۱۰ جنوری ۲۰۱۰ء کو لاہور میں ’’مِلّی مجلسِ شرعی‘‘ کے زیراہتمام مختلف مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام اور سول سوسائٹی کے مختلف طبقات کے رہنماؤں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس کا مقصد ملک کی خودمختاری کی بحالی کے لیے جدوجہد کو منظم کرنا ہے۔ اس موقع پر مِلّی مجلسِ شرعی کا تعارف اور پس منظر پیش خدمت ہے۔
۳ اگست ۲۰۰۷ء کو تحریکِ اصلاحِ تعلیم ٹرسٹ کے زیر اہتمام گلبرگ شانِ اسلام ارقم سکول میں دینی مدارس کے علماء کرام کی ایک ورکشاپ میں یہ خیال سامنے آیا کہ ایک علمی مجلس ایسی ہونی چاہیے جس میں تمام مکاتبِ فکر کے ثقہ علماء شریک ہوں اور جس میں عصری حوالے سے مسلم معاشرے کو درپیش جدید مسائل پر غور و خوض کیا جا سکے تاکہ عوام کو اسلامی حوالے سے جدید مسائل میں آگہی و رہنمائی میسر آسکے۔ فرقہ وارانہ سطح سے اوپر اٹھ کر علماء کرام کا ایک مشترکہ اور اجتماعی موقف سامنے آسکے اور جس سے اتحادِ امت اور بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ ملے۔ چنانچہ اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ۹ اگست ۲۰۰۷ء کو جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور میں ایک تاسیسی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ’’مِلّی مجلسِ شرعی‘‘ کے نام سے ایک علمی و فکری مجلس کی بنیاد ڈالی گئی اور اتفاق رائے سے مولانا ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کو مجلس کا کنوینر اور پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کو رابطہ سیکرٹری بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مجلس اب تک مندرجہ ذیل موضوعات پر تمام مکاتبِ فکر کے جید اور معتمد علماء کا مشترکہ موقف سامنے لا چکی ہے:
- تصویر اور ٹی وی کے شرعی مقاصد کے لیے استعمال کا مسئلہ۔
- دینی مدارس کے نظام اور نصابات کی اصلاح۔
- پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی عریانی و فحاشی کے انسداد اور حیا و عفت کے فروغ کے لیے پُراَمن جدوجہد کو منظم و متحرک کرنا۔
- ملک میں نفاذِ شریعت اور امریکی مداخلت کے سدباب کے لیے تحریک چلانا۔
مجلس کے تاسیسی اجلاس میں جن علماء کرام نے شرکت کی ان کے اسماء گرامی یہ ہیں: مولانا ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، مولانا حافظ فضل الرحیم، مولانا عبد المالک، مولانا حافظ عبد الرحمان مدنی، مولانا عبد المالک، مولانا زاہد الراشدی، مولانا مفتی محمد خان قادری، مولانا محمد صدیق ہزاروی، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف، پروفیسر محمد رفیق چودھری۔
نفاذِ شریعت اور امریکی مداخلت کے خاتمہ کے دو نکات پر مجلس نے ۳۰ مئی ۲۰۰۹ء کو تحریک چلانے کا فیصلہ کیا اور جناب حافظ عاکف سعید (امیر تنظیمِ اسلامی) کو اس کا کنوینر مقرر کیا۔ اس بارے میں تفصیلات طے کرنے کے لیے ۱۲ جون کو بعد از نماز مغرب ماڈل ٹاؤن میں اجلاس رکھا گیا جس کی صدارت کے لیے ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کو تشریف لانا تھا کہ وہ اسی روز دوپہر خودکش حملہ میں مظلومانہ شہید ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر نعیمیؒ کی شہادت مِلّی مجلسِ شرعی کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا کیونکہ وہ اس کے بانی کنوینر تھے اور انہی کی سرپرستی میں سارا کام ہو رہا تھا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحبؒ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں اس کام کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس کی خاطر انہوں نے جان کی بھی پروا نہ کی۔
ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد مولانا مفتی محمد خان قادری کو مِلّی مجلسِ شرعی کا کنوینر منتخب کیا گیا ہے اور ان کی سربراہی میں کام کو آگے بڑھانے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہے۔ ۱۰ جنوری کا مشترکہ اجلاس اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، اس میں قومی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ایک عوامی تحریک منظم کرنے کی ضرورت اور امکانات کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے مندرجہ ذیل موقف پر مختلف مکاتبِ فکر اور طبقات کے ذمہ دار حضرات سے رائے لینے کی کوشش کی جا رہی ہے:
’’پاکستان اس وقت بحرانی کیفیت میں ہے، عوام قتل و غارت گری اور مصائب و مشکلات کا شکار ہیں اور قومی سلامتی خطرے میں ہے۔ ان حالات کا بنیادی سبب امریکہ ہے جس نے پہلے عراق کو تباہ و برباد کیا، پھر افغانستان کی اسلامی حکومت کو ختم کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اب اس جنگ کو پاکستان پر مسلط کر رہا ہے۔ پاکستان کے بعض ہوائی اڈے اس کے قبضے میں ہیں، اس کے جنگی جہاز آئے روز شمالی علاقوں میں بمباری کرتے ہیں، اندرون ملک بلیک واٹر جیسی امریکی تنظیمیں پاکستان دشمن سرگرمیوں میں فعال ہیں، بلوچستان میں آزادی کے نعرے لگوائے جا رہے ہیں، اور پاکستانی شہروں میں دہشت گردانہ حملے معمول بن چکے ہیں۔ امریکہ یہ ساری کارروائیاں اپنے یورپین حلیفوں، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کے ساتھ مل کر کر رہا ہے تاکہ پاکستان کمزور ہو کر ٹوٹ جائے اور اس کے ایٹمی اثاثوں پر حفاظت کے نام پر قبضہ کر لیا جائے۔
پاکستان میں نفوذ کی پُراَمن سرگرمیاں اس پر مستزاد ہیں، جیسے قرضوں کی معیشت اور مہنگائی کا فروغ، میڈیا اور نظام تعلیم میں مداخلت اور فحاشی و عریانی میں اضافہ تاکہ اسلامی اقدار کمزور ہوں اور پاکستانی معاشرے پر مغربی فکر و تہذیب مسلط ہو جائے۔ ان امریکی اقدامات کا محرک اسلام اور مسلم دشمنی، امریکہ کے مالی مفادات کا تحفظ، اور عالمِ اسلام پر مغربی فکر و تہذیب کا غلبہ ہے۔
بلاشبہ پرویز مشرف اور ان کے بعد موجودہ زرداری حکومت بھی اس صورتحال کی ذمہ دار ہے جس نے اپنے اقتدار اور ڈالروں کے لیے امریکی آلۂ کار بننا قبول کر لیا اور اس ساری صورتحال کو نہ صرف خود قبول کیا بلکہ اسے عوام سے بھی قبول کروانا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال کی ذمہ داری میں نام نہاد طالبان اور دوسری شدت پسند تنظیموں کے بعض عناصر بھی شامل ہیں جنہوں نے نفاذِ شریعت کے معاملے میں پہلے پاکستان کے غیر صالح حکمرانوں سے مایوس ہو کر اس کام کو قوت سے کرنا چاہا، اور اب دانستہ یا نادانستہ اس جدوجہد میں امریکیوں اور بھارتیوں کے آلۂ کار بن چکے ہیں۔
ان حالات سے نکلنے، غیر ملکی اثرات کے خاتمے، اور اسلام اور نظریۂ پاکستان کے استحکام کی اب اس کے سوا کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں، دینی تنظیمیں، اور سول سوسائٹی کے سارے افراد اور طبقات، وکلاء، طلباء، اساتذہ، صحافی، ادیب، پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر، غرض ساری قوم، قومی خودمختاری کے تحفظ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر متحد اور متحرک ہو جائے اور ایک ایسی عوامی تحریک منظم کی جائے جو امریکی و بھارتی مداخلت کا خاتمہ کر دے۔ لہٰذا ہم قوم کے ہر فرد اور مختلف تنظیموں، جماعتوں اور اداروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس غرض سے اٹھ کھڑے ہوں اور ایک پُراَمن عوامی تحریک چلا کر پاکستان اور اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کرنے میں اپنا کردار عملاً ادا کریں۔‘‘
قارئین سے گزارش ہے کہ وہ مِلّی مجلسِ شرعی کے اس پروگرام اور لاہور کے اجلاس کی کامیابی کے لیے دعا فرمائیں۔ اور جو حضرات اس سلسلہ میں عملی طور پر کچھ کر سکتے ہیں وہ مِلّی مجلسِ شرعی کے رابطہ سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر محمد امین سے رابطہ کریں۔ ہماری خواہش ہے کہ تمام مکاتبِ فکر، طبقات، اور سول سوسائٹی کے افراد کو ساتھ لے کر قومی خودمختاری کے تحفظ کے لیے مضبوط فورم فراہم کر سکیں، اللہ تعالیٰ کامیابی سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔