یکم فروری ۲۰۰۶ء کو پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے محمود شیرانی ہال میں محکمہ اوقاف پنجاب اور اورینٹل کالج کے اشتراک سے سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی یاد میں ایک سیمینار کا انعقاد ہوا، جس کی صدارت پنجاب یونیورسٹی کے سینئر استاذ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے کی، جبکہ صوبائی وزیر مذہبی امور و اوقاف صاحبزادہ سید سعید الحسن مہمان خصوصی تھے۔ سیمینار سے جسٹس (ر) نذیر اختر، جناب ڈاکٹر خالق داد، ڈاکٹر مظہر متین اور دیگر ارباب دانش نے خطاب کیا اور راقم الحروف کو بھی کچھ عرض کرنے کے لیے کہا گیا۔ اس موقع پر پیش کی گئی گزارشات کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مناقب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک جملہ کہا تھا کہ ”کان وقافا عند كتاب اللہ“ وہ کتاب اللہ کا حکم سامنے آنے پر رک جایا کرتے تھے، اسٹاپ ہو جاتے تھے اور ان کو بریک لگ جایا کرتی تھی۔ میں اسی ایک نکتہ پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، اس لیے کہ ان بزرگوں کی یاد میں اکٹھے ہونے اور ان کا تذکرہ کرنے کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کی زندگی سے، حالات سے اور تعلیمات سے روشنی حاصل کریں اور اپنے لیے سبق اور راہ نمائی کے پہلو تلاش کریں۔ ہمارے ہاں عام طور پر ایسے مواقع پر یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں بزرگ کے حالات و خدمات پر روشنی ڈالی جائے گی، جبکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم ان سے روشنی لیں اور ان کے حالات و جدوجہد سے راہ نمائی حاصل کریں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں امام بخاریؒ کا کہنا ہے کہ وہ قرآن کریم کا حوالہ سامنے آنے پر رک جایا کرتے تھے۔ آج اس پس منظر میں ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہمیں کہیں بریک نہیں لگتی، نہ خدا پر، نہ رسول پر، نہ قرآن پر، نہ سنت پر، نہ حلال پر، نہ حرام پر۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہماری بریکیں فیل ہو گئی ہیں، وہ کہیں کام ہی نہیں کرتیں۔ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے۔ خدا کرے کہ ہماری بریکیں ٹھیک ہو جائیں اور جہاں ہمیں رکنا ہو وہاں رک جایا کریں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس وصف کے حوالہ سے بعض واقعات بھی بیان کیے ہیں، جن میں سے ایک کا یہاں تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں اپنی مشاورت اور معاونت کے لیے افراد کے چناؤ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی ترجیح قرآن کریم کا علم ہوتا تھا۔ جو قرآن کریم کا زیادہ عالم ہوتا، وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زیادہ قریب ہوتا اور اسے شوریٰ میں اہم جگہ ملتی۔ ایک نوجوان صحابی حضرت حر بن قیس فزاری رضی اللہ عنہ بھی اسی وجہ سے امیر المؤمنین کی شوریٰ کے اہم رکن تھے۔ ان کے چچا محترم حضرت عیینہ بن حصن فزاری رحمہ اللہ ایک بار مدینہ منورہ آئے اور اپنے بھتیجے کا یہ اعزاز دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے حضرت حر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ امیر المؤمنین تمہاری بہت عزت کرتے ہیں اور میں ان سے الگ ملاقات میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں، اس لیے تم اس کی کوئی صورت نکالو۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بات کی تو امیر المؤمنین نے بلا لیا۔ حضرت عیینہ بن حصن فزاری بدوی سردار تھے۔ بات شروع ہوتے ہی خالص بدوی انداز میں بے تکلف کہہ دیا کہ ”آپ ہمیں پورا حصہ نہیں دیتے اور ہمارے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔“ یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے عادل اور منصف حکمران کے بارے میں ان کے منہ پر کہہ دی جائے تو غصہ آنا فطری بات ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر غصہ آ گیا۔ کوڑا ہاتھ میں تھا، انہوں نے کوڑے والا ہاتھ بلند کیا جیسے حضرت عیینہ کو مارنے لگے ہوں۔ یہ معاملہ دیکھ کر حر بن قیسؓ پریشان ہو گئے۔ امیر المؤمنین کے مزاج شناس تھے اور سمجھدار آدمی تھے، فوراً قرآن کریم کی آیت کریمہ پڑھ دی:
”خذا العفو وامر بالعرف و أعرض عن الجاہلين“
’’عفو کو لازم پکڑیں، نیکی کے کاموں کا حکم دیں اور جاہلوں کی باتوں سے درگزر کر دیا کریں۔‘‘
حر بن قیس رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ یہ آیت کریمہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ وہیں فضا میں تھم گیا اور عیینہ بن حصن ان کے کوڑے سے بچ گئے۔
امام بخاری رحمہ اللہ اسی حوالہ سے کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قرآن کریم کا حکم سامنے آنے پر فوراً رک جایا کرتے تھے اور یہ ان کی خاص صفت تھی۔
ایک واقعہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی ”تفسیر ابن کثیر“ میں نقل کیا ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس منقبت اور صفت پر دلالت کرتا ہے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بار مسجد نبویؐ میں خطبہ کے دوران حکم دے دیا کہ لوگ شادیوں میں مہر کے طور پر بڑی رقم مقرر کر دیتے ہیں اور بعد میں ادائیگی کے موقع پر جھگڑے ہو جاتے ہیں، اس لیے آج کے بعد کسی شادی میں چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر نہ کیا جائے۔ درہم چاندی کا سکہ تھا، جس کا وزن ساڑھے تین ماشے بتایا جاتا ہے۔ اگر موجودہ کرنسی کے حساب سے دیکھا جائے تو شاید چودہ پندرہ ہزار روپے کے لگ بھگ رقم بنے۔ گویا اعلان فرمایا کہ پندرہ ہزار روپے سے زیادہ مہر کسی شادی میں مقرر نہ کیا جائے۔
یہ اعلان امیر المؤمنین کا تھا، خلیفہ راشد کا تھا اور قانون کا درجہ رکھتا تھا، مگر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے بعد مسجد سے نکل کر گھر جانے لگے تو راستہ میں ایک عورت نے روک لیا۔ عورت کا نام روایت میں نہیں ہے، البتہ یہ ذکر ہے کہ وہ قریشی خاتون تھی۔ اس نے راستے میں روک کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو توجہ دلائی کہ ان کا یہ حکم قرآن کریم کی منشا کے خلاف ہے۔ قرآن کریم کا سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہیں کھڑے ہو گئے اور اس خاتون سے تفصیل دریافت کی۔ اس نے کہا کہ قرآن کریم نے جہاں بیویوں کو خاوندوں کی طرف سے ملنے والی دولت اور رقم کا ذکر کیا ہے، وہاں کہا ہے:
”واتيتم احداہن قنطارا فلا تأخذوا منہن شيئا“
’’اور اگر تم نے ان میں سے کسی کو ”قنطار“ برابر دولت بھی دے دی ہے تو پھر ان سے واپس نہ لو۔‘‘
اس خاتون نے کہا کہ قرآن کریم ہمیں خاوندوں سے ”قنطار“ کے حساب سے دلواتا ہے۔ قنطار خزانے کو کہتے ہیں اور ڈھیر پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر پھر مسجد میں گئے اور دوبارہ اعلان فرمایا کہ
”میں نے مہر کی رقم کے بارے میں جو اعلان کیا تھا، ایک خاتون نے اس سلسلہ میں قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ کی طرف مجھے توجہ دلائی ہے، میرا اس آیت کی طرف دھیان نہیں تھا۔ وہ عورت ٹھیک کہہ رہی ہے، اس لیے میں اپنا حکم اور اعلان واپس لیتا ہوں۔“
یہ قرآن کریم کا حکم اور حوالہ سامنے آنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رک جانے کا اظہار تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس وصف کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ”كان وقافا عند كتاب اللہ“، مگر اس واقعہ میں ایک اور پہلو بھی قابلِ توجہ ہے۔ چونکہ اس مجلس میں میری بہنیں اور بیٹیاں بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں، اس لیے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اسلام عورت کو رائے کا حق نہیں دیتا اور اس کی تعلیم پر قدغن عائد کرتا ہے، مگر یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام میں عورت کا رائے کا یہ حق ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے امیر المؤمنین کو ان کے فیصلے پر ٹوک کر اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر سکتی ہے اور اس کی تعلیم کا معیار یہ ہے کہ قرآن کریم سے استدلال کر کے خلیفہ راشد کے فیصلے پر تنقید کر رہی ہے۔
قرآن کریم پر رک جانے کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اور دلچسپ واقعہ بھی مؤرخین نے ذکر کیا ہے، جن میں مصر کے محمد حسین ہیکل مرحوم بھی ہیں، جنہوں نے اپنی معروف کتاب ”عمر فاروق اعظمؓ“ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے دور میں لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے رات کے وقت گلیوں اور محلوں میں گشت کیا کرتے تھے۔ ایک رات گشت کے دوران ایک گھر کے اندر سے گانے بجانے کی آواز آئی، توجہ کی تو اندازہ ہوا کہ گانے بجانے کی کوئی محفل بپا ہے۔ مکان کے عقب میں گئے اور دیوار پھلانگ کر اندر کود گئے۔ محفل بپا تھی، آپ رضی اللہ عنہ نے آواز دی کہ ”کیا تمہارا خیال ہے کہ تمہیں کوئی دیکھ نہیں رہا؟“ صاحبِ محفل نے اس طرح اچانک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محفل میں دیکھا تو گھبرایا نہیں، اوسان بحال رکھے اور کہا کہ ”امیر المومنین! یقیناً ہم گناہ کی محفل میں بیٹھے ہیں، لیکن آپ نے بھی تو قرآن کریم کے تین حکموں کی خلاف ورزی کی ہے ۔“ قرآن کریم کا نام سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ چونکے اور فرمایا کہ وہ کیا؟ اس نے کہا
- ”قرآن کریم کا حکم ہے کہ ”ولا تجسسوا“ لوگوں کے اندرونی حالات کا تجسس نہ کرو، اور آپ نے اس کا لحاظ نہیں رکھا۔
- قرآن کریم کا حکم ہے کہ کسی کے گھر جاؤ تو داخل ہونے سے پہلے اجازت لو، آپ نے کوئی اجازت نہیں لی۔
- اور قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ”وأتوا البيوت من أبوابہا“ گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو، مگر آپ عقب سے دیوار پھلانگ کر اندر آئے ہیں۔“
روایت میں ہے کہ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ مزید کسی کارروائی سے رک گئے اور صاحب خانہ سے آئندہ اس قسم کی حرکت نہ کرنے کا وعدہ لے کر واپس پلٹ گئے۔
قرآن کریم کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفاداری، کمٹمنٹ اور اطاعت آج ہمارے لیے سبق ہے، اسوہ ہے اور آج کی اس محفل میں اسی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔