حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ

   
تاریخ : 
نا معلوم

مولانا غلام اللہ خانؒ شیخ العلماء حضرت مولانا حسین علیؒ اور خاتم المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے مایہ ناز شاگردوں میں سے تھے جنہوں نے تمام عمر توحید کے پرچار میں صرف کر دی۔ انتہائی جری، بے باک اور معاملہ فہم راہنما تھے، قومی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، مجلس احرارِ اسلام کے پلیٹ فارم پر تحریکِ آزادی میں حصہ لیا، تحریک ختم نبوت کے دونوں ادوار میں سرگرم کردار ادا کیا، اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد اور تحریک نظام مصطفٰیؐ میں بھی علماء و عوام کی جرأت مندانہ رہنمائی کی، اور جب بھی کسی قومی یا دینی محاذ پر ان کی ضرورت محسوس ہوئی پاکستان کے عوام نے انہیں پہلی صف میں پایا۔ شرک و بدعات کا رد اور عقیدۂ توحید کا اپنے مخصوص انداز میں پرچار ان کی زندگی کا مشن رہا اور اس مشن پر آخر دم تک پورے استقلال اور وقار کے ساتھ کاربند رہے۔

مولانا غلام اللہ خانؒ پر قاتلانہ حملے ہوئے، قید و بند اور نظر بندی کی صعوبتیں پیش آئیں، مقدمات سے ہر دور میں واسطہ رہا مگر کوئی مشکل انہیں اپنے مشن سے ہٹا نہ سکی۔ جس بات پر ڈٹ گئے بس ڈٹ گئے، حتیٰ کہ اپنوں سے بھی اختلاف کیا اور بہت سے مسائل میں کیا۔ مگر اختلاف کی شدت کے دور میں بھی اپنے موقف کے اظہار کے باوجود اپنے بعض دیگر رفقاء کی طرح غلو اور فتویٰ بازی کا راستہ اختیار نہیں کیا اور نہ ہی یہ اختلاف ضرورت کے مواقع پر انہیں اپنوں کے ساتھ ملنے سے روک سکا۔ جب بھی اشتراکِ عمل کی ضرورت محسوس ہوئی شیخ القرآنؒ کشادہ دلی کے ساتھ سامنے آگئے حتیٰ کہ قومی و دینی تحریکات کے دور میں اپنے شدید ترین مخالفین کے ساتھ بھی اشتراکِ عمل سے گریز نہ کیا۔ وہ اپنے مشن اور مسلک کے لیے انتہائی سخت تھے لیکن قومی اور اجتماعی تقاضوں کا احساس بھی ان کے دل میں ہمیشہ موجود رہا اور اسی حسین توازن نے قوم کے ہر طبقہ کے دل میں ان کے لیے احترام اور عقیدت کے در وا کر دیے۔

راقم الحروف کو کئی بار شیخ القرآن سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی، جب بھی ملے انتہائی تپاک سے ملے، شفقت کا اظہار فرمایا، والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کی خیریت دریافت کی۔ دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان، حضرت مولانا سید محمد اسعد مدنی مدظلہ کے مکان پر قیام پذیر تھے جبکہ والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر مع عم مکرم مولانا عبد الحمید سواتی حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب کے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ کسی نے بتایا کہ مولانا غلام اللہ خان کی طبیعت اچانک علیل ہوگئی ہے، دونوں حضرات طبع پرسی کے لیے مولانا کی قیام گاہ پر گئے، راقم الحروف بھی ہمراہ تھا، جس محبت کے ساتھ آپس میں ملے اس کا نقشہ ابھی تک آنکھوں کے سامنے ہے، اس وقت عملی طور پر دیکھا کہ اہلِ علم کے درمیان اختلاف کا دائرہ کیا ہوتا ہے۔

حضرت الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم نے دیوبندی مسلک کی مختلف جماعتوں کے درمیان اشتراکِ عمل کی راہ ہموار کرنے کے لیے مدرسہ مخزن العلوم والفیوض کے سالانہ جلسہ تقسیمِ اسناد کے موقع پر تمام دیوبندی جماعتوں کو بلایا، جمعیۃ اشاعۃ التوحید والسنۃ کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے مولانا غلام اللہ خان بھی شریک ہوئے اور اشتراکِ عمل کی خواہش کو تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ خانپور کے اجتماع کے بعد گوجرانوالہ تشریف لائے، یہ شیخ القرآنؒ کا آخری دورۂ گوجرانوالہ تھا، پرانے مسافر خانہ کی جامع مسجد میں ظہر کی نماز کے بعد سورۃ الکوثر کا درس دیا جو گوجرانوالہ میں ان کا آخری خطاب تھا۔ راقم الحروف بھی حاضر تھا، اس کے بعد ملاقات ہوئی، حسبِ معمول شفقت و محبت کا اظہار فرمایا، جامع مسجد شیرانوالہ باغ تشریف لے چلنے کی استدعا کی تو فرمایا ضرور چلتا مگر واپسی میں عجلت کی وجہ سے اب وقت نہیں ہے۔ کافی دیر تک ہاتھ میں ہاتھ لیے گاڑی کے پاس کھڑے رہے اور خانپور کے اجتماع پر مسرت کا اظہار فرماتے رہے۔ یہ مسرت بے ساختہ ان کی زبان پر اظہار سے مشرف ہوتی رہی اور پھر دوبارہ گوجرانوالہ آمد پر جامع مسجد شیرانوالہ باغ تشریف آوری کا وعدہ فرما کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ مگر کسے خبر تھی کہ یہ آخری ملاقات ہے اور اب اس کے بعد گوجرانوالہ تشریف آوری مقدر میں نہیں ہوگی۔

مولانا غلام اللہ خانؒ جرأت و استقلال اور اپنے مشن پر پختگی کے ساتھ توازن کی حسین روایات چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے اور اب ان روایات کی پاسداری ان کے جانشین مولانا قاضی احسان الحق اور دوسرے فرزندوں مولانا حسین علی اور مولانا اشرف علی کے ذمہ آپڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے خاندان کے دیگر افراد سمیت عظیم باپ کی جدائی کے صدمہ سے صبر و حوصلہ کے ساتھ عہدہ برآ ہونے اور ان کی جدوجہد، وضعداری اور روایات کو زندہ رکھنے کی توفیق دیں اور مولانا مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter