مغربی اقوام کی وحشت و بربریت ۔ تاریخ کے آئینے میں

   
۲۶ فروری ۲۰۰۲ء

مجھ سے بعض دوستوں نے پوچھا ہے کہ کیوبا کے امریکی تفتیشی مرکز میں جن طالبان اور القاعدہ کے ارکان کو لے جایا گیا ہے اور وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے بارے میں آپ نے ابھی تک کیوں نہیں لکھا؟ میں نے ان دوستوں کو جواب دیا کہ یہ سب کچھ میرے لیے خلاف توقع نہیں ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے توقع کے مطابق ہو رہا ہے اور ایسا ہی ہونا تھا۔ اس لیے مجھے بطور خاص اس کے بارے میں کچھ لکھنے کی سردست ضرورت محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ اور یہ صرف میری بات نہیں جس شخص کی بھی تاریخ پر نظر ہے اور وہ مغربی اقوام کے دکھانے کے دانتوں کے ساتھ ساتھ کھانے کے دانتوں سے بھی واقف ہے اس کے لیے امریکہ کا یہ طرز عمل خلاف توقع اور قابل تعجب نہیں ہے کہ اس نے افغانستان کےخلاف باقاعدہ اعلان جنگ کرنے اور ہر مرحلہ پر اسے جنگ قرار دینے کے باوجود اپنے شکست خوردہ مخالفین میں سے گرفتار شدگان کو ’’جنگی قیدی‘‘ تسلیم نہیں کیا۔ اور امریکہ پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود کیوبا کے تفتیشی مرکز میں لے جائے جانے والے قیدیوں کو وہ حقوق اور سہولتیں دینے کے لیے تیار نہیں ہے جو ’’جنیوا کنونشن‘‘ کے واضح فیصلوں کے مطابق انہیں ہر حال میں حاصل ہونی چاہئیں۔ یہ طاقت کی حکومت اور جنگل کے قانون کا مظاہرہ ہے جو پہلی بار نہیں ہے بلکہ مغربی اقوام اس سے قبل بیسیوں بار ایسا کر چکی ہیں۔

طالبان اور القاعدہ کے قیدیوں کے ساتھ امریکی حکومت کا موجودہ رویہ صرف ان لوگوں کے لیے تعجب اور حیرت کا باعث ہو سکتا ہے جو امریکی اتحاد کو اقوام متحدہ کے منشور، جنیوا کنونشن کے فیصلوں، اور امریکہ یا دیگر مغربی ملکوں کے دساتیر و قوانین کے حوالہ سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اصول پسند قوتیں ہیں جو اصول و ضوابط کی جنگ لڑتی ہیں۔ لیکن جو حضرات ان اقوام کے ماضی اور مفتوح اقوام کے ساتھ ان کے طرز عمل کے تسلسل سے واقفیت رکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکی اتحاد کے نزدیک اصول و ضوابط اور اخلاق و اقدار کی حیثیت صرف ہتھیاروں کی ہے جنہیں وہ اپنی مخالف اقوام و ممالک کے خلاف خوبصورتی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جب انہی اصول و ضوابط پر خود عمل کی باری آتی ہے تو ’’وی آئی پی‘‘ کے مقام پر فائز ہو کر اپنے آپ کو اس سے مستثنیٰ قرار دے لیتے ہیں۔ یہ نسلی برتری یا وی آئی پی ہونے کی بات محض اندازہ نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ کے اعتقادی اور تہذیبی پس منظر کا حصہ ہے جس کی نشاندہی قرآن کریم نے سورہ البقرہ کی آیت ۸۰، سورہ المائدہ کی آیت ۱۸ اور دیگر مقامات پر کی ہے کہ یہ دونوں قومیں خود کو باقی امتوں سے ممتاز اور وی آئی پی سمجھتی ہیں۔ یہودیوں کا کہنا ہے کہ ہم انبیاء کرامؑ کی اولاد ہیں جبکہ عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ قیامت تک جو گناہ بھی کریں گے ان سب کا کفارہ حضرت عیسٰیؑ ان کے بقول سولی پر چڑھ کر دے گئے ہیں۔ اس لیے بالادستی، برتری اور کسی بھی قسم کی مسئولیت سے بالاتر ہونے کی بات یہود و نصارٰی کی جبلت اور مزاج میں شامل ہے جس کا مظاہرہ ہر دور میں ہوتا رہا ہے اور آج بھی امریکی اتحاد اسی جبلت و فطرت کا کھلے بندوں اظہار کر رہا ہے۔

میں اپنے قارئین کو مشورہ دوں گا کہ وہ کیوبا کے تفتیشی مرکز میں طالبان اور القاعدہ کے قیدیوں کے ساتھ امریکی طرز عمل پر حیرت کا اظہار کرنے کی بجائے اور اس سلسلہ میں امریکہ سے کسی خیر اور انصاف کی توقع بلکہ خوش فہمی رکھنے کی بجائے مغربی اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور ان ’’کارناموں‘‘ پر ایک نظر ڈالیں جو انہوں نے مختلف ممالک و اقوام کو غلام اور نوآبادی بنانے کے بعد گزشتہ صدیوں میں ان سے روا رکھے تھے۔ خود ہمارے ہاں برصغیر میں فرنگی حکومت قائم ہونے کے بعد حریت پسندوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور انہیں جس اذیت ناک اور وحشت ناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا وہ آج بھی تاریخ کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ اگر تقابل کر کے دیکھا جائے تو برصغیر میں برطانوی حکمرانوں کے تشدد و بربریت کا شکار ہونے والے حریت پسندوں اور کیوبا میں امریکی تشدد کا نشانہ بننے والے مظلوم قیدیوں کی حالت زار میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔

کچھ عرصہ قبل سابق ڈپٹی میئر دہلی مولانا امداد صابری مرحوم کی کتاب ’’تاریخ جرم و سزا‘‘ دیکھنے کا موقع ملا، آج کل پھرا س کی تلاش میں ہوں مگر دستیاب نہیں ہو رہی۔ اس میں انہوں نے ان مظالم کی تفصیل بیان کی ہے جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی حکومت نے برصغیر کے عوام کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کے لیے روا رکھے تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ تہذیب و تمدن کے علمبردار برطانوی افسران نے اپنے مخالفین کو

  1. توپ کے منہ پر باندھ کر گولے سے اڑا دیا تھا،
  2. گھٹنوں تک زمین میں گاڑ کر ان پر بھوکے کتے چھوڑے گئے تھے،
  3. اور زندہ انسانوں کو سور کی کھالوں میں سی کر آگ میں جلا دیا تھا۔

امریکی استعمار بھی اسی برطانوی استعمار کا جانشین ہے اس لیے اس سے اس کے علاوہ اور کس طرز عمل کی توقع کی جا سکتی ہے؟ مولانا امداد اللہ صابری مرحوم کے علاوہ معروف احرار الحاج مرزا غلام نبی جانباز مرحوم نے بھی اپنی کتاب ’’بڑھتا ہے ذوق جرم میرا ہر سزا کے بعد‘‘ میں اس تشدد و بربریت کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکی عزائم، طرز عمل اور ہٹ دھرمی کے پس منظر اور اسباب کو سمجھنے کے لیے ان دو کتابوں کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔

اس وقت میرے سامنے گورنمنٹ ڈگری کالج گوجرنوالہ کے ادبی مجلہ ’’مہک‘‘ کا گوجرانوالہ نمبر ہے جو ۱۹۸۲ء تا ۱۹۸۴ء کے دورانیہ میں شائع ہوا تھا۔ گیارہ سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل اس ضخیم نمبر میں گوجرانوالہ کی تاریخ و ثقافت کے حوالہ سے معلومات کا گراں قدر ذخیرہ مرتب صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں ۱۹۱۹ء میں رولٹ ایکٹ کے نفاذ کے موقع پر ملک بھر میں ابھرنے والی سیاسی احتجاجی تحریک اور اس میں شریک ہونے والوں پر مہذب برطانوی حکومت کے مظالم کی کچھ تفصیل بیان کی گئی ہے جس کے بعض حصے بطو رنمونہ نقل کیے جا رہے ہیں تاکہ یہ بات قارئین کے علم میں ہو کہ طالبان اور القاعدہ کے قیدیوں کے ساتھ امریکی اتحاد کا طرز عمل کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ ان کی جبلت اور تاریخ کا حصہ ہے۔

۱۹۱۷ء میں نیشنل کانگریس نے مطالبہ کیا تھا کہ اس سال کے اندر اندر مکمل طور پر ہندوستان کو آزادی دی جائے۔ اس خیال سے انقلاب پسندوں نے تحریک آزادی شروع کر دی۔ وائسرائے نے ان حالات اور تحریک کے اسباب کی تحقیق کے لیے ایک ایسی رپورٹ تیار کی جس میں ہندوستانیوں کی تحریک آزادی کو مکمل طور پر دبانے کی سفارش کی۔ ۱۹۱۹ء میں ایک رولٹ ایکٹ پاس کیا جس کی رو سے باغیانہ تحریکوں کو سختی سے دبا دینے کا اختیار حکومت کو دے دیا نیز اس سلسلہ میں ملزموں کے لیے صفائی کے امکانات کم رہ گئے، گویا حکومت جس کو چاہے گرفتار کرلے اور جیسا چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے۔ اس رولٹ ایکٹ کے خلاف ستیہ گرہ یعنی سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوگئی جس کی غرض یہ تھی کہ رولٹ ایکٹ کو حکومت منسوخ کر دے۔ گاندھی جی نے جنگ عظیم اول میں لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ وہ دل کھول کر مالی اور جانی قربانی دیں ۔۔۔۔۔۔ اب انگریزوں کی تنگ نظری سے مایوس ہوگیا اور اس نے بھی لوگوں کو پر امن مظاہرے اور شورش کرنے کی اجازت دی لیکن لوگ پر امن نہ رہ سکے۔ عوام نے کئی سرکاری عمارات کو نذر آتش کر دیا، ریل کی پٹریاں اکھیڑ دیں، پل توڑ دیے، عدالتوں اور سکولوں کو آگ لگا دی، تار کاٹ دی تاکہ حکومت کا کام معطل ہو جائے۔ آخر چند مقامات مثلاً گوجرانوالہ، لاہور اور امرتسر میں مارشل لاء لگا دیا گیا جہاں ٹکٹیاں بازاروں میں لگا کر ہر اس آدمی کو بید لگائے گئے جس نے کسی گورے کو سلام نہ کیا۔ کئی لوگوں کو تپتی ہوئی زمین پر گھسیٹا گیا، کئی سرکردہ وکلاء اور لوگوں کو گرفتار کر کے جیل خانوں میں اذیتیں دی گئیں، کئی ایک کی جائیداد ضبط کر لی گئی، امرتسر میں نہتے ہندوستانیوں پر جلیانوالہ میں بغیر اطلاع دیے جنرل ڈائر نے گولی چلا دی، باغ چونکہ آبادی میں گھرا ہوا تھا وہاں سے آسانی سے نکلنا مشکل تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں آدمی ہلاک ہوئے۔

۱۵ اپریل ۱۹۱۹ء کو وزیرآباد میں مکمل ہڑتال رہی اور عوام نے اپنے غیظ و غضب کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ دوسرے دن ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کرنل اوبیران فوج اور پولیس کے جلو میں وزیرآباد میں وارد ہوا، اس نے آتے ہی سرکردہ اور مشتبہ لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا اور ان لوگوں کے ساتھ بھی اس نے اپنی روایات کے مطابق انسانیت سوز سلوک کیا۔ پکڑ دھکڑ اور داروگیر کا یہ سلسلہ ۱۸ اپریل تک جاری رہا۔ ۱۸ اپریل کو وزیرآباد میں ایک دربار منعقد ہوا جس میں ڈپٹی کمشنر نے مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا:

’’پاگل اور بے وقوف لوگو! سنو تم نے یہ سمجھ لیا کہ سرکار انگلینڈ کی حکومت ختم ہوگئی، اب تمہارے پاگل پن کا علاج کیا جائے گا۔ ہم نے تمہارے پاگل پن کا علاج دریافت کر لیا ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حکومت کو اختیار ہے کہ وہ جس آدمی کی جائیداد چاہے ضبط کر سکتی ہے، اس کے مکان کو گرا کر ملیامیٹ کر سکتی ہے، نہیں نہیں اگر وہ چاہے تو اس کو نذر آتش کر کے راکھ کا ڈھیر بنا سکتی ہے۔ اور آج یہاں اپنے حکم سے سردار جماعت سنگھ باگا کی تمام جائیداد بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم دیتا ہوں۔‘‘

اس کے بعد وزیرآباد میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ مارشل لاء کے احکامات و ہدایات پر مشتمل اشتہارات دیواروں پر چسپاں کر دیے گئے، بالخصوص ان لوگوں کے مکانوں پر جنہوں نے اس تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ راہنماؤں اور ان کے اعزہ کے مکانوں پر خاص طور پر یہ اشتہار آویزاں کیے گئے اور وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا تھا ان کو حکم دیا گیا کہ وہ ان اشتہارات کی حفاظت کریں۔ چنانچہ لوگوں کو دن میں کئی بار اور رات کو جا جا کر ان اشتہاروں کو دیکھنا پڑتا تھا۔ مارشل لاء کے حکم کے مطابق ان اشتہارات کو پھاڑنا یا انہیں نقصان پہنچانا جرم تھا۔ ایک جگہ خود پولیس ہی نے اشتہار پھاڑ دیا چنانچہ جس آدمی کے مکان پر وہ اشتہار تھا اور جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس اشتہار کی نگہداشت کرے دونوں کو سربازار کوڑے لگائے گئے، اسی طرح ایک اشتہار بارش کی وجہ سے ضائع ہوگیا تو اس پر متعلقہ شخص کو بید کھانے پڑے۔

کرنل اوبیران کی آمد کے بعد حافظ آباد میں عجیب و غریب اعلان کیا گیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ جو شخص بھی اپنے سر پر پگڑی باندھتا ہے وہ صبح سات بجے تحصیل کے ساتھ ملحق میدان میں جمع ہو جائے، جو شخص دیدہ دانستہ نہیں آئے گا یا بیماری وغیرہ کا بہانہ بنائے گا اسے گولی مار دی جائے گی۔ اس اعلان کی وجہ سے کم و بیش تمام بالغ مرد تحصیل کے پاس جمع ہوگئے، انہیں وہاں دن بھر بٹھائے رکھا گیا، اس گروہ میں سے پولیس مقدمات کے لیے جھوٹے گواہ تیار کرتی تھی، جو شخص غداری اور گواہی پر آمادہ ہو جاتا اسے اس جبری حاضری سے رخصت مل جاتی اور شہر کے شرفاء کی یہ تذلیل کم و بیش ڈیڑھ ماہ تک جاری رہی۔

گوجرانوالہ شہر کے جیالے اور زندہ دل باسیوں کا احتجاج جب کسی طرح فرنگی حکمرانوں کے کنٹرول میں نہیں آرہا تھا تو ان پر باقاعدہ طیاروں سے بمباری کی گئی جس کی کیفیت ’’مہک‘‘ کے مضمون نگار نے یوں بیان کی ہے کہ

’’شور، ہنگامہ، آگ، لوٹ مار کا ایسا سماں تھا کہ دیکھنے والے خوفزدہ ہوئے جاتے تھے۔ اسی شور و شر میں ہوائی جہازوں کی گونج پیدا ہوئی اور پھر یہ گونج اس طرح ہر شور پر غالب آئی کہ اس گونج کے علاوہ باقی کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ لیکن چار جنگی جہاز آناً فاناً شہر کے اوپر پہنچ چکے تھے، وہ زیادہ سے زیادہ سو دو سو فٹ کی بلندی پر نہایت تیز رفتاری کے ساتھ چکر لگا رہے تھے، ان کی گھن گرج سے شہر کا شہر ہراساں اور خوفزدہ ہوگیا، سڑکیں بازار گلیاں ویران ہوگئیں۔ مشین گنوں سے گولیوں کی بوچھاڑ اور جہازوں کی آواز سے لوگ اس قدر ہراساں ہوئے کہ تھوڑی دیر پہلے کا میدان حشر شہر خموشاں بن چکا تھا۔ پورے شہر میں کوئی آدمی نظر نہیں آتا تھا، ہوئی جہاز اتنے نیچے تھے کہ شہر کی بلند عمارتوں سے ان کا فاصلہ پانچ چھ فٹ ہی کا تھا۔ پورے شہر میں جب کوئی آدمی نظر نہ آیا تو ہوائی جہازوں نے شہر کے آس پاس گاؤں پر پرواز کی۔ دھلے سے کچھ لوگ شہر کی طرف آرہے تھے ان لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی جہاز سے بم گرایا گیا جس کی آواز شہر کے کونے کونے میں سنی گئی۔ پھر اوپر تلے دو تین بم پھینکے گئے، زمین تھرتھرا گئی، لوگوں پر سکتہ طاری ہوگیا۔ لاشوں کا قیمہ فضا میں اڑنے لگا گرجاکھ کے لوگ بمباری سے خوفزدہ ہو کر گھروں سے باہر نکل آئے تھے لیکن اوپر تلے دوبم ان پر بھی گرائے گئے اور مشین گنوں سے گولیاں برسائی گئیں۔ شہر کے لوگ بھی گھروں سے نکل کر کھلی فضا میں پہنچنا چاہتے تھے، ایسے ہی بدحواسوں کا ایک گروہ خالصہ ہائی سکول کے صحن میں جمع ہوگیا لیکن ایک بم گرا اور ان کے پرخچے اڑا دیے گئے۔ اس کے بعد شہر پر اور ریلوے اسٹیشن کے آس پاس کئی بم گرائے گئے، مشین گنوں سے لگاتار فائرنگ کی گئی اور تقریباً پون گھنٹہ ان کی زندگیوں سے کھیلنے کے بعد ہوائی جہاز لاہور کی طرف واپس ہوئے۔‘‘

مہذب اور متمدن مغربی اقوام کا یہ سلوک ان شہریوں کے ساتھ تھا جو ان کی حکومت کے دائرہ میں رہتے ہوئے ایک قانون کی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن جن لوگوں نے مغرب کی بالادستی کو سرے سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ہتھیار بند ہو کر ان کے مقابلہ پر آگئے ہیں ان کے بارے میں امریکہ سے جنیوا کنونشن کی قراردادوں پر عملدرآمد کی توقع رکھنے والوں کی سادگی اور بھولپن پر آخر کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter