بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج تحریک ختم نبوت کے ساتھ میرا تعلق کب ہوا، کن کن مراحل سے گزرا، اور آج کس پوزیشن میں ہے، اس کا تھوڑا خلاصہ عرض کروں گا۔ تحریک ختم نبوت میں میری بچپن کی یادوں میں سے یہ ہے کہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں، میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ تحریک میں گرفتار ہوئے تھے، تقریبًا نو ساڑھے نو ماہ ملتان جیل میں رہے تھے۔ مجھے ان کی گرفتاری کا منظر بھی یاد ہے اور رہائی کا منظر بھی یاد ہے۔ یہ گکھڑ میں بٹ دری فیکٹری جی ٹی روڈ پر ہے، اس میں چوبارہ ہوتا تھا، اب تو نئی بلڈنگ ہے، پرانی بلڈنگ میں، وہ ہماری رہائش تھی، بٹ دری فیکٹری کے اوپر، میری ولادت بھی وہیں کی ہے۔ والد صاحبؒ نے تحریک کے فیصلے کے مطابق خود گرفتاری دینے کا فیصلہ کیا۔ مجھے وہ دن یاد ہے کہ اس دن صبح ہمارے گھر میں حلوہ پکا تھا۔ ایک طالب علم ہوتے تھے والد صاحب کے شاگرد عزیز الرحمٰن، وہ والد صاحبؒ کے ساتھ گئے اور کچھ لوگ اور، بستر اٹھایا ہوا تھا انہوں نے، اور سیڑھیوں سے اترنے کا منظر میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ گرفتاری پیش کی تھی اور انہیں پھر ملتان جیل میں بھیج دیا گیا تھا جہاں تقریباً نو ساڑھے نو ماہ رہے تھے۔ اس دوران ہم نے رہائش بھی تبدیل کی تھی، جی ٹی روڈ کے اس مکان سے ہم، اندر ایک مکان کرائے پر لیا تھا وہاں چلے گئے تھے۔ جب دس ماہ کے بعد واپس آئے ہیں تو وہ منظر بھی میری نگاہوں میں ہے۔ ہمارے ایک دوست ہوتے تھے یعقوب صاحب، گھریلو تعلقات تھے، ان کو ہم ماموں یعقوب کہا کرتے تھے، انہوں نے آ کر بتایا کہ مولوی صاحب آ گئے ہیں۔ تو والد صاحبؒ کو میں جا کر سڑک پر ملا، ان کے ساتھ آیا۔
اس دوران ایک منظر اور یاد ہے مجھے کہ ہم چھوٹے چھوٹے بچے گلیوں میں گھوما کرتے تھے، نعرے لگایا کرتے تھے، وہ نعرے یہاں بتانے والے نہیں ہیں، یہ میری پہلی انٹری ہے تحریک ختم نبوت میں کہ اس میں ہم چھوٹے چھوٹے بچے، بلکہ مجھے یاد ہے کہ شاید کرتا ہی ہوتا تھا ہمارا، اس زمانے میں بچوں کی شلوار پاجاموں کا رواج نہیں ہوتا تھا، کرتا ہی پہنا ہوتا تھا، گھومتے پھرتے تھے اور نعرے لگایا کرتے تھے۔ یہ میری پہلی انٹری ہے تحریک ختم نبوت میں، الحمد للہ پانچ سال کی عمر میں اس دائرے میں داخل ہوا ہوں۔
اس کے بعد گکھڑ میں ہمارے استاد محترم قاری محمد انور صاحب جن کا میں اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں، ان کا ذوق یہ تھا کہ وہ اپنے استاد محترم حضرت مولانا قاری سید محمد حسن شاہ صاحبؒ جو بہت بڑے قاری بھی تھے اور بہت بڑے خطیب بھی تھے، اکثر جلسہ کرایا کرتے تھے استاد محترم کو بلا کر، سال میں ایک دو دفعہ قاری حسن شاہ صاحب تشریف لاتے تھے اور ان کی تقریر ہوا کرتی تھی، کبھی مسجد میں، کبھی مسجد سے باہر۔ ایک جلسہ رکھا، قاری سید محمد حسن شاہ صاحبؒ کی تقریر تھی۔ ہماری استاد محترم کا ذوق یہ تھا کہ مجھے کچھ لفظ یاد کروا کے کہا کرتے تھے مولوی! تقریر کر۔ وہ مجھے مولوی کہا کرتے تھے۔ مولوی! تقریر کر۔ پہلے کچھ رٹاتے تھے اور پھر مجھے کھڑا کرتے تھے۔ میں جو تقریر وغیرہ تھوڑی بہت کر لیتا ہوں اس کے پیچھے قاری صاحب ہیں۔ابتدائی تیاری، کئی دفعہ ایسا ہوا۔ میں نے تقریر کی، مائیک پر کھڑا ہوا، مجمع تھا، پبلک جلسہ تھا روڈ پر۔ میں نے وہی نعرے تقریر میں شروع کر دیے، جو بتانے کے نہیں ہیں۔ والد صاحب پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، وہ اٹھے، مجھے یہاں سے پکڑا، پیچھے ہٹایا، مائیک پر کھڑے ہو کر کہا کہ بھئی بچہ ہے، ایسی باتیں کر گیا ہے، میں اس پر معذرت خواہ ہوں، ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ اور مجھے گھر آ کر ڈانٹا، بیٹا ایسی باتیں نہیں کرتے، بات ادب سے کرتے ہیں اخلاق سے کرتے ہیں، یہ کیا تم نے گالیاں دینی شروع کر دی تھیں؟ بات کرتے ہیں، گالیاں نہیں دیا کرتے۔ یہ میرا دوسرا مرحلہ ہے ختم نبوت کی تحریک کا۔
اس کے بعد حفظ مکمل ہوا، میں ۱۹۶۲ء میں نصرۃ العلوم میں آیا، اس زمانے میں یہ ثانیہ، رابعہ نہیں ہوتا تھا۔ ہدایۃ النحو کا سال ہے، کافیہ کا سال ہے، جامی کا سال ہے، شرح عقائد کا سال ہے، جلالین کا سال ہے، یہ ہوتا تھا۔ میرا وہ ہدایۃ النحو کا سال تھا۔ استاد محترم حضرت مولانا عبد القیوم صاحب ہزارویؒ بہت جلالی بزرگ تھے، بہت غضب کے مدرس تھے، بڑے مشف استاد تھے، میرے زیادہ اسباق ان کے پاس تھے، بڑی شفقت بھی فرماتے تھے اور سختی بھی فرماتے تھے، دونوں کام کرتے تھے۔ وہ مجلس احرار گوجرانوالہ کے صدر رہے ہیں، اور پھر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر بھی تھے، چونکہ ان کے ساتھ انس زیادہ تھا تو آہستہ آہستہ اس میں میرا بھی حصہ ہونا شروع ہو گیا۔
فاتح قادیاں حضرت مولانا محمد حیات صاحب قدس اللہ سرہ العزیز میرے ختم نبوت کے حوالے سے پہلے باضابطہ استاد تھے۔ وہ بہت سادہ بزرگ تھے، بہت سادہ بزرگ تھے۔ آپ ان کو دیکھ کر یہ تصور نہیں کر سکتے کہ کوئی بڑے عالم ہیں، بلکہ عالم بھی ہیں۔ ڈاڑھی تو قدرتی نہیں تھی۔ ڈاڑھی تھی ہی نہیں۔ بلکہ اس پر ایک لطیفہ سناؤں گا۔ مولانا محمد خان صاحبؒ ہمارے گکھڑ میں ان کی شادی ہوئی، چکوال کے تھے، ختم نبوت کے مبلغ تھے اس زمانے میں۔ انہوں نے بتایا کہ استاد جی آئے ہوئے ہیں، نام تو میں نے سن رکھا تھا، فاتح قادیاں حضرت مولانا محمد حیات صاحبؒ۔ میں نے کہا میں صبح آؤں گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ جمعہ والے دن صبح چھٹی ہوتی تھی، تو میں صبح صبح تقریباً نماز کے ایک گھنٹے بعد وہاں گیا، دفتر میں اوپر چڑھا، میں نے دیکھا کہ ایک آدمی لیٹا ہوا ہے، منہ لحاف سے باہر ہے، سردی کا موسم تھا، چہرہ تھا جیسے کوئی بڑھیا ہے، میں سیڑھیوں سے دیکھ کر نیچے اتر آیا، میں نے سوچا ان کی والدہ آئی ہو گی یا کوئی بزرگ خاتون آئی ہو گی۔ میں بازار میں کھڑا ہو گیا جا کر کہ مولوی صاحب آئیں گے تو پھر اوپر جاؤں گا۔ مولوی صاحب ناشتہ لینے گئے ہوئے تھے۔ نیچے بازار میں کھڑے ہوئے دیکھا، والد صاحب کی وجہ سے اکثر لوگ مجھے استاد جی کہتے تھے۔ استاد جی! کہاں کھڑے ہیں، اوپر نہیں گئے؟ میں نے کہا، گیا تھا۔ پھر؟ میں نے کہا، کوئی بوڑھی خاتون سوئی ہوئی ہے میں واپس آگیا ہوں۔ ہنس پڑے، کہا کوئی بڑھیا نہیں ہے حضرت مولانا محمد حیات صاحب ہیں۔ اوپر گئے، استاد جاگے، انہوں نے میرا تعارف کروایا۔
حضرت مولانا محمد حیاتؒ نے یہاں پندرہ دن کا کورس کروایا، عام طور پر دو تین مسئلے پڑھایا کرتے تھے، اب بھی مناظرین پڑھاتے ہیں۔ ختم نبوت پر قادیانیوں کے دلائل، ہمارے دلائل، سوال و جواب، حیاتِ عیسٰیؑ بہت بڑا علمی مسئلہ ہے، صدق و کذب مرزا، مناظرے کے اصول بتایا کرتے تھے کہ یوں بات کرنی ہے، ایسے بات کرنی ہے، یہ حوالہ دینا ہے۔ تو حضرت مولانا محمد حیاتؒ نے (یہ کورس کروایا) شہر کے مختلف مدارس کے طلباء و علماء اس میں شریک ہوتے تھے۔ میں اس کلاس کا باقاعدہ طالب علم تھا۔ یہ غالباً ۱۹۶۳ء کی یا ۱۹۶۴ء کی بات ہے۔ میں نے وہ سبقاً سبقاً ان سے پڑھا۔ استاد محترم تھے، بزرگ تھے، سادہ سا لباس ہوتا تھا، دور سے آپ پہلی دفعہ دیکھیں تو یوں لگتا تھا جیسے کسان حل چلا کر حل چھوڑ کر آیا ہے۔ بالکل سادہ سا لباس، کوئی آدمی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ بڑے عالم ہیں یہ۔ چونکہ استاد محترم ہیں میرے، ان کی سادگی کی دو تین باتیں میں عرض کرنا چاہوں گا۔ اور واقعتًا یہ چند لوگ تھے جن سے ہم نے بہت کچھ سیکھا، اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین۔
پہلی بات تو یہ کہ میں انہیں دیکھ کر بڑھیا سمجھا کہ کوئی بڑھیا لیٹی ہوئی ہے۔ ان کا ذوق بھی یہ تھا، حضرت والد صاحبؒ بھی ہمیں یہ تلقین کیا کرتے تھے اور حضرت مولانا محمد حیاتؒ بھی۔ بعض لوگ ان سے غصے ہوتے تھے کہ مولانا محمد حیات صاحب کیا کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کہتے ہیں، یہ کیا؟ لیکن وہ کہتے تھے نہیں بھئی! نام جس کا بھی لو اخلاق سے لو۔ اسی کلاس کے دوران مولانا محمد حیاتؒ نے دلائل پڑھائے اور مجھے کہا کہ اٹھ کر بیان کرو کیا پڑھا ہے۔ میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور کہا مرزا ۔۔۔۔۔ ٹوک دیا، نہ بیٹا نہ، ایسے نہیں کہتے، وہ بھی ایک قوم کا لیڈر ہے، کہو مرزا صاحب یوں کہتے ہیں، مجھے اختلاف ہے۔ یہ دوسرا سبق تھا۔ یہ دو سبق ایسے ذہن میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ ان شاء اللہ مرتے دم تک رہیں گے۔ یہ کورس میری دوسری انٹری تھی، پندرہ دن کا کورس میں نے حضرت مولانا محمد حیاتؒ (سے پڑھا)۔
استاد الکل تھے، میرے بھی استاد تھے۔ ان کی سادگی کی ایک بات کہ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ۔ ختم نبوت کو منظم کرنے میں حضرت مولانا محمد جالندھریؒ کی ہمت، بصیرت اور جدوجہد تھی، ایک ادارہ بنا گئے، اللہ تعالیٰ ان کو (اس کا اجر دے)۔ وہ چونکہ معاصر تھے مولانا محمد حیاتؒ کے، ساتھی تھے۔ تو مبلغین کو جہاں وہ تنخواہ بھی دیتے تھے خرچہ بھی دیتے تھے، لیکن رسید بک بھی دیتے تھے کہ چندہ بھی لانا ہے۔ آج بھی مبلغین کے ذمے چندہ بھی ہوتا ہے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے بے تکلفی سے مولانا محمد حیاتؒ فرمانے لگے کہ دیکھو محمد علی کا کام کہ مجھے بھی رسید بک پکڑا دی ہے کہ چندہ بھی اکٹھا کر کے لانا ہے، میں کس سے مانگوں، میرے تو مزاج نہیں ہے۔ بعض بزرگوں کا مزاج ہوتا ہے۔ حضرت والد صاحبؒ کا اور حضرت صوفی صاحبؒ کا بھی یہی مزاج تھا کہ کسی سے کہنا چندے کے لیے، توبہ توبہ۔ والد صاحبؒ کہا کرتے تھے کہ مجھے کسی سے کہنا پڑ جائے کہ فلاں ضرورت ہے مسجد کی یا فلاں تو مجھے خطبہ بھول جاتا ہے۔ تو میں نے مولانا سے کہا کہ رسید بک مجھے دیں۔ کہا تم کیا کرو گے؟ میں نے اس زمانے میں، یہ ۱۹۶۳ء، ۱۹۶۴ء، ۱۹۶۵ء کی بات ہے، گکھڑ میں اپنے کچھ دوستوں سے کہہ کہلوا کر کچھ سولہ سترہ روپے جمع کیے۔ اس زمانے میں سولہ ستر روپے خاصی رقم ہوتی تھی، اس وقت دودھ روپے کا دو کلو ہوتا تھا۔ میں نے دو تین دن کے بعد لا کر دیے۔ اللہ تیرا بھلا کرے، اللہ تیرا بھلا کرے۔ ان کی اپنی بے تکلفی کی زبان تھی ’’میں وی ہون محمد علی دے منہ تے ماراں گا، اے لے پھڑ چندا، میں وی لیایا واں‘‘۔
یہ بے تکلفی، سادگی تھی، لیکن علم کا پہاڑ تھے، قادیانیوں کے خلاف سب سے بڑے مناظر وہ تھے، یہ سب مولانا منظور چنیوٹی وغیرہ ان کے شاگرد ہیں۔ استاد المناظرین تھے۔ بات دھیمی دھیمی کرتے تھے اور ایسے جکڑتے تھے کہ آدمی پھڑپھڑا کر رہ جاتا تھا کہ کرے کیا۔ سخت بات نہیں کرتے تھے، گرم بات نہیں کرتے تھے۔ ماسٹر تاج الدین انصاریؒ ایک جملہ فرمایا کرتے تھے کہ کہتے ہیں کہ ریت کی دیوار تعمیر نہیں ہو سکتی لیکن مولوی محمد حیات کر دیتا ہے۔ گفتگو کا اسلوب تھا، ٹھنڈی ٹھنڈی، میٹھی میٹھی۔ نہ بیبا جی ایداں نہیں ایداں، یہ بات یوں نہیں یوں ہے، اور مخالف مناظر کو ایسے جکڑتے تھے اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ جاؤں کدھر اب میں۔
ایک دن گکھڑ تشریف لائے، ان کی سادگی کی بات دیکھیں۔ گھر تشریف لائے تو کھانا شام کا پکایا۔ میں کھانا لے کر آیا۔ سچی بات ہے کہ آج بھی میں یاد کرتا ہوں تو مجھے رونا آجاتا ہے۔ دو سالن تھے، گوشت تھا اور کوئی سبزی وغیرہ تھی۔ میں نے دستر خوان پر کھانا رکھا۔ ’’او مولوی صاحب! دو سالن؟ مولوی کے گھر؟ دو سالن؟ اتنی فضول خرچی؟ ایک اٹھا لو ورنہ میں اٹھا دوں گا‘‘۔ دسترخوان پر دو سالن ان کے نزدیک فضول خرچی تھی۔ میں نے جلدی سے دال اٹھا لی کہ کہیں گوشت اٹھا کر نہیں رکھ دیں بابا جی۔ یہ وہ لوگ تھے ان کی کمائی ہم کھا رہے ہیں، سچی بات ہے۔ محنت ان کی ہے، قربانیاں ان کی ہیں۔ ہم تو ایک سالن والا دسترخوان چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں کہ یار یہ کیا دعوت کی ہے! سچی بات ہے، ایمانداری کی بات ہے کہ یہ چند بزرگ تھے جن کی قربانیاں اور محنت تھی، عزت آج ہم پا رہے ہیں۔ ان کی قربانیاں اور کمائیاں ہم کھا رہے ہیں اور ان کے نام پر ہم عزت پا رہے ہیں۔ یہ سب ان کی برکات ہیں۔ یہ میری دوسری انٹری تھی ختم نبوت تحریک میں۔
آغا شورش کاشمیریؒ تحریک ختم نبوت کے بہت بڑے لیڈر تھے، احرار لیڈر تھے، بڑا دبنگ آدمی تھا۔ اس زمانے میں، یہ دور وہ تھا، ہم نے وہ دور دیکھا ہے اور بھگتا ہے کہ جلسے میں تقریر میں قادیانیوں کا نام لے کر تردید کرنا جرم سمجھا جاتا تھا، مقدمات ہو جاتے تھے، گرفتاری ہو جاتی تھی کہ نام لے کر ان کے خلاف بات کیوں کی ہے۔ اس پر دو یا تین مقدمے میں نے بھگتے ہیں۔ اور گوجرانوالہ سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے ہوتے تھے میاں منظور الحسن وہ میرے وکیل ہوتے تھے۔ اس شخص کا کمال ہے کہ ختم نبوت کا ہر کیس خود لڑتے تھے اور بلا فیس لڑتے تھے۔ اور تھے پیپلز پارٹی کے، ایم این اے تھے۔ اپنے اپنے ذوق کی بات ہے۔ ایک ارشد میر ہوتے تھے ہمارے دوست وہ بھی وکیل تھے۔ اور رفیق تارڑ صاحب گوجرانوالہ بار میں رہے ہیں۔ اور ختم نبوت کے حوالے سے کوئی کیس بھی ہو، رفیق تارڑ صاحب، ارشد میر، اور میاں منظور یہ ہر وقت حاضر ہوتے تھے، بلا فیس لڑتے تھے، خرچہ بھی جیب سے کرتے تھے۔ خیر، اس زمانے میں سعودی عرب میں قادیانیوں کے داخلے پر پابندی نہیں تھی، حج کے لیے آتے جاتے تھے۔ ایک خبر آئی جس نے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ خانہ کعبہ کو غسل دیتے ہیں حج سے کچھ دن پہلے۔ ظفر اللہ خان قادیانی اس زمانے میں عالمی عدالت کے جج ہوتے تھے، خبر آئی کہ خانہ کعبہ کے غسل میں ظفر اللہ خان شریک تھے۔ آگ لگ گئی کہ ظفر اللہ خان اس غسل میں اس اعزاز کے ساتھ پروٹوکول کے ساتھ۔ خبریں آئیں تصویریں آئیں کہ خانہ کعبہ کو غسل دینے میں انہوں نے شریک کیا ہے۔ خیر ملک میں تقریریں وغیرہ ہوئیں اور جو ہوتا ہے۔ ایک مقدمہ میں نے اس پر بھی بھگتا ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں شور وغیرہ ٹھیک ٹھاک مچایا کرتا تھا میں۔
پھر آہستہ آہستہ مہم چلی دنیا میں تو سعودی عرب نے حج کے لیے قادیانیوں کے آنے پر پابندی لگا دی۔ اس وقت بھی پوزیشن یہ ہے کہ کسی قادیانی کا اگر پتہ چل جائے، اگر گیا بھی ہو تو نکال دیتے ہیں۔ قادیانیوں کے حج میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ اس پر آغا شورش کاشمیریؒ کا پرچہ تھا چٹان، اس میں ایک شذرہ لکھا ’’الحمد للہ‘‘ اور آگے تین چار سطریں، یا اللہ تیرا شکر ہے کہ سعودی حکومت کو یہ توفیق عطا کی، عالم اسلام کے نمائندہ ہیں مرکز ہیں۔ بس چار پانچ سطریں، صرف اتنی بات کہ سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا، اللہ تعالیٰ کی تعریف و ثنا کی، اور یہ کہا کہ ہماری ایک بڑی منزل حل ہو گئی ہے کہ سعودی عرب میں قادیانیوں کے داخلے پر پابندی لگ گئی ہے۔ اس پر، یہ ایوب خان کا زمانہ تھا، چٹان کا پرچہ ضبط ہو گیا، چٹان کا پریس ضبط ہو گیا، چٹان کا دفتر سیل ہو گیا، آغا صاحب گرفتار ہو گئے، اس کا ڈکلیریشن منسوخ ہ وگیا۔ وہ کیفیت بھی ہم نے بھگتی ہوئی ہے۔ اس میں پھر ہم نے ایک مہم چلائی۔ حضرت مولانا عبد القیوم صاحبؐ استاد محترم، وہ ہمارے قائد تھے، ہم طالب علم بھی تھے، شاگرد بھی تھے، کارکن بھی تھے۔ الحمد للہ کی مہر بنوائی، علامت بن گئی تھی الحمد للہ۔ نوٹ کے اندر سفید جگہ ہوتی ہے، اس کے لیے مہر بنوائی الحمد للہ اور نوٹوں پر لگانا شروع کر دی۔ یہ تحریک کا ماٹو سا بن گیا تھا۔ اس پر اسٹیٹ بینک کو اعلان کرنا پڑا کہ جس نوٹ پر الحمد للہ کی مہر ہو گی وہ نوٹ کینسل۔ دو تین مہینے ہماری معرکہ آرائی رہی، یہ ہوا وہ ہوا۔ اس میں بھی الحمد للہ شریک رہا ہوں۔ میں اپنی بات کر رہا ہوں کہ فلاں فلاں مرحلے میں۔ یہ بات ہے ۱۹۶۷ء یا ۱۹۶۸ء کی۔ ہم مولانا عبد القیوم صاحب کے کارکن ہوتے تھے، وہ ختم نبوت کے اور احرار کے امیر تھے، ختم نبوت کے دفتر میں میٹنگیں ہوتی تھیں اور یہ سارے کام ہوا کرتے تھے۔ ہم اشتہار بھی لگاتے تھے، جلسوں میں بھی جاتے تھے، نعرے بھی لگاتے تھے۔
اس دوران کا ایک واقعہ اور عرض کروں گا۔ یعنی اس وقت کی سنگینی دیکھیں اور اکابر کی حکمت عملی دیکھیں۔ ہمارے بڑوں نے بڑی حکمت عملی سے سوچ سمجھ کر کہ یوں نہیں تو یوں سہی، یوں نہیں تو یوں سہی۔ اب تو یہ ہے نا کہ بس یوں ہی۔ وہ راستہ متبادل نکال لیتے تھے۔ شیرانوالہ باغ میں جلسہ تھا، سید حسنات احمد ڈی سی تھے گوجرانوالہ کے۔ جلسہ تھا ختم نبوت کا، مولانا جالندھریؒ کی تقریر تھی، موضوع ہی ختم نبوت تھا۔ اسٹیج پر آ کر بیٹھے تو تقریر سے پہلے آرڈر آگیا ڈی سی صاحب کا کہ آپ احمدیوں کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گے، باضابطہ تحریری آرڈر آ گیا کہ قادیانیوں کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گے آپ۔ مولانا جالندھریؒ تو مولانا جالندھریؒ تھے۔ لوگ تو یہی باتیں سننے آئے تھے۔ خطبہ پڑھا۔ ہلکا سا خطبہ پڑھا کرتے تھے سادہ سا، ترنم وغیرہ نہیں تھا، سیدھی سی بات کرتے تھے ’’ایداں اوداں‘‘ اور تین تین چار چار گھنٹے لوگوں کو باندھ کر بٹھائے رکھتے تھے۔ سیدھی سیدھی اور سادہ سادہ باتیں اور کیا مجال کہ مجمع چار گھنٹے بھی ہل جائے ان کے سامنے سے۔ میٹھی میٹھی اور ٹھنڈی ٹھنڈی باتیں کرتے تھے۔ ان کا انداز یہ تھا کہ اردو سے شروع کرتے تھے اور پانچ سات منٹ کے بعد پنجابی پر آجاتے تھے، ٹھیٹھ پنجابی۔ ’’میں آیا تھا، میں نے آج کچھ باتیں سوچ رکھی تھیں، آپ سے کرنی تھیں، میں نے کہا گوجرانوالہ کے بھائیوں سے چند باتیں کروں گا، ڈی سی صاحب کا آرڈر آگیا ہے کہ مرزائیوں کو کچھ نہیں کہنا۔ ہم تو بھئی غیر سیاسی لوگ ہیں، ہم قانون کی خلاف ورزی تو کرتے نہیں ہیں، یہ ہمارے مائی باپ ہیں، ہمارے حکمران ہیں، ان کے حکم کی خلاف ورزی تو نہیں کر سکتے، اب آرڈر آیا ہے میں کیا کروں۔ میں نے تو یہ بات بھی کرنی تھی، یہ بھی کرنی تھی، یہ بھی کرنی تھی، پانچ سات باتیں کہہ کر، ہم نہیں کہتے۔ ہماری حکومت ہے، ڈی سی صاحب ہیں، آرڈر ہے تو ہم نہیں کہتے۔ ہم آج معراج شریف پر تقریر کریں گے‘‘۔ دس بارہ منٹ میں ساری باتیں کہہ کر پھر معراج شریف پر تقریر کی، رجب کا مہینہ تھا۔ غضب کے آدمی تھے، میں کہتا ہوں کہ پنجابی زبان کا اتنا بڑا متکلم تاریخ نے پیدا نہیں کیا ہو گا۔
یہ طالب علمی کے دور کی باتیں کر رہا ہوں ساری، ہدایۃ النحو سے لے کر دورہ کے سال تک۔ پڑھتے تھے الحمد للہ اور یہ ساری کارروائیاں بھی کرتے تھے۔ دورے والے سال میں جامع مسجد میں آگیا تھا۔ حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ حضرت والد صاحبؒ کے استاد تھے۔ ان کی اولاد نہیں تھی، کوئی پیچھے والی وارث نہیں تھا۔ وہ اکثر تبلیغی جماعت کے ساتھ چلہ پر یا چار مہینے پر چلے جاتے تھے، پیچھے جمعہ پڑھانے کا مسئلہ بڑا گڑبڑ ہو گیا تھا۔ اتفاق سے ایک جمعے کے لیے مجھے کہا گیا، میں نے پڑھا دیا، لوگ خوش ہو گئے کہ یار بندہ ٹھیک ہے، گھر کا بندہ ہے۔ انہوں نے حضرت مولانا سے کہا کہ اسی کو بلا لیں، وہ رہتا بھی یہیں ہے شہر میں، نصرۃ العلوم میں پڑھتا ہے۔ میں اس سے پہلے خطیب تھا، راہوالی میں سیٹھی کالونی ہے، گتہ فیکٹری تھی اس کی کالونی تھی، اس کی مسجد میں دو سال خطابت کی ہے۔ حضرت مولانا عبد الواحدؒ نے والد صاحبؒ سے کہا، والد صاحبؒ نے مجھے فرمایا، میں آ گیا جامع مسجد میں، دورے والے سال، یا شاید موقوف علیہ کے سال میں آ گیا تھا۔ وہ سال الیکشن کا تھا، الیکشن میں مولانا عبد الواحد صاحبؒ کھڑے تھے، ہم الیکشن کیمپین بھی کرتے تھے سب کچھ کرتے تھے۔ اور الحمد للہ یہ تحریک ذوق، لکھنے پڑھنے کا ذوق، اور نظم کا ذوق یہ میرا شروع سے ہے۔ جماعتی معاملات، دفتر، لکھنا پڑھنا، خبریں، جلسوں کو آرگنائز کرنا، یہ تقریباً اس دور سے ہی میرے کھاتے میں ہیں۔ جامع مسجد میں میرا کمرا تھا، وہی دفتر ہوتا تھا۔
۱۹۷۴ء میں مجھے یہاں خطیب ہوئے تقریباً چار سال ہو گئے تھے، قادیانیوں کے خلاف ۱۹۷۴ء کی تحریک جب چلی ہے۔ جامع مسجد ہمارا تقریباً سوا سو سال سے شہر کا مذہبی مرکز بھی ہے، سیاسی مرکز بھی ہے، سماجی مرکز بھی ہے۔ شہر میں کوئی تحریک ہو مرکز ہم ہوتے ہیں۔ اور ہماری روایت چلی آ رہی ہے نسلًا بعد نسلًا کہ ہم بلاتے ہیں سب کو اور سب آتے ہیں۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، شیعہ، جماعت اسلامی، تاجر، وکیل۔ پچاس سال تو مجھے ہو گئے ہیں۔ جب بھی کوئی ضرورت پڑی ہے، بلایا ہے، سب آئے ہیں۔ تو وہ جو ہنگامے شروع ہوئے ملک میں ۱۹۷۴ء میں، قادیانیوں نے ملتان نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کو مارا تھا ربوہ اسٹیشن پر، اس کے خلاف ملک میں ہنگامے شروع ہوئے۔ ہمارے ہاں حضرت مولانا عبد الواحدؒ نے میٹنگ بلائی، سارے مکاتب فکر کے علماء آئے، ہم نے بہت بڑا جلوس بھی نکالا، اس میں مجلس عمل بنی ’’کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘۔ یہ مولانا ابوداؤد محمد صادقؒ ابھی جو فوت ہوئے ہیں، بریلوی مکتب فکر کے بڑے عالم تھے، یہ صدر۔ اہل حدیث بزرگ تھے حکیم عبد الرحمٰن صاحبؒ، بہت بڑا مجاہد آدمی تھا، وہ سیکرٹری جنرل۔ اور میں رابطہ سیکرٹری۔ یہ میری عملی طور پر ذمہ داری پہلی تھی۔ ’’کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘ کا شہر کا میں سیکرٹری جنرل تھا۔ پھر ہم نے تحریک چلائی اور ایک بہت بڑا جلوس نکالا، لمبی کہانیاں ہیں۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں جلسے بھی ہوتے تھے، جلوس بھی، اس میں ایک بات کہہ کر سمیٹتا ہوں۔
ہمارے ڈی سی صاحب تھے سید سرفراز شاہ صاحب۔ ہوا یوں کہ ہم نے بڑا جلوس نکالا، مولانا صادق صاحب تھے، حکیم عبد الرحمٰن اور میں، ہم قیادت کرنے والے تھے۔ جلوس جا کر ختم ہو گیا اور وہاں آپس میں جو لڑائی شروع ہوئی تو شام تک انیس قادیانی قتل ہو گئے۔ گوجرانوالہ والوں نے تباہی پھیری اس دن۔ بی بی سی، وائس آف جرمنی، چیخ و پکار دنیا میں شروع ہو گئی کہ گوجرانوالہ قتل گاہ بن گیا ہے، یہ ہو گیا ہے، وہ ہو گیا ہے۔ دوسرے دن چار پانچ اور ہو گئے۔ نئی نئی چھاؤنی بنی تھی، کرنل صاحب قادیانی تھے۔ وہ آ کر بیٹھ گیا ڈی سی کے پاس کہ چارج مجھے دو۔ اس فضا میں قادیانی کرنل کو چارج دینے کا مطلب کیا تھا؟ ڈی سی صاحب نے ہمیں پیغام بھجوایا کہ یار سنبھالو ورنہ مسئلہ خراب ہو جائے گا۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ بریک لگانی چاہیے، شہر قادیانی کرنل کے حوالے ہو گیا تو سب کو پتہ ہے پھر کیا ہو گا۔ رانا اقبال احمد خان ہمارے صوبائی وزیر ہوتے تھے، پیپلز پارٹی کا دور تھا۔ ہم نے آپس میں مشورہ کر لیا کہ ٹھیک ہے جی، میٹنگ بلاؤ، کرنل صاحب بھی آ گئے، سب آ گئے، سارے ضلع کی انتظامیہ اکٹھی تھی۔ ہم نے کہا کہ ہمیں دو دن اور دیں، اگر ہم دو دن میں کنٹرول نہ کر سکے پھر آپ کی مرضی۔ ہم نے کہا کہ بھئی کنٹرول کرنا ہے، واقعی کنٹرول کرنا ہے، اور پھر الحمد للہ ہم نے کر لیا۔ جو لطیفے کی بات ہے وہ یہ ہے کہ سرفراز شاہ صاحب ڈی سی تھے، جلسے شروع ہوئے تو میں نے بازو چڑھا کر، یہ مرزائی ہے، یہ ہے، وہ ہے، جو سیاسی زبان میں کہا جا سکتا تھا، میں نے تین چار جلسوں میں رگڑا دیا ڈی سی کو۔ تین چار تقریریں جو میں نے کیں شہر کے مختلف چوکوں میں، مجسٹریٹ آیا کہنے لگا، شاہ صاحب پوچھتے ہیں میرا قصور؟ میں نے اس کو کہا شاہ صاحب سے کہو میری گالیاں اسے بچا رہی ہیں، گالیوں سے مراد یہ پنجابی گالیاں نہیں سیاسی گالیاں ہیں، اگر میں گالیاں نہ دوں تو یہ انیس قتل اس کے کھاتے میں جاتے ہیں، میں جان بوجھ کر اس کو بچانے کے لیے گالیاں دے رہا ہوں کہ یہ ہمارے کیمپ کا نہ سمجھا جائے۔ وہ اگلے دن پھر ملا تو کہنے لگا کہ جتنی مرضی نکالیں۔ بسا اوقات یہ بھی کرنا پڑتا تھا۔ یہ میں ۱۹۷۳ء تک آیا ہوں، باقی باتیں پھر سہی ان شاء اللہ العزیز، اللھم صل علی سیدنا محمد۔