علماء کرام کی تربیت

   
تاریخ: 
۱۰ مارچ ۲۰۱۴ء

۱۰ مارچ کو اسلام آباد ہوٹل اسلام آباد میں ’’مجلس صوت الاسلام پاکستان‘‘ کی ایک باوقار تقریب تھی جس کی صدارت حضرت مولانا حافظ فضل الرحیم نے فرمائی اور مہمان خصوصی راجہ محمد ظفر الحق تھے۔ مجلس صوت الاسلام کے ’’تربیت علماء کورس‘‘ میں تربیت حاصل کرنے والے فضلاء میں اسناد کی تقسیم کے لیے اس محفل کا انعقاد کیا گیا جس سے مجلس صوت الاسلام پاکستان کے چیئرمین مولانا مفتی ابوہریرہ محی الدین، مولانا عبد القیوم حقانی، ڈاکٹر سعد صدیقی، ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، ڈاکٹر دوست محمد، سینیٹر طلحہ محمود، جناب خورشید احمد ندیم، ڈاکٹر طاہر حکیم، اور دیگر سرکردہ علماء کرام اور ارباب دانش کے علاوہ اسلام آباد میں رابطہ عالم اسلام کے ڈائریکٹر جنرل الشیخ عبدہ محمد بن ابراہیم عتین نے بھی خطاب کیا، جبکہ بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد اسحاق مدنی کی دعا پر یہ محفل اختتام پذیر ہوئی۔ راقم الحروف نے بھی اس موقع پر کچھ معروضات پیش کیں جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجلس صوت الاسلام پاکستان دینی حلقوں بالخصوص علماء کرام میں فکری بیداری اور عصری تقاضوں کے ادراک کا ماحول پیدا کرنے کے لیے جو محنت کر رہی ہے، میں بھی اس کا حصہ اور شریکِ کار ہوں اور مجلس کو اپنی جدوجہد میں مسلسل پیش رفت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تو اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ ’’تربیت علماء کورس‘‘ کا عنوان بہت اہم ہے جو احساس دلا رہا ہے کہ ہم لوگ جو علماء کرام کہلاتے اور سمجھے جاتے ہیں انہیں بھی تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم علماء کرام اب مزید تعلیم اور تربیت سے بے نیاز ہیں اور سند فراغت حاصل ہوتے ہی ہم ’’خدائی فوجدار‘‘ بن کر لوگوں پر مسلّط ہونے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ تعلیم و تربیت تو زندگی بھر ساتھ چلتی ہے اور انسان موت تک طالب علم ہی رہتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ ایک بار سبق پڑھانے کے لیے بخاری شریف کا مطالعہ کر رہے تھے، ان سے عرض کیا گیا کہ یہ کتاب آپ کم و بیش چالیس سے زیادہ مرتبہ پڑھا چکے ہیں، کیا اب بھی آپ کو اس کے مطالعہ کی ضرورت ہے؟ فرمایا کہ ہر بار مطالعہ میں نئے نکات سامنے آتے ہیں اور انسان ساری زندگی اس بات کا محتاج رہتا ہے کہ وہ مطالعہ کرے اور اپنے علم اور معلومات میں اضافہ کرتا رہے۔ اس لیے مجلس صوت الاسلام تربیت کے عنوان سے دینی مدارس کے فضلاء میں تعلیم و تربیت کو جاری رکھنے کا جو ذوق پیدا کر رہی ہے وہ خوش آئند ہے اور ہم اس کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔

دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ابھی میرے بعض دوستوں نے حکومت کی طرف سے پیش کی جانے والی مجوزہ ’’قومی سلامتی پالیسی‘‘ کا ذکر کیا ہے اور اس میں دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا پروگرام کا حوالہ دیا ہے۔ دینی مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے اور قومی دھارے میں لانے کی باتیں ایک عرصہ سے کی جا رہی ہیں مگر مجھے اس بات سے شدید اختلاف ہے۔ دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا معنٰی یہ ہے کہ وہ اس وقت قومی دھارے کا حصہ نہیں ہیں۔ میرے نزدیک یہ کہنا دینی مدارس کے معاشرتی کردار کی نفی کے مترادف ہے اور میں نے کچھ عرصہ قبل ایک وفاقی وزیر کی اسی قسم کی بات پر ان سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ دینی مدارس کو قومی دھارے سے باہر قرار دے کر ہمیں گالی مت دو۔

دیکھیے! ملک میں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے جسے میڈیکل کالج پورا کر رہے ہیں، انجینئروں کی ضرورت ہے جسے انجینئرنگ کالج پورا کرنے میں مصروف ہیں، اور وکلاء کی ضرورت ہے جو لاء کالجوں سے پوری ہو رہی ہے۔ ان سے کوئی نہیں کہتا کہ چونکہ تمہارا نصاب ملک کے دیگر تعلیمی اداروں سے الگ ہے اس لیے تم قومی دھارے سے باہر ہو۔ کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ میڈیکل کالج کا نصاب تعلیم صرف ایک شعبہ کی تعلیم میں محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ انجینئرنگ کالج کا نصاب بھی میڈیکل کالجوں میں پڑھایا جانا چاہیے۔ اور کوئی صاحب یہ نہیں فرماتے کہ میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج، لاء کالج اور ٹیکنیکل کالج کے نصاب میں یکسانیت ہونی چاہیے۔

میرے بھائی! جس طرح میڈیکل کالج قومی زندگی کے صرف ایک شعبہ کی ضروریات پوری کر رہے ہیں اور انجینئرنگ کالج صرف ایک شعبہ کی ضروریات تک خود کو محدود رکھے ہوئے ہیں، اسی طرح دینی مدارس نے بھی قومی زندگی کے ایک شعبہ کی ضروریات اپنے ذمہ لے رکھی ہیں۔ اور وہ ہے مسجد کا ادارہ، قرآن و سنت کی تعلیم کا شعبہ، اور معاشرے کی اسلامی تعلیم و تربیت کا میدان۔ ملک بھر کی لاکھوں مساجد و مدارس کو امام، خطیب، مدرس، حافظ، حافظ، قاری اور مفتی یہی مدارس فراہم کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وفاقی محتسب اعلیٰ نے حکم دیا تھا کہ پورے ملک میں سکولوں میں مڈل تک قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم کو لازمی کیا جائے تو یہ کہہ کر اس حکم پر عملدرآمد سے انکار کر دیا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں اسکولوں کو مہیا کرنے کے لیے ہمارے پاس حافظ و قاری موجود نہیں ہیں اور نہ ہی بجٹ موجود ہے۔ لیکن سکولوں سے کئی گنا زیادہ تعداد میں مساجد کو امام، خطیب، حافظ، قاری اور مفتی و مدرس دینی مدارس کا یہ نظام فراہم کر رہا ہے اور اس کے لیے کسی بجٹ کا تقاضہ بھی نہیں کرتا۔ بلکہ حکومت اور بین الاقوامی ادارے رقوم دینا چاہتے ہیں مگر دینی مدارس کے وفاق یہ کہہ کر یہ رقوم وصول کرنے سے انکاری ہیں کہ ہم سرکاری مداخلت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

میں ارباب اقتدار سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا مسجد و مدرسہ قومی ضروریات کا حصہ نہیں ہیں؟ اور کیا معاشرے میں قرآن و سنت کی تعلیمات کا فروغ اور معاشرتی مسائل میں شرعی راہ نمائی کی فراہمی ہمارے معاشرتی ضروریات میں شامل نہیں ہے؟ اگر یہ کام ہماری قومی اور معاشرتی ضروریات کا حصہ ہے تو اس ضرورت کو پورا کرنے والے اداروں کو قومی دھارے سے الگ قرار دے کر ان کے کردار کی نفی نہ کرو۔ کیونکہ یہ ان کے کردار کی نفی نہیں ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں قرآن و سنت کی تعلیم کو قومی ضرورت تسلیم کرنے سے انکار ہے۔

اگر قومی دھارے میں لانے کا مطلب دینی مدارس کو سرکاری نظام میں لانا ہے تو میں یاد دلانا چاہوں گا کہ یہ تجربہ ہم پہلے بھی کر چکے ہیں جو ناکام رہا ہے۔ صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں جامعہ عباسیہ بہاول پور کو یہ کہتے ہوئے سرکاری تحویل میں لیا گیا تھا اور اسے اسلامی یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا کہ عصری علوم کے ساتھ دینی علوم کی تعلیم دے کر ایک ماڈل تعلیمی نظام پیش کیا جائے گا، لیکن اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ اسلامی یونیورسٹی بہاول پور میں جو اصل میں ایک بڑا دینی مدرسہ جامعہ عباسیہ تھا، درس نظامی کے علوم ایک ایک کر کے نکال دیے گئے ہیں اور اب دوسری بڑی یونیورسٹیوں میں اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لیے اگر دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا یہ مطلب ہے تو میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس آئیڈیا کو مسترد کرتے ہیں، اور اس تجربہ بلکہ ڈرامہ کو دہرانے کی کسی صورت میں اجازت نہیں دیں گے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۳ مارچ ۲۰۱۴ء)
2016ء سے
Flag Counter