حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔ بخاری شریف کی روایت ہے، ایک دن حضورؐ بیٹی سے ملنے گئے، علیؓ گھر میں نہیں تھے۔ پوچھا تمہارا خاوند کدھر ہے؟ یا رسول اللہ! کوئی جھگڑا ہو گیا تھا تو ناراض ہو کر چلے گئے ہیں۔ بس آپس میں کوئی معاملہ میاں بیوی کا ہو گیا، ہو جاتا ہے، فطری بات ہے۔ یا رسول اللہ! کوئی جھگڑا ہو گیا تھا ہمارا، تو وہ ناراض ہو کر چلے گئے ہیں، شاید مسجد میں سوئے ہوئے ہوں گے۔ حضورؐ گئے مسجد میں، حضرت علیؓ مسجد میں سوئے ہوئے تھے۔ ننگی زمین پر سوئے ہوئے ہیں اور بدن پر مٹی لگی ہوئی ہے۔ حضورؐ بڑی محبت سے بیٹھے، ہاتھ سے جھاڑ رہے ہیں ’’قم یا ابیٰ تراب، قم یا ابٰی تراب‘‘ او مٹی والے اٹھ! او مٹی والے اٹھ۔ جا کر داماد کو راضی کر کے واپس لائے کہ یہاں کیوں پڑے ہو چلو گھر۔ ابو تراب کا ویسے مطلب ہے خاک آلود، خاکسار، لیکن حضرت علیؓ کہتے ہیں مجھے سب سے زیادہ یہ کنیت پسند آتی ہے جب مجھے کوئی ابوتراب کہتا ہے تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ یہ مجھے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا۔
حضورؐ کو ایک دن کسی نے خبر دی آ کر حضرت علیؓ کے بارے میں۔ ابوجہل کی بیٹی مسلمان ہو گئی تھی اور مدینہ منورہ ہجرت کر کے آ گئی تھی، مسلمان نوجوان لڑکی تھی۔ خبر مشہور ہوئی کہ حضرت علیؓ اس سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت فاطمہؓ تک پہنچی بات تو پریشان ہوئیں۔ فطری بات ہے، عورت پریشان ہوتی ہے، اور پھر ابوجہل کی بیٹی۔ ان دونوں نے وہ دور اکٹھے دیکھا تھا، بارہ تیرہ سال کا اذیت کا دور۔ وہ جو اوجھڑی حضورؐ پر ڈالی گئی تھی، حضرت فاطمہؓ نے آ کر ہٹائی تھی۔ تو خیال ہوا کہ میرا گزارا نہیں ہوگا ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ، پچھلی باتیں یاد آئیں گی خواہ مخواہ آپس میں۔ تو جا کر حضورؐ سے کہا، یہ پتہ چلا ہے کہ آپ کا عمزاد، ابوجہل کی بیٹی آئی ہے، اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ تو آپ کوئی بیٹیوں کا خیال بھی کیا کرتے ہیں کہ نہیں؟ بیٹی باپ سے کہہ رہی ہے۔ تو حضورؐ نے جا کر فرمایا کہ نہیں بھئی! نبی کی بیٹی اور ابو جہل کی بیٹی ایک گھر میں نہیں آئیں گی۔
بخاری شریف کی روایت ہے، حضورؐ بیمار ہیں، بیٹی پتہ لینے آئی ہے۔ اس وقت تک باقی تینوں فوت ہو چکی تھیں، حضورؐ کی وفات کے وقت ایک ہی بیٹی زندہ تھی، وہ بھی چھ مہینے رہیں بعد میں، حضرت فاطمہؓ۔ بیٹی ابا جی کا حال پوچھنے آئی ہے۔ حضورؐ اٹھ کر بیٹھ گئے، سر پر ہاتھ پھیرا، بٹھایا پاس، جیسے باپ بیٹیوں کو بٹھاتے ہیں۔ بیٹھے بیٹھے حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ حضورؐ نے فاطمہؓ کے کان میں کوئی بات کہی تو فاطمہؓ رونے لگ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر حضورؐ نے قریب کر کے کان میں بات کہی تو خوش ہو گئیں۔ جب وہاں سے فارغ ہوئیں تو میں نے الگ بلا کر پوچھا بیٹا حضورؐ کیا کہہ رہے تھے؟ انہوں نے کہا اماں جی! ابا جی نے کان میں کہا تھا۔ جو بات کان میں کی جائے وہ کیا ہوتی ہے؟ راز ہوتی ہے۔ حضورؐ کی وفات کے بعد کافی دن گزر گئے تو حضرت عائشہؓ نے پھر بلایا۔ میں تمہیں ماں ہونے کا واسطہ دیتی ہوں، بتاؤ حضورؐ نے کیا کہا تھا؟ کہا، ہاں اب بتاتی ہوں آپ کو۔ حضورؐ نے مجھے کان میں کہا تھا کہ فاطمہؓ میں شاید ایک آدھ دن اسی بیماری میں جا رہا ہوں۔ بیٹی کو باپ کی وفات کی اطلاع ملے تو بیٹی کیا کرے گی؟ تھوڑی دیر کے بعد حضورؐ نے دیکھا کہ پریشان ہو رہی ہے زیادہ، تو کان میں کہا کہ بیٹی! میرے بعد سب سے پہلے تم میرے پاس آؤ گی۔ تو خوش ہو گئیں۔ حضورؐ نے اپنی وفات کی خبر دی ہے تو بیٹی رونے لگ گئی ہے، اور بیٹی کو اس کی وفات کی خبر دی ہے تو وہ خوش ہو گئی ہے۔ یہ باپ بیٹی کا معاملہ تھا۔