حق مہر اور دوسری شادی

   
۲۰ مئی ۲۰۰۰ء

نکاح میں بیوی کے حق مہر کے بارے میں ان کالموں میں متعدد بار معروضات پیش کی جا چکی ہیں مگر اس سلسلہ میں ہمارے معاشرہ میں پھیلی ہوئی غلط فہمیاں اس قدر زیادہ ہیں کہ کوئی نہ کوئی لطیفہ سامنے آتا ہی رہتا ہے۔ اور بسا اوقات اچھے خاصے پڑھے لکھے دوست اس معاملہ میں اس قدر بے خبر نکلتے ہیں کہ بے ساختہ سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔

محترم نثار ناسک صاحب نے گزشتہ روز اپنے کالم میں ہائیکورٹ کے ایک فیصلہ کا حوالہ دیا ہے کہ دوسری شادی کرنے والے کسی صاحب کو ہائیکورٹ کے ایک محترم جج نے حکم دیا ہے کہ چونکہ اس نے دوسری شادی پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر کی ہے اس لیے وہ پہلی بیوی کو اس کا پورا حق مہر ادا کرے۔ کالم میں محترم قانون دان کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جنہوں نے اس سلسلہ میں عدالت عالیہ کی رہنمائی کی ہے اور عدالت عالیہ نے ان کے دلائل اور استدلال کو سراہتے ہوئے ان کے لیے اعزازیہ کی سفارش بھی کی ہے۔

جناب نثار ناسک کے کالم میں درج تفصیلات اگر واقعہ کے مطابق ہیں تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اگر دوسری شادی کرنے والا خاوند پہلی بیوی کی اجازت سے دوسری شادی کرے، یا سرے سے دوسری شادی ہی نہ کرے، تو وہ پہلی بیوی کو حق مہر ادا کرنے کا پابند نہیں رہتا۔ حالانکہ یہ بات قطعی طور پر غلط اور شرعی احکام کے منافی ہے۔ مگر ہمارے ہاں عام طور پر سمجھا یہی جاتا ہے کہ مہر کی ادائیگی کا تعلق عام حالات سے نہیں ہے بلکہ اگر طلاق ہو جائے، خاوند فوت ہو جائے، یا خاوند دوسری شادی کر لے تب بیوی حق مہر کی مستحق بنتی ہے۔ ورنہ اکثر گھرانوں میں زندگی بھر بیوی کو حق مہر کا مستحق نہیں سمجھا جاتا۔

اسی طرح حق مہر کی مقدار اور اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں بھی بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، مثلاً وسطی پنجاب کے بہت سے دیہات میں شرعی مہر کا تصور یہ ہے کہ اس کی مقدار بتیس روپے چھ آنے ہے۔ شادیوں میں نکاح کے موقع پر بعض گھرانے اس بات پر اڑ جاتے ہیں کہ انہوں نے یہی شرعی حق مہر مقرر کرنا ہے جبکہ شادی کے دوسرے بے مقصد اخراجات پر لاکھوں روپے ضائع کر دینے میں انہیں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔ خدا جانے بتیس روپے چھ آنے کا شرعی حق مہر لوگوں نے کہاں سے نکال لیا ہے؟ حالانکہ یہ مہر کی اس کم از کم مقدار تک بھی نہیں پہنچتا جس سے کم مہر مقرر کرنے سے خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اس سلسلہ میں ارشادِ نبویؐ کا مفہوم یہ ہے کہ دس درہم سے کم مہر مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔ درہم چاندی کا سکہ تھا جس کا وزن تین ماشے سے کچھ زیادہ ہوتا تھا۔ مفتیان کرام دس درہم کا محتاط وزن دو تولہ سات ماشہ یا اٹھائیس گرام چھ سو ستر ملی گرام بتاتے ہیں۔ اس لحاظ سے مہر کی کم سے کم شرعی مقدار اس وقت اڑھائی سو روپے سے بھی زیادہ بنتی ہے۔

اسی طرح فاطمی مہر کا قصہ ہے۔ وہ مہر جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت سیدہ فاطمہؓ کے لیے مقرر کیا تھا جو پانچ سو درہم تھا۔ اور جناب نبی اکرمؐ کی اکثر ازواج مطہرات کا مہر بھی یہی تھا۔ پانچ سو درہم کا وزن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے ایک سو اکتیس تولہ چاندی سے کچھ اوپر لکھا ہے اور چاندی کی قیمت ان دنوں ایک سو روپے فی تولہ بتائی جاتی ہے۔ اس لیے مہر فاطمی کی رقم موجودہ مارکیٹ ریٹ (مئی ۲۰۰۰ء) کے حساب سے تیرہ ہزار روپے سے زیادہ بنتی ہے۔ مگر بہت سے دیندار گھرانوں میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ مہر فاطمی کی مارکیٹ قیمت معلوم کیے بغیر نکاح فارم میں اس کا اندراج کر لیا جاتا ہے اور پھر اپنے اپنے اندازے سے اسے ادا کیا جاتا ہے جو شرعی لحاظ سے غلط بات ہے۔ اگر نکاح میں مہر فاطمی کا تعین کیا گیا ہے تو اس کی نکاح والے دن کی قیمت مراد ہوگی۔ اور ادائیگی اگر پندرہ بیس سال کے بعد ہوئی تو قیمت کے فرق سے ایک فریق کا جو نقصان ہوگا وہ زیادتی کے زمرہ میں شمار ہوگا۔

مہر کے بارے میں اصل شرعی اصول یہ ہے کہ اس میں میاں بیوی دونوں کی حیثیت کا لحاظ رکھا جائے۔ مہر کی رقم اتنی زیادہ نہ ہو کہ خاوند کے لیے بوجھ بن جائے اور اتنی کم بھی نہ ہو کہ بیوی کے لیے اس کے خاندان میں خفت کا باعث بنے۔ ان دونوں باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے فریقین کی رضامندی سے جو بھی مہر مقرر کر لیا جائے، دس درہم سے زیادہ ہونے کی صورت میں، وہی شرعی مہر ہے اور اس کی ادائیگی خاوند کے ذمہ ضروری ہے۔

مہر کی ادائیگی کے سلسلہ میں کچھ مزید تفصیل یہ ہے کہ نکاح میں مہر کی رقم متعین ہوجانے کے بعد میاں بیوی کے ملاپ یعنی ازدواجی تعلقات قائم ہونے سے پہلے طلاق ہو جائے تو بیوی کو نصف مہر ملے گا۔ جبکہ ازدواجی تعلقات قائم ہوجانے کے بعد بیوی پورے مہر کی مستحق ہے جو اسے بہرصورت ملنا چاہیے۔ مہر کی ادائیگی کا خاوند کی موت، طلاق یا دوسری شادی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب تک خاوند اسے حق مہر ادا نہیں کر دیتا وہ اس کا مقروض شمار ہوگا، اور اگر خدانخواستہ اس کی ادائیگی کی نیت ہی نہیں ہے تو جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدکار قرار دیا ہے۔ چنانچہ مسند احمد کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ ’’جس نے نکاح میں مہر اس نیت سے مقرر کیا کہ وہ اسے ادا نہیں کرے گا تو وہ زانی ہے اور جس نے کسی سے قرضہ اس نیت سے لیا کہ وہ ادا نہیں کرے گا تو وہ چور ہے۔‘‘اس لیے ہمارے معاشرے میں اس مسئلہ کی زیادہ سے زیادہ وضاحت کی ضرورت ہے کہ نکاح اور اس کے بعد میاں بیوی کے ملاپ کے ساتھ ہی نکاح میں مقرر کی جانے والی حق مہر کی رقم بیوی کا حق بن جاتی ہے جو خاوند کے ذمہ قرضہ ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی میں بلاوجہ ٹال مٹول کرنا شرعاً گناہ کے زمرہ میں آجاتا ہے۔

اسی طرح بیوی کی طرف سے خاوند کو سارا حق مہر یا اس کا کچھہ حصہ معاف کرنے کا معاملہ بھی توجہ طلب ہے۔ بیوی اگر کسی قسم کے معاشرتی، خاندانی یا خاوند کی طرف سے نفسیاتی دباؤ کے بغیر اپنا حق مہر یا اس کے کسی حصہ سے اپنی خوشی کے ساتھ دستبردار ہوتی ہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے، لیکن دباؤ کے تحت دستبرداری کو شریعت میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس لیے اس کی آج کے دور میں معقول صورت ایک ہی ہے کہ خاوند مہر کی رقم بیوی کی تحویل میں دے دے۔ اور بیوی اس رقم کو اپنے قبضہ اور تصرف میں لانے کے بعد اگر اسے خاوند کو واپس کر دے تو یہ معافی کی سب سے بہتر اور معقول صورت ہوگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter