ممتاز قادریؒ کی پھانسی اور مذہبی طبقات کا رد عمل

   
۸ مارچ ۲۰۱۶ء

غازی ممتاز قادری شہیدؒ کو پھانسی دیے جانے کے بعد ملک بھر میں دینی حلقوں میں اضطراب اور بے چینی نے باہمی رابطوں کا جو ماحول پیدا کر دیا ہے وہ یقیناً خوش آئند ہے اور اس سے دینی کارکنوں کا حوصلہ بڑھ رہا ہے۔ گوجرانوالہ میں تو اس سے دو ہفتے قبل ہی ’’متحدہ علماء ایکشن کمیٹی‘‘ کے نام سے ایک مشترکہ فورم قائم ہوگیا تھا جس کا مقصد پاکستان کی اسلامی شناخت کا تحفظ، نفاذ شریعت کا نفاذ اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا دفاع قرار دیا گیا ہے۔ اور اس کی رابطہ کمیٹی میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور اہل تشیع کے سرکردہ حضرات شامل ہیں۔ جبکہ اہل حدیث مکتب فکر کے مولانا حافظ محمد عمران عریف کو کمیٹی کا کنوینر منتخب کیا گیا ہے اور ۲۰ فروری کو مرکزی جامع مسجد میں ایک کنونشن بھی منعقد ہو چکا ہے جس میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کیا تھا۔ غازی ممتاز قادریؒ کی شہادت کے بعد بھی اس کا اجلاس ہو چکا ہے جس میں باہمی مشاورت کے ساتھ طے پایا ہے کہ قومی سطح پر دینی جماعتوں کا کوئی مشترکہ فورم تشکیل پانے تک احتجاجی اور تحریکی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ چنانچہ جمعہ کے روز جی ٹی روڈ پر اسی سلسلہ میں ریلی کا اہتمام کیا گیا جس سے مختلف مکاتب فکر کے راہ نماؤں نے خطاب کیا۔

جمعیۃ علماء اسلام (ف) پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن کی دعوت پر مختلف دینی جماعتوں کے سربراہوں کی جو مشاورت گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہوئی ہے اور ۱۵ مارچ کو منصورہ لاہور میں وسیع تر اجلاس اور مشترکہ جدوجہد کے لیے جس عزم کا اظہار کیا گیا ہے اسے ملک بھر میں سراہا جا رہا ہے اور دینی جدوجہد کے ساتھ تعلق رکھنے والوں نے اس کے ساتھ بہت سی توقعات وابستہ کر لی ہیں۔ خدا کرے کہ یہ توقعات ماضی کے بعض تلخ تجربوں کی لائن میں نہ لگ جائیں۔

جمعیۃ علماء اسلام (س) پاکستان کے امیر مولانا سمیع الحق کی طرف سے بھی یہ خبر سامنے آئی ہے کہ وہ ۱۳ مارچ کو لاہور میں مختلف مکاتب فکر کے راہ نماؤں کے مشترکہ اجلاس کا اہتمام کر رہے ہیں۔ یہ بھی ایک اچھی خبر ہے اور اس سلسلہ میں میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ باہمی رابطہ و مشاورت کے اس قسم کے اجتماعات جس سطح پر بھی ہوں اور جتنے بھی ہوں کم ہیں۔ بلکہ علاقائی سطح پر بھی مختلف بڑے شہروں میں ایسے اجتماعات کا انعقاد ہونا چاہیے۔ البتہ اس بات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ ان سب اجتماعات کا اصل ہدف وسیع تر قومی مفاہمت اور مشترکہ جدوجہد کی راہ ہموار کرنا ہی ہو۔

اسی تناظر میں گزشتہ روز لاہور میں مجلس احرار اسلام کے ہیڈ آفس میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس کے موقع پر متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان کے زیر اہتمام مختلف مکاتب فکر کی دینی جماعتوں کے سرکردہ راہ نماؤں کا مشترکہ اجلاس ہوا جس کے شرکاء میں پیرجی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری، پیر اعجاز احمد ہاشمی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، جسٹس (ر) میاں نذیر اختر، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا مجیب الرحمن انقلابی، مولانا محمد رمضان، پیر سید کفیل شاہ بخاری، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، اور مولانا ممتاز اعوان بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اجلاس کی صدارت راقم الحروف کو سونپی گئی اور اس میں جو امور باہمی مشاورت کے ساتھ نمایاں ہوئے ان کی ایک جھلک درج ذیل ہے:

  • غازی ممتاز قادری شہیدؒ کی اچانک پھانسی اور پنجاب اسمبلی میں تحفظ حقوق نسواں کے عنوان سے خاندانی نظام کو سبوتاژ کرنے والے قانون کی منظوری کے بعد دینی حلقوں کا وسیع تر اتحاد ناگزیر ہوگیا ہے اور ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفیؐ کی طرز پر قومی جدوجہد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس سلسلہ میں مولانا فضل الرحمن کے طلب کردہ سربراہی اجلاس میں جس عزم اور لائحہ عمل کا اعلان کیا گیا ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور بھرپور تعاون کا اعلان کرتے ہیں۔
  • میڈیا نے غازی ممتاز قادری شہیدؒ کے جنازہ اور ملک بھر کی احتجاجی سرگرمیوں کو جس طرح بلیک آؤٹ کیا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ یہ طرز عمل اظہار رائے کی آزادی اور رائے عامہ کے جمہوری حق کے منافی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ البتہ روزنامہ اسلام، روزنامہ امت، روزنامہ اوصاف، روزنامہ سماء اور دیگر بعض اخبارات نے جو جرأتمندانہ کردار ادا کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ اور سوشل میڈیا پر جن کارکنوں نے قومی میڈیا کے پیدا کردہ مصنوعی خلا کو پر کرنے کے لیے جس جذبہ و محنت کے ساتھ کام کیا ہے اس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ قومی میڈیا کا مجموعی کردار مایوس کن ہے جو عوام میں اس کے خلاف نفرت اور بائیکاٹ کی مہم کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
  • امریکی حکومت کی طرف سے ممتاز قادریؒ کی پھانسی کے خیر مقدم اور ملعونہ آسیہ مسیح کی رہائی کے مطالبہ کی جو خبریں سامنے آئی ہیں ان سے واضح ہوگیا ہے کہ اس ساری کاروائی کی پشت پر امریکہ اور دیگر عالمی سیکولر قوتیں ہیں۔ جبکہ ہمارے حکمرانوں نے امریکی خواہشات کی تعمیل میں عوامی جذبات و احساسات کو بری طرح پامال کیا ہے۔ یہ اجلاس اس کی مذمت کرتا ہے اور حکومت سے اپنے طرز عمل میں تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے۔
  • یہ اجلاس حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ جن گستاخان رسولؐ کو عدالتوں کی طرف سے موت کی سزا سنائی جا چکی ہے انہیں جلد از جلد پھانسی دینے کا اہتمام کیا جائے اور آسیہ مسیح کی رہائی کے امریکی مطالبہ کو مسترد کرنے کا اعلان کیا جائے۔ ورنہ عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ قانون کی بالادستی کا نعرہ محض ڈھونگ ہے اور اس کی آڑ میں پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی طرف پیش رفت کی جا رہی ہے۔
  • یہ اجلاس ملک کے تمام طبقات سیاست دانوں، تاجروں، علماء کرام، وکلاء، اساتذہ، طلبہ اور دیگر محب وطن حلقوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے نظریاتی تشخص کے تحفظ، اسلامی روایات و احکام کی پاسداری اور نفاذ شریعت کے حوالہ سے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کی بجائے آگے بڑھیں اور اس قومی و دینی جدوجہد میں مؤثر کردار ادا کریں۔
   
2016ء سے
Flag Counter