انسانی حقوق کے خودساختہ نظام کی ناکامی

   
۱۳ دسمبر ۲۰۲۳ء

۱۰ دسمبر اتوار کو دنیا بھر میں ’’انسانی حقوق کا عالمی دن‘‘ منایا گیا، اس روز ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا وہ عالمی منشور منظور کیا تھا جسے باہمی انسانی حقوق کے لیے معیار سمجھا جاتا ہے، اور تمام ممالک و اقوام سے اس کی پابندی اور اس کے مطابق اپنے ممالک کے قانونی و معاشرتی نظام کو ڈھالنے کا نہ صرف تقاضہ کیا جاتا ہے بلکہ اس پر عملدرآمد کے لیے دباؤ اور بازپرس کے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مجھے اس روز گوجرانوالہ میں ’’یوتھ اسمبلی برائے انسانی حقوق‘‘ کے تحت گورنمنٹ لیدر کالج گوجرانوالہ میں منعقدہ ایک بھرپور سیمینار میں شرکت و خطاب کا موقع ملا اور مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں بھی اسی موضوع پر گفتگو کی۔ یوتھ اسمبلی برائے انسانی حقوق گوجرانوالہ اس حوالے سے کام کرنے والا ایک منظم گروپ ہے جو سالہا سال سے سرگرمِ عمل ہے، مجھے اس کے مختلف پروگراموں میں وقتاً‌ فوقتاً‌ شریک ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے بلکہ میں اس قسم کی مجالس کی تلاش میں رہتا ہوں تاکہ اپنی بات ان لوگوں کے سامنے بھی عرض کر سکوں جو عام طور پر ہماری گفتگو نہیں سن پاتے۔ سیمینار کا عنوان ’’انسانی حقوق اور فلسطین‘‘ تھا جس میں متعدد اربابِ فکر و دانش نے گفتگو کی اور ایک اعلامیہ بھی منظور کیا گیا۔ سیمینار کے منتظمین کی جاری کردہ رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے:

’’یوتھ اسمبلی برائے انسانی حقوق گوجرانوالہ کے زیر اہتمام انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر سالانہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں عظیم مذہبی سکالر مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی نے مظلوم نہتے فلسطینی مسلمانوں کے لیے ہر سطح پر انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے آواز بلند کرنے کی ضرورت پر زور دیا، اور اس تشویش کا اظہار کیا کہ دو ماہ سے اسرائیلی جارحیت جاری ہے، غزہ کے معصوم نہتے شہریوں اور بچوں کے لاشے کسی بھی انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو نظر نہیں آرہے، ایسی صورتحال میں ہمیں ہر شعبہ سے وابستہ افراد اور تمام مکاتب فکر کے نمائندوں کے ساتھ متحد ہو کر عملی طور پر پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یورپی یونین، اقوام متحدہ، اور دیگر عالمی ادارے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور اسرائیل کی جارحیت روکنے کیلئے جنگی بنیادوں پر اپنا کردار ادا کریں۔ عالمی سطح پر اپنایا جانے والا یہ دوہرا معیار امت مسلمہ کیلئے قابل قبول نہیں۔ کانفرنس میں بابر حسین سلہری (مرکزی صدر یوتھ اسمبلی فار ہیومن رائٹس)، محمد قاسم کمبوہ (مرکزی سیکرٹری انفارمیشن اینڈ میڈیا)، سید محمد اطہر رضا زیدی (پراجیکٹ ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف لیدر ٹیکنالوجی)، عبد الصمد ہاشمی (وائس پرنسپل آئی ایل ٹی)، محمد یوسف (ڈائریکٹر ہیومن رائٹس اینڈ منارٹیز افیرز پنجاب)، پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید مشرقی (ایمبیسیڈر آف ایجوکیشن)، ڈاکٹر شہزانہ (اینکر پی ٹی وی نیوز)، انجم شہزاد (تحصیل ایمرجنسی آفیسر) اور علامہ نصیر احمد اویسی، مولانا حافظ امجد محمود معاویہ، حاجی بابر رضوان باجوہ، وحید الحق ہاشمی ایڈووکیٹ، میاں فضل الرحمان چغتائی، حافظ فراست بٹ، مولانا ندیم مراد سندھو، محمد اقبال چھٹہ، مولانا احسان اللہ قاسمی، حافظ عبد الجبار، میڈیم سدرہ شہباز سمیت علماء، اساتذہ، وکلاء، تاجر، اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور اظہار خیال فرمایا۔‘‘

اس سیمینار میں اور مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے درس میں جو گزارشات میں نے پیش کیں ان کا خلاصہ چند نکات کی صورت میں درج ذیل ہے:

  • انسانی حقوق کا جو عالمگیر منشور اب سے پون صدی قبل منظور اور نافذ کیا گیا تھا وہ اپنے مقاصد میں ناکام ثابت ہوا ہے، اور اقوام متحدہ نہ صرف یہ کہ اقوام و ممالک کے درمیان جنگ و جدال کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی، بلکہ انسانی حقوق کے حوالے سے خود اپنے مقرر کردہ معیارات کو دائرہ عمل میں لانے میں بھی کوئی واضح کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ جس کی تازہ ترین مثال غزہ اور فلسطین میں اسرائیل کی جارحیت اور جنگی جرائم کا مسلسل ارتکاب ہے، جو اقوام متحدہ اور اس کے ہیومن رائٹس چارٹر کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
  • حقوق اللہ اور حقوق العباد کا مشترکہ ماحول آسمانی تعلیمات کی بنیاد چلا آ رہا ہے، مگر اقوام متحدہ نے انسانوں کے باہمی حقوق کے لیے اپنے طے کردہ نظام میں حقوق اللہ کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے صرف حقوق العباد کو نئے نظام کی بنیاد بنایا ہے جو ہمارے نزدیک اس کی ناکامی کا سب سے بڑا باعث ثابت ہوا ہے۔ اس لیے کہ جس نظام و قانون کو اس پر عمل کرنے والوں نے خود ہی طے کرنا ہے اور اس کا احتساب بھی خود کرنا ہے، اس میں انصاف اور توازن کا قیام ناممکن ہے۔ آسمانی تعلیمات بالخصوص اسلامی شریعت میں حقوق العباد سے پہلے حقوق اللہ کو لازمی قرار دیا گیا ہے، اور خدا خوفی کے ساتھ قیامت کے حساب کتاب کا عقیدہ دیا گیا ہے، جو جرائم کو روکنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اس لیے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ہمارا اقوام متحدہ اور پوری انسانی برادری سےکے لیے ہمارا پیغام ہے کہ چونکہ آسمانی تعلیمات کا ماحول قائم کیے بغیر عدل و انصاف اور امن کا قیام ممکن نہیں ہے، اس لیے آسمانی تعلیمات سے انحراف کی ضد کو ترک کر کے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے توازن پر انسانی حقوق کا منشور نئے سرے سے مرتب کیا جائے۔
  • اس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ مرعوبیت اور احساسِ کمتری کے ماحول سے نجات حاصل کر کے اسلامی تعلیمات کو قرآن و سنت اور خلفاء راشدین کے اسوہ کی روشنی میں اپنے نظاموں اور پالیسیوں کی بنیاد بنائیں تاکہ ملتِ اسلامیہ اپنی شاندار تہذیب و ثقافت کی بنیاد پر دنیا میں اپنا صحیح مقام حاصل کرنے کے لیے مؤثر طور پر آگے بڑھ سکے۔
   
2016ء سے
Flag Counter