف اتنی نہیں ہے کہ یہ شادی ناجائز ہے۔ بلکہ ایسا کرنے والوں کو قرآن کریم کی بے حرمتی کے جرم میں باقاعدہ سزا ملنی چاہیے کیونکہ یہ ایک عورت کے جائز اور شرعی حقوق کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن مقدس کی کھلم کھلا توہین اور بے حرمتی ہے کہ اسے ظلم و استحصال کے لیے آڑ بنایا جا رہا ہے۔ مگر مسئلہ چونکہ جاگیرداروں کا ہے اور اسے ہاتھ میں لینے سے عالمی سیکولر لابیوں اور اسلام دشمن قوتوں سے کوئی مفاد ملنے کی توقع نہیں ہے اس لیے محترمہ عاصمہ جہانگیر اور جناب ایس ایم ظفر کی تنظیموں سمیت کوئی این جی او اسے اپنا ایشو بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ہمارے معاشرہ میں عورت کی مظلومیت کے بہت سے پہلو ہیں جن پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اور صرف ضرورت ہی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات و احکام کی رو سے بعض معاملات ایسے ہیں جن پر کلمہ حق بلند کرنا ہماری دینی ذمہ داریوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ مگر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور این جی اوز تو رہیں ایک طرف، علماء کرام کی جماعتوں اور دینی تنظیموں کو بھی فرصت نہیں ہے کہ وہ ان امور کی طرف توجہ دیں اور ان کے بارے میں کسی رائے کا اظہار کریں۔
عورت کے حقوق و فرائض کے بارے میں اسلامی تعلیمات و احکام کے حوالہ سے ہمارے ہاں اس قدر ابہام پایا جاتا ہے کہ بسا اوقات عجیب و غریب قسم کی مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ حالانکہ اسلامی احکام میں کوئی ابہام نہیں، وہ قرآن و سنت میں بالکل واضح ہیں لیکن ہم ان تعلیمات سے عام لوگوں کو آگاہ کرنے میں ناکام ہیں۔ اور ابہام کی یہ افسوسناک فضا غلط فہمیوں اور شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے جس سے اسلام دشمن عناصر اسلام کے خلاف اپنی مہم میں فائدہ اٹھاتے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے اسی دن کے حوالہ سے راولپنڈی میں ہونے والی ایک تقریب کی رپورٹ نظر سے گزری جس کا اہتمام ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان نے کیا۔ اس کی صدارت ڈاکٹر رضیہ ناصر نے کی جبکہ سینیٹر راجہ اورنگزیب اور سینیٹر راجہ حیدر اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ اس تقریب میں ایسوسی ایشن کے صدر کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی طرف سے پیش کیے جانے والے مطالبات میں ایک مطالبہ یہ بھی شامل ہے کہ:
’’عورت کی طلاق یا مرد کی دوسری شادی کو حق مہر کی ادائیگی کے ساتھ مشروط کیا جائے۔‘‘
یہ مطالبہ پڑھ کر بے ساختہ سر پیٹ لینے کو جی چاہا کہ مہر کے بارے میں اس سطح کے پڑھے لکھے لوگوں کی معلومات کا یہ حال ہے تو ملک کے عام شہری بے چارے کس قطار میں ہیں؟
مہر کے بارے میں ہمارے ہاں عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ اس صورت میں واجب الادا ہوتا ہے جب خاوند فوت ہو جائے یا وہ عورت کو طلاق دے دے۔ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے۔ اس لیے کہ نکاح میں جو مہر مقرر ہوا ہے نکاح کے بعد میاں بیوی کے یکجا ہونے کے بعد وہ بہرحال واجب ہو جاتا ہے اور یہ خاوند کے ذمہ بیوی کا قرض ہے۔ حق مہر کا طلاق یا موت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور خاوند کو یہ بہرصورت ادا کرنا ہے۔ اگر خاوند اپنی بیوی کا حق مہر ادا نہیں کرے گا یا بلاوجہ ٹال مٹول سے کام لے گا تو شرعاً اسی طرح حق تلفی کا مجرم ٹھہرے گا جیسے کسی سے قرض لے کر واپس نہ کرنے والا شخص مجرم قرار پاتا ہے۔
مہر کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ بھی ہے کہ سہاگ رات میں بیوی سے معاف کرا لیا جائے تو وہ ذمہ سے ساقط ہو جاتا ہے۔ یہ بھی شرعاً غلط ہے، اس طرح معاف کرانے سے رقم معاف نہیں ہوتی۔ ہاں اگر خاوند مہر کی پوری رقم بیوی کے سپرد کر دے اور وہ اسے وصول کرنے کے بعد اپنی خوشی سے کسی دباؤ کے بغیر واپس کر دے تو الگ بات ہے۔
اسی طرح مہر کے بارے میں ایک مضحکہ خیز بات اس وقت سامنے آتی ہے جب بعض شادیوں میں دیگر رسوم پر لاکھوں روپے خرچ کرنے والے حضرات سے نکاح کے وقت مہر کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو بڑی سادگی سے کہہ دیتے ہیں کہ:
’’جی وہی شرعی مہر بتیس روپے چھ آنے۔‘‘
انا للہ وانا الیہ راجعون، مجھے تو ایسے موقع پر بہت غصہ آتا ہے اور موقع محل کی مناسبت سے ڈانٹ بھی دیتا ہوں کہ یہ شریعت آپ لوگوں نے کہاں سے نکال لی ہے؟ شرعاً مہر کا اصول یہ ہے کہ لڑکے کی مالی حیثیت کے مطابق جتنا اس وقت کے حالات کے مطابق مناسب اور باوقار ہو اتنا مہر مقرر کرنا چاہیے۔ یعنی اتنا زیادہ نہ ہو کہ لڑکے پر بوجھ ہو اور اتنا کم نہ ہو کہ لڑکی والوں کے لیے خفت کا باعث بنے۔ بلکہ احناف کے ہاں تو ایک حدیث نبویؐ کے مطابق دس درہم مالیت سے کم مہر مقرر کرنا شرعاً درست بھی نہیں ہے جو کہ تقریباً تین تولے چاندی بنتی ہے۔
پھر بعض دیندار حضرات مہر فاطمی کا تذکرہ کر دیتے ہیں مگر اس کا حساب ان کے ذہن میں نہیں ہوتا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کا مہر پانچ سو درہم مقرر کیا تھا جو وزن کے لحاظ سے ایک سو چھیالیس تولے سے کچھ اوپر چاندی بنتی ہے۔ بازار سے چاندی کا بھاؤ معلوم کر کے حساب کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ مہر فاطمی کی مقدار کتنی بنتی ہے۔
الغرض مہر کا مسئلہ بھی ہمارے معاشرہ میں عورت کی مظلومیت کا ایک پہلو ہے جو اول تو مناسب مقدار میں مقرر ہی نہیں کیا جاتا۔ پھر جو مقرر کیا جاتا ہے اس کی ادائیگی کا ارادہ ہی نہیں ہوتا۔ اور اگر ذہن کے کسی گوشے میں ادائیگی کا تصور موجود بھی ہو تو سہاگ رات میں شرمائی لجائی دلہن کے منہ سے ’’معاف‘‘ کا لفظ کہلوا کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ سراسر ظلم ہے، غصب ہے اور حق تلفی ہے۔ اور اس ضمن میں سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ پڑھے لکھے اور سربرآوردہ حضرات بھی مہر کے شرعی حکم سے واقف نہیں ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ عورت کی طلاق یا مرد کی دوسری شادی کو حق مہر کی ادائیگی کے ساتھ مشروط کر دیا جائے۔