جنرل پرویز مشرف سے دینی جماعتوں کی توقعات

   
۲۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء

افغانستان میں جہادی ٹریننگ کے مراکز، طالبان کی اسلامی حکومت، پاکستان کے دینی مدارس اور دہشت گردی کی وارداتوں کے حوالے سے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی پریس کانفرنسوں کے بعد ملک کے دینی حلقوں میں یہ خدشات بڑھتے جا رہے تھے کہ حکومت، طالبان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دینی مراکز و مدارس کے خلاف بھی کسی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں مجلس عمل علماء اسلام پاکستان نے ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ’’علماء کنونشن‘‘ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس صورتحال میں حکومتی اقدامات اور عزائم سے نمٹنے کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔ مجلس عمل علماء اسلام پاکستان دینی جماعتوں کا متحدہ محاذ ہے جس میں دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی کم و بیش سب دینی و سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اس متحدہ محاذ کے سربراہ ہیں جبکہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے فرزند مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاری رابطہ سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

علماء کنونشن کے لیے بذریعہ ڈاک ارسال کیے جانے والے دعوت نامے پوسٹ کیے جا چکے تھے اور گوجرانوالہ اور قریبی شہروں میں علماء کرام سے رابطوں کے لیے پروگرام ترتیب دیا جا رہا تھا کہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی گئی اور بری فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ اس کے بعد ایک دو روز اسی انتظار میں گزر گئے کہ نئی صورتحال میں کنونشن کے انعقاد کی گنجائش اور ضرورت ہوگی یا نہیں۔ مگر صورتحال واضح نہ ہونے پر مجلس عمل کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ علماء کنونشن کا باقاعدہ انعقاد سردست نہ کیا جائے، اس سلسلہ میں مزید رابطے کیے جائیں، باقی ماندہ دعوت نامے روک لیے جائیں اور جو حضرات فون پر رابطہ کریں انہیں کنونشن کے التواء کی اطلاع کر دی جائے۔ تاہم جن لوگوں کو دعوت نامے بذریعہ ڈاک بھجوائے جا چکے ہیں، چونکہ انہیں دوبارہ خط ارسال کرنے کا وقت نہیں رہا اس لیے ان میں سے جو دوست آجائیں ان کے ساتھ تازہ ترین صورتحال پر غیر رسمی مشاورت کر لی جائے۔

چنانچہ اس پس منظر میں ۱۶ اکتوبر کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں مجلس عمل میں شامل جماعتوں کے چند سرکردہ علماء کرام جمع ہوئے اور ڈیڑھ دو گھنٹے کی غیر رسمی مشاورت میں انہوں نے ملک کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیا۔ شرکاء میں مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاری کے علاوہ جمعیۃ علماء اسلام (ف) کے مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی اور مولانا سید عبد المالک شاہ، جمعیۃ علماء اسلام (س) کے مولانا عبدا لرؤف فاروقی، علامہ محمد احمد لدھیانویؒ، مولانا محمد یحییٰ محسن اور ڈاکٹر غلام محمد، پاکستان شریعت کونسل کے مخدوم منظور احمد تونسوی اور مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، مجلس تحفظ ختم نبوت کے مولانا قاری محمد یوسف عثمانی، مجلس احرار اسلام کے مولانا اللہ یار راشد، سپاہ صحابہ پاکستان کے قاری محمد یوسف قصوری اور میرپور آزاد کشمیر سے تشریف لانے والے مولانا مفتی محمد رویس خان، مولانا مفتی محمد یونس کشمیری اور مولانا محمد اشفاق کے علاوہ بزرگ عالم دین مولانا احمد سعید ہزاروی اور راقم الحروف بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

شرکاء محفل نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ پاک فوج میں خلفشار پیدا کرنے کی سازش ناکام ہوگئی ہے اور سابقہ حکومت نے واشنگٹن کے حکمرانوں کی آشیرباد سے طالبان کی اسلامی حکومت اور پاکستان کے دینی مدارس کے خلاف جس کارروائی کا عزم ظاہر کیا تھا اور جس کے لیے مدارس دینیہ کی فہرستیں اور کوائف مرتب ہونا شروع ہوگئے تھے وہ کارروائی وقتی طور پر رک گئی ہے۔ مگر ان دونوں حوالوں سے نئی حکومت کے عزائم کے بارے میں ابہام بدستور موجود ہیں اور جب تک نئے حکمرانوں کی پالیسی اور ترجیحات سامنے نہیں آتیں اس وقت تک اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے یہی مشورہ ہوا کہ چند روز تک صورتحال واضح ہونے پر ازسرنو ’’علماء کنونشن‘‘ بلایا جائے تاکہ دینی حلقوں کے آئندہ لائحہ عمل کا تعین کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی مشورہ میں یہ بات طے پائی کہ مجلس عمل کی طرف سے ایک ’’یادداشت‘‘ جنرل پرویز مشرف کو بھجوائی جائے جس میں ان توقعات اور خدشات کی طرف انہیں توجہ دلائی جائے جو ملک کی حالیہ تبدیلیوں کے بعد دینی حلقوں کے ذہنوں میں ابھر رہے ہیں اور جن سے ملک کی نئی حکومت کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔

اس سلسلے میں شرکاء محفل نے جن امور کا تذکرہ کیا ان کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

  1. اول یہ کہ آئین معطل ہوجانے کے بعد آئین کی اسلامی دفعات بالخصوص قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی دستوری ترمیم کے بارے میں ابہام پیدا ہوگیا ہے اور ان دفعات کا تعطل ان بین الاقوامی لابیوں کی تقویت کا باعث بن سکتا ہے جو پاکستان کے دستور سے اسلامی دفعات کو حذف کرانے اور پاکستان کو سیکولر قرار دلوانے کے لیے مسلسل مصروف عمل ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ فوجی حکمران دستور پاکستان کی اسلامی دفعات بالخصوص قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی دفعہ کے بارے میں اپنے موقف کا دوٹوک اعلان کریں تاکہ دستور پاکستان کی نظریاتی حیثیت اور نئی حکومت کے حوالے سے بے جا شکوک و شبہات نہ پھیل سکیں۔
  2. دوم یہ کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے عنوان پر گزشتہ برسوں میں جو تباہی مچی ہے اس کا پوری سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس دوران سنی اور شیعہ مکاتب فکر کے سینکڑوں علماء اور اراکین جاں بحق ہوئے ہیں، ہزاروں افراد کے خلاف مقدمات درج ہیں جن میں بہت سے لوگ سالہا سال سے جیلوں میں بند ہیں۔ سینکڑوں افراد پولیس مقابلوں میں مارے گئے ہیں مگر فرقہ وارانہ کشیدگی اپنے تمام تر اسباب و عوامل سمیت پوری طرح بدستور موجود ہے۔ اس لیے نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ سپریم کورٹ کے جج کی سربراہ میں اعلیٰ عدالتی انکوائری کمیشن قائم کرے جو سنی شیعہ کشیدگی کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کرے، دونوں طرف کے مارے جانے والے رہنماؤں اور کارکنوں کے مقدمات کا جائزہ لے، پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے افراد کے کیسوں کی انکوائری کرے اور ملک بھر کے تھانوں میں درج ان ہزاروں مقدمات کی میرٹ کی بنیاد پر چھان پھٹک کرے جو دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے خلاف درج کروا رکھے ہیں اور جن میں سے اکثر مقدمات کی بنیاد محض مخاصمت اور عناد ہے۔ جبکہ ان مقدمات کے تحت بہت سے افراد سالہا سال سے جیلوں میں بند چلے آرہے ہیں۔
  3. سوم یہ کہ مسئلہ کشمیر، طالبان، اسامہ بن لادن اور پاکستان کے دینی مدارس کے بارے میں امریکی دباؤ کو مسترد کرنے کا واضح اعلان ضروری ہے۔ اور اس سلسلہ میں شرکاء محفل نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ اگر فوجی حکومت امریکی دباؤ کو مسترد کر کے قومی وقار اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے مضبوط موقف اختیار کرے تو اسے ملک کے عوام بالخصوص دینی حلقوں کی طرف سے بھرپور حمایت ملنی چاہیے اور ایسی صورت میں مجلس عمل علماء اسلام پاکستان کو سرگرم کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
   
2016ء سے
Flag Counter