ویلنٹائن ڈے کے دو مناظر

   
مارچ ۲۰۱۲ء

۱۴ فروری کو دنیا بھر میں ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ منایا گیا اور پاکستان میں بھی اس عنوان سے محبت کے نام پر بے حیائی کے مختلف مناظر دیکھنے میں آئے جن میں سے ایک منظر روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ (۱۵ فروری ۲۰۱۲ء) کے مطابق یہ ہے کہ:

’’جلال پور جٹاں میں دوشیزہ نے ویلنٹائن ڈے پر پھول پیش نہ کرنے پر منگیتر کی بھرے بازار میں پٹائی کر دی۔ جبکہ سمبڑیال میں طالبہ نے پھول پیش کرنے پر دو منچلوں کی چھترول کر دی۔ مین بازار جلال پور جٹاں میں لڑکی نے ایک لڑکے کی پٹائی کرتے ہوئے کہا کہ یہ نوجوان میرا منگیتر ہے لیکن اس نے مجھے پھول پیش کرنے کی بجائے دوسری لڑکی کو پھول پیش کیے، بڑی مشکل سے نوجوان کو دوشیزہ سے بچایا گیا۔ جبکہ سمبڑیال میں نجی کالج کی طالبہ نے کالج آتے ہوئے دو لڑکوں کی طرف سے پھول پیش کرنے پر ان کی تھپڑوں اور کتابوں سے پٹائی کر دی۔‘‘

دوسری طرف روزنامہ ایکسپریس کی اسی روز ایک اور خبر کے مطابق:

’’ازبکستان میں لوگوں نے ویلنٹائن ڈے کو غیر ملکی تہوار قرار دے کر مسترد کر دیا ہے اور اس دن کو اپنے ہیرو قرونِ وسطیٰ کے عظیم بادشاہ ظہیر الدین بابر کے یوم پیدائش کے طور پر منایا ہے۔ یہاں چاکلیٹ یا پھولوں کے تحائف دینے کی بجائے مشاعرے منعقد ہوئے۔ اس کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی حکم نامہ تو جاری نہیں کیا گیا تھا لیکن حکام کے بقول زبانی طور پر لوگوں کو اس دن کو بابر بادشاہ کے یوم پیدائش کے طور پر منانے کے لیے کہا گیا تھا۔ ظہیر الدین بابر پانچ صدیاں قبل ۱۴ فروری کو ازبکستان کے علاقہ اندیجان میں پیدا ہوئے تھے۔‘‘

کسے معلوم نہیں کہ ویلنٹائن ڈے اور اس قسم کے دیگر درآمدی تہواروں کے ذریعہ ہمارے ہاں اسی قسم کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو جلال پور جٹاں اور سمبڑیال جیسے درمیانے درجے کے قصبوں میں اس سال دیکھنے میں آئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ہمارا قومی میڈیا اور بہت سے اربابِ فکر و دانش اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی بجائے اس کے دفاع اور فروغ میں مصروف ہیں۔ جبکہ ازبکستان کی حکومت اور عوام نے اپنے قومی ہیرو اور قومی تاریخ کو یاد رکھا ہے اور اپنی قومی روایات کو ویلنٹائن ڈے جیسے بے ہودہ تہوار پر قربان کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ خدا کرے کہ ہم بھی ازبکستان کے عوام کی طرح اپنی قومی اقدار اور روایات کے تحفظ کے لیے حمیت و غیرت کا کسی درجہ میں مظاہرہ کر سکیں، آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter