حکومت نے ووٹرز فارم میں عقیدۂ ختمِ نبوت کا حلف نامہ بحال کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، اور اس طرح ایک طویل مدت کے بعد دینی حلقوں کے کسی مطالبہ کو حکومتی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ جس سے ایک بات پھر واضح ہو گئی ہے کہ دینی جماعتیں اگر کسی مسئلہ پر متفق ہو کر دوٹوک موقف اختیار کر لیں تو حکومت کے لیے اس کو نظرانداز کرنا آسان نہیں ہے۔
ہم اس پر دینی حلقوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے حکومتی اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی اس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ حلف نامہ منسوخ کیے جانے کے بعد دوبارہ بحالی تک کی درمیانی مدت میں ملک بھر میں قادیانیوں نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو ہزاروں ووٹ مسلمانوں کے خانے میں درج کرا لیے ہیں ان کی منسوخی کے لیے بروقت اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
اس سلسلہ میں روزنامہ جنگ ۲۱ جون ۲۰۰۲ء کے مطابق چیف الیکشن کمیشن جسٹس (ر) ارشاد حسن خان کا یہ اعلان خوش آئند ہے جس میں انہوں نے تمام اسسٹنٹ الیکشن کمشنروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ووٹروں کی فہرستیں عوام کے لیے اوپن کریں تاکہ کسی جگہ قادیانیوں کے غلط ووٹوں کا اندازہ پایا جاتا ہو تو اس کی نشاندہی کر کے ان ووٹوں کو منسوخ کرایا جا سکے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت اور دیگر دینی جماعتوں کو متحرک ہونا چاہیے۔ اور ہر علاقہ میں ووٹروں کی جانچ پڑتال کر کے قادیانیوں کی طرف سے درج کرائے گئے ناجائز اور غیر قانونی ووٹوں کی نشاندہی کر کے انہیں منسوخ کرانے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ اس طرح قادیانیوں نے خود کو مسلمانوں میں شامل کرانے اور انتخابات پر اثر انداز ہونے کی جو سازش کی ہے اسے ناکام بنایا جا سکے۔