مطالعۂ قرآن کانفرنس اسلام آباد

   
تاریخ : 
۱۵ نومبر ۲۰۱۴ء

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے علامہ اقبالؒ آڈیٹوریم میں اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے ادارہ تحقیقات اسلامی نے ’’پاکستان میں مطالعۂ قرآن کی صورت حال‘‘ کے موضوع پر ۱۱ تا ۱۳ نومبر کو تین روزہ قومی کانفرنس کا اہتمام کیا جس کی دس کے لگ بھگ نشستوں میں مختلف ارباب علم و دانش نے قرآن کریم کی تعلیم و تدریس، تحقیق و مطالعہ اور فہم قرآن کی اہمیت و ضرورت کے بیسیوں پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔ اور پاکستان میں قرآن کریم کی تدریس و تعلیم اور تحقیق و مطالعہ کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔

راقم الحروف کو ۱۲ نومبر کی دو نشستوں میں حاضری اور کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔ ایک نشست کی صدارت راقم الحروف نے کی جس میں پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، پروفیسر ڈاکٹر عارف خان، جناب عارف متین، ڈاکٹر قلب بشیر خاور اور جناب محبوب الرحمن شاہ نے خطاب کیا۔ جبکہ دوسری نشست کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے کی اور اس سے ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی، حافظ وقار احمد، ڈاکٹر محمد فاروق حیدر، ڈاکٹر سید عزیز الرحمن، ڈاکٹر نور حیات خان، جناب عزیز احمد اور پروفیسر سید متین احمد شاہ کے علاوہ راقم الحروف نے ’’قرآن کریم کے حوالہ سے تخصصات کی ضرورت‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی۔

مختلف مقررین اور مقالہ نگار حضرات کی گفتگو میں جو نکات سامنے آئے ان کا خلاصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے:

  • قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کا سرکاری اور پرائیویٹ دونوں سطحوں پر اس طرح کا خاطر خواہ انتظام موجود نہیں ہے جو آج کی علمی، معاشرتی اور اخلاقی ضروریات کا احاطہ کر سکے۔ قومی نصاب تعلیم میں قرآن کریم کی تعلیم بہت محدود اور رسمی حد تک موجود ہے اور اس میں رفتہ رفتہ کمی آرہی ہے۔
  • پرائیویٹ سطح پر مساجد میں قرآن کریم حفظ و ناظرہ کا کسی نہ کسی حد تک بندوبست کیا جاتا ہے لیکن تجوید و قراءت اور معنٰی و مفہوم سے واقفیت کا اہتمام نہیں ہوتا جو عوامی سطح پر انتہائی ضروری ہے، تاکہ ہمارے بچے ابتدا سے ہی قرآن کریم صحیح تلفظ کے ساتھ صحیح لہجے میں پڑھ سکیں اور قرآن کریم کو معنٰی و مفہوم کے ساتھ سمجھنے کا ذوق ان میں پیدا ہو۔ اس کے لیے مساجد کے منتظمین کو ہر سطح پر منظم طور پر اپنے نظام کی اصلاح کرنا ہوگی۔
  • دینی مدارس میں قرآن کریم ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے لیکن اس میں فقہی اور مسلکی ترجیحات کا رنگ غالب ہوتا ہے، جبکہ امت مسلمہ کی اجتماعی علمی و فکری ضروریات کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی مدارس قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کو اولیت کا درجہ دیں۔ فقہی و مسلکی ترجیحات سے پہلے قرآن کریم کے عمومی پیغام اور اس کی دعوت پر توجہ دیں، اور سوسائٹی کی وہ بہت بڑی اکثریت جو مدارس کے ساتھ وابستہ نہیں ہے، انہیں قرآن کریم کی تعلیم دینے کے لیے خصوصی کلاسوں اور کورسز کا اہتمام کریں۔
  • قیام پاکستان کے بعد ایک نئی اسلامی ریاست کی تشکیل کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اور عمومی نظام کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام میں بھی وہ ضروری تبدیلیاں نہیں لائی گئیں جو پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کے لیے ناگزیر تھیں۔ جس کی وجہ سے قومی رجحانات میں تذبذب کی کیفیت بڑھتی جا رہی ہے اور قوم فکری و ثقافتی حوالہ سے دو ذہنی کا شکار ہو چکی ہے۔ اس تذبذب اور دو ذہنی کو ختم کرنے اور قوم کو ایک ہی فکری اور تہذیبی جہت پر لانے کے لیے نظام تعلیم کی وسیع تر اصلاح اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ کی ضرورت ہے۔
  • عربی زبان سے مسلسل بے اعتنائی بلکہ بتدریج اس سے دوری کے نقصانات بھی واضح ہیں کہ قرآن کریم اور دینی تعلیمات کے ساتھ عوام کا بعد بڑھتا جا رہا ہے۔ حالانکہ اگر آج کی دنیا اور سسٹم سے وابستہ ہونے کے لیے انگریزی زبان ضروری ہے تو قرآن و سنت اور اسلامی احکام و قوانین سے آگاہی کے لیے عربی زبان اس سے زیادہ ضروری ہے۔ مگر اس طرف توجہ نہیں دی جا رہی بلکہ عوام کو عربی زبان سے مزید دور کیا جا رہا ہے۔ اس خلا کو پر کرنا بھی ضروری ہے، ورنہ ہم قومی اور عوامی سطح پر قرآن و سنت سے صحیح طور پر استفادہ نہیں کر سکیں گے۔
  • قرآن کریم کو عام طور پر دین کے محدود تصور یعنی صرف عقائد و عبادات اور اخلاقیات کے حوالہ سے پیش کیا جاتا ہے، جبکہ قرآن کریم کی تعلیمات کو پوری نسل انسانی کی اجتماعی ضروریات کے مطابق سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی احکام و قوانین کی افادیت و ضرورت کو واضح کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ قرآن کریم کا بنیادی موضوع نسل انسانی کی ہدایت اور راہ نمائی ہے اور یہ ہر دور کے لیے ہے۔ قرآن کریم کے نزول کے بعد قیامت تک کے ہر دور کی علمی، تہذیبی اور معاشرتی راہ نمائی قرآن کریم میں موجود ہے۔ اور ہر دور میں اس وقت کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کی ہدایات تک رسائی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس لیے آج کے دور کی انسانی ضروریات کو پوری نسل انسانی کے حال اور مستقبل کے تناظر میں واضح کرنا اور قرآن کریم سے اس کی راہ نمائی کا حصول آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
  • اس وقت دنیا کا ایک بڑا حصہ خاندانی نظام کے سبوتاژ ہوجانے کے کرب میں مبتلا ہے۔ معاشی نظام کے بحران نے نسل انسانی سوسائٹی کو پریشان کر رکھا ہے۔ ثقافتی اور تہذیبی کشمکش نے انسانی سوسائٹی میں افراتفری کا ماحول پیدا کیا ہوا ہے۔ اور دنیا موجودہ معاشی، معاشرتی اور تہذیبی نظام کی تباہ کاریوں سے پریشان ہو کر نئے نظام کی تلاش میں ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ نسل انسانی کی ان ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے تخصصات کے موضوعات کا تعین کیا جائے اور قرآن و سنت کی روشنی میں انسانی سوسائٹی کے سلگتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔

قرآن کریم کے ساتھ صرف تعلیمی اور معلوماتی وابستگی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس پر عمل، اس کے مطابق زندگی کو ڈھالنے، اور انسانی سوسائٹی میں قرآنی تعلیمات کے فروغ و نفوذ کو بھی اپنی محنت کا ہدف بنایا جائے۔ قرآن کریم کا تعلق ذہن و فکر کے ساتھ ساتھ قلب و روح سے بھی ہے۔ بلکہ قلب و روح کی وساطت سے قرآن کریم جسموں اور سوسائٹی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے روح و قلب کی قرآن کریم کے ساتھ وابستگی اور اس سب سے بڑے چشمۂ فیض سے استفادہ کا اہتمام کیا جائے، اور اس پر انفرادی اور اجتماعی طور پر سنجیدہ توجہ دی جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter