یہ ہمارے معاشرتی مزاج اور روایات کا حصہ ہے کہ گھر کے آٹھ دس افراد میں سے جو ’’کاما‘‘ ہوتا ہے اسے ہی گھر کے تمام کاموں کا ذمہ دار سمجھ لیا جاتا ہے۔ اور عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ گھر کا جو فرد خود محنت اور مشقت کا عادی بن کر مختلف کاموں کو نمٹانا شروع کر دیتا ہے گھر کے دوسرے افراد سارے کام اسی کے کھاتے میں ڈال کر خود کو ہر کام سے فارغ سمجھ لیتے ہیں۔ پھر اس غریب کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اسے کوئی کام سرانجام دینے کا کریڈٹ تو کبھی نہیں ملتا، البتہ جو کام نہیں ہو پاتا اس کا الزام یہ دیکھے بغیر اس ’’کامے‘‘ پر لگا دیا جاتا ہے کہ یہ اس کے کرنے کا تھا بھی یا نہیں، اور اس کام کے لیے اس کے پاس وقت بھی تھا یا نہیں۔ حتیٰ کہ اسے اپنے اس بھائی کی خشمگیں نگاہوں کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے جو سارا دن لمبی تان کر سویا رہتا ہے اور جب آنکھ کھلتی ہے تو اس ٹوہ میں لگ جاتا ہے کہ ’’کامے‘‘ بھائی کی کوئی کوتاہی سامنے آئے تو اس کے لتے لینے کا موقع ہاتھ آئے۔
یہی حال بے چارے ’’ملا‘‘ کا ہے جو اس جرم میں امت مسلمہ کی ہر ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے کہ اس نے معاشرتی تقسیم کار میں اپنے حصہ کی ڈیوٹی ادا کرنے میں کوئی کوتاہی روا نہیں رکھی اور جو کام اس کے ذمہ تھا وہ اس نے ہر مصیبت برداشت کر کے اور ہر رکاوٹ عبور کر کے بہرحال پورا کر دیا ہے۔ اس ستم ظریفی کا صحیح طور پر اندازہ کرنے کے لیے ذرا اس فہرست پر نظر ڈال لیجیے جو ملا کی ناکامیوں کے نام پر بار بار دہرائی جا رہی ہے اور اچھے خاصے پڑھے لکھے دوست بھی سوچے سمجھے بغیر اسی کا تکرار کیے چلے جا رہے ہیں کہ
- امت مسلمہ سائنسی ترقی میں باقی اقوام سے بہت پیچھے رہ گئی ہے، اس کا ذمہ دار ملا ہے۔
- امت مسلمہ اپنے معاشی وسائل سے استفادہ نہیں کر سکی اور ان پر اپنا کنٹرول قائم نہیں رکھ سکی، اس کی ذمہ داری ملا پر عائد ہوتی ہے۔
- امت مسلمہ اپنے دفاع اور عسکری صلاحیت میں دوسری اقوام سےکے ہم پلہ نہیں ہے، یہ بھی ملا کا قصور ہے۔
- امت مسلمہ کو آج کی ٹیکنالوجی پر گرفت حاصل نہیں ہے، یہ کوتاہی بھی ملا کے کھاتے میں ہے۔
- اور امت مسلمہ اپنی سیاسی وحدت و مرکزیت قائم نہیں رکھ سکی اور انتشار و انارکی کا شکار ہوگئی ہے، یہ بھی ملا کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔
غرضیکہ امت مسلمہ کی ہر ناکامی اور کوتاہی ملا کے کھاتے میں ہے گویا کہ امت میں اسی ایک طبقہ کا وجود باقی رہ گیا تھا اور باقی کسی کے ذمہ کوئی کام نہیں تھا۔
ملا پر ’’چاند ماری‘‘ کی مشق کرنے والے ان دانشوروں کو ایک شکایت یہ بھی ہے کہ آمریت اور ملائیت کا باہمی تعلق اور رشتہ استوار ہوگیا تھا، اس لیے امت کی ساری خرابیاں ان کے نزدیک اسی کا نتیجہ ہیں۔ لیکن تاریخ میں شاید یہ بات ان کی نظر سے نہیں گزری کہ امت مسلمہ میں ملائیت کے چار میں سے تین بڑے نمائندوں یعنی ائمہ اربعہ میں سے تین امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، اور امام احمد بن حنبلؒ وہ ہیں جنہوں نے آمریت سے براہ راست ٹکر لی ہے اور اپنی پشتوں پر آمروں کے کوڑے کھائے ہیں۔ حتیٰ کہ سب سے بڑے امام کو تو جیل میں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ اور پھر آمریت اور مطلق العنانی سے ہر دور میں ٹکرانے والے ملاؤں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے امام ابوحنیفہؒ، امام احمد بن حنبلؒ، اور امام مالک کی سنت کو ہر دور میں زندہ رکھا ہے۔ اس مختصر مضمون میں اس فہرست کا اجمالی خاکہ پیش کرنے کی بھی گنجائش نہیں ہے البتہ حوالہ کے لیے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی ضخیم کتاب ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ کا مطالعہ کرنے کی سب دوستوں کو دعوت دوں گا جو کئی جلدوں میں ہے اور اس میں چودہ سو سال کے ان ملاؤں کا تاریخ کے حوالے کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے آمریت کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کی بجائے اسے للکارا اور قربانی و ایثار کے ہر مرحلہ سے باوقار طور پر گزر گئے۔ خود ہمارے برصغیر میں اکبر بادشاہ کی آمریت و الحاد کو مسترد کرنے والے مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندیؒ بھی ملا تھے، اور فرنگی اقتدار سے ٹکرا کر کالا پانی کا جزیرہ آباد کرنے والے اور درختوں کی ٹہنیوں پر ہزاروں کی تعداد میں سولیاں پانے والے مولوی بھی اسی ملائیت کا حصہ تھے جسے آمریت کا ساتھی قرار دے کر امت کی ہر ناکامی اور رسوائی کو اس کے حساب میں لکھا جا رہا ہے۔
امت کی ہر خرابی کو ملا کے نام لکھنے والے ان دانشوروں سے ایک سوال کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن پہلے اس کا پس منظر دیکھ لیں۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے حوالہ سے ہمارے جدید پڑھے لکھے اور دانشور کہلانے والے حضرات نے خود یہ کہہ کر ملا کو پیچھے دھکیل دیا تھا کہ معاشرے کی اجتماعی قیادت اس کا کام نہیں ہے، بس وہ آرام سے گھر بیٹھے جبکہ یہ کام اب ہم کریں گے۔ چنانچہ ملا نے اپنے بھائیوں کی یہ بات مانتے ہوئے ان کے لیے میدان کھلا چھوڑ کر اپنے ذمہ یہ کام لے لیا تھا کہ امت کے اجتماعی کام آپ سنبھالیں، ہم قرآن و سنت کی تعلیمات اور علوم کو باقی رکھنے اور امت کی اگلی نسلوں تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیں گے۔ اور پھر یہ ڈیوٹی اپنے ذمہ لے کر ملا نے ہر طرف سے آنکھیں بند کر کے خود کو مسجد و مدرسہ تک محدود کر لیا تھا۔ البتہ اس کے ساتھ وہ برٹش حکمرانوں کے خلاف غم و غصہ اور نفرت کے اظہار کے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوا اور جب موقع ملا اس پر ضرب لگانے سے بھی گریز نہیں کی۔ مگر اس طبقہ نے اپنے ذمہ بنیادی کام یہ رکھا کہ قرآن و سنت اور ان سے متعلقہ علوم کی حفاظت کرتے ہوئے انہیں اگلی نسلوں تک منتقل کر دے۔
دوسری طرف جدید علوم اور معاشرتی امور میں امت کی رہنمائی کا کام ایک نئے طبقہ نے سنبھال لیا تھا۔ یہ تقسیم کار ملا نے نہیں کی تھی بلکہ اس کے سر تھوپی گئی تھی جسے اس نے قبول کر کے اپنے حصے کا کام سنبھالا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آج اگر اس تقسیم کار میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنے حصے کا کام سر انجام نہیں دے سکا اور گزشتہ ڈیڑھ سو برس میں مغربی آقاؤں کی ناز برداری اور ان کے ایجنڈے کی تکمیل کے سوا کوئی کام نہیں کر پایا تو اپنی اس ناکامی کا طوق ملا کے گلے میں کیوں ڈال رہا ہے؟ ملا نے تو اپنا کام کر دکھایا ہے کہ آج قرآن و سنت کے علوم اور اسلامی روایات و اقدار کے پرچار کے حوالے سے جنوبی ایشیاء کا یہ خطہ دنیائے اسلام میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔لیکن چونکہ سائنس، ٹیکنالوجی، معیشت، سیاست اور معاشرتی قیادت ۱۸۵۷ء کے بعد ’’مسٹر‘‘ نے اپنے ہاتھ میں لی تھی اس لیے ان شعبوں میں ناکامی کا ذمہ دار بھی مسٹر ہی ہے۔ اور اگر وہ ملا کو طعنہ دے کر اپنی ان ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ تاریخ کی کسوٹی بالاخر کھرے اور کھوٹے کو الگ کر دیتی ہے اور شاید اس کا وقت بھی اب زیادہ دور نہیں رہا۔