اسلام کے جدید یورپی برانڈ کی تیاریاں

   
تاریخ : 
فروری ۲۰۰۵ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۱۳ جنوری ۲۰۰۵ء کی اشاعت میں ’’نیوزویک‘‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یورپ کی حکومتیں معتدل مسلمانوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ اکثر بیرون ملک سے آنے والے مسلمان امام اسلام کا (ان کے بقول) غلط مطلب نکال کر مسلمانوں کے کان بھر رہے ہیں۔ نیوزویک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سویٹزرلینڈ کے بشپ سے لے کر ڈینش وزراء تک سبھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یورپ اپنے برانڈ کا جدید ترین اور یورپی رنگ میں رنگا ہوا اسلام ایجاد کرے، نیز ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یورپی حکومتیں خود اپنے اماموں کی تربیت کریں جبکہ اسپین کی وزارت داخلہ نے مساجد کی ریگولیشن پر زور دیا ہے۔

دراصل یورپی حکمرانوں کا خیال تھا کہ مختلف مسلم ممالک سے یورپ میں آنے والے لاکھوں مسلمان جب یورپ میں زندگی کی سہولتیں اور آزاد ماحول دیکھیں گے اور مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک سے متاثر ہوں گے تو وہ یا ان کی آنے والی نسلیں خودبخود اسلام اور اپنی قدیمی روایات سے دستبردار ہو کر یورپ کے رنگ میں رنگے جائیں گی، اور مسلم ممالک سے یورپ میں جانے والے علماء کرام اور ائمہ و خطباء بھی ڈالر اور پونڈ وغیرہ کی خاطر قرآن و سنت کے احکام میں پادری صاحبان کی طرح من مانی تعبیرات و تاویلات کا سلسلہ شروع کر دیں گے۔ لیکن ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوا ہے اور ان کے اندازے سے برعکس نہ صرف یہ کہ علماء کرام اور ائمہ و خطباء نے یورپ کے مزاج اور معاشرت کے مطابق اسلامی احکام کی کوئی نئی تشریح اور تاویل سامنے لانے کا طریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ عام مسلمانوں کی غالب اکثریت نے بھی اپنے دین اور اسلامی اقدار سے دستبرداری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کی نئی نسل، جس کے لبرل ہونے کی زیادہ توقع کی جا رہی تھی، اسلام کے ساتھ وابستگی اور اسلامی اقدار و روایات کے ساتھ تعلق کے اظہار میں سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے۔ یہ صورتحال یورپی حکومتوں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہے جس کا حل یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ یورپی حکومتیں مساجد کے اماموں کو خود تربیت دیں اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق ڈھالیں، لیکن یہ توقع پوری نہیں ہوگی اس لیے کہ مسلمانوں کے پاس قرآن کریم اور سنت رسولؐ دونوں اصلی اور محفوظ حالت میں موجود ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے اسلامی احکام کی کوئی نئی تشریح یا اسلامی اقدار و روایات کی ویسٹرنائزیشن کی کوئی صورت عملاً ممکن ہی نہیں ہے۔

اس لیے مغربی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ غیر منطقی سوچوں اور مفروضوں پر وقت ضائع کرنے کی بجائے معروضی حقائق کا ادراک حاصل کریں اور اسلام کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر اس کا حلیہ بگاڑنے کی ناکام کوشش کرنے کی بجائے اس کے وجود اور اصلی حالت میں اس کے باقی رہنے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کا آزادانہ حق دیں۔ مغربی ملکوں کو اگر اپنے فلسفہ اور تمدن و ثقافت پر اعتماد ہے تو انہیں اسلام کے ساتھ اس کے آزادانہ اور صحت مندانہ مقابلہ سے گھبرانا نہیں چاہیے، آخر وہ اس قدر پریشانی اور گھبراہٹ کا شکار کیوں ہیں کہ وہ مسلمانوں کو مغربی ملکوں کے ساتھ ساتھ خود ان کے اپنے ملکوں میں بھی اسلام کے احکام و قوانین پر آزادانہ طور پر عمل کرنے کا موقع دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter