یوم مئی، محنت کش طبقہ اور قومی بجٹ

   
۱۱ مئی ۱۹۹۸ء

یکم مئی ایک بار پھر آیا اور گزر گیا۔ یہ دن مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور محنت کش پوری دنیا میں شکاگو (امریکہ) کے ان مزدوروں کی یاد تازہ کرتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے جبر و استحصال کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے انہوں نے استحصالی طبقوں کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ محنت کشوں کو بھی اپنے جیسا انسان سمجھیں اور ان کے حقوق کا اعتراف کریں۔ حسب معمول اس سال بھی یکم مئی کو مزدوروں کی ریلیاں ہوئیں، اجتماعات کا اہتمام کیا گیا، اخبارات نے خصوصی ایڈیشن شائع کیے، راہ نماؤں نے بیانات دیے، مزدور تنظیموں نے مطالبات دہرائے، اور پھر یہ ساری فائلیں لپیٹ کر اگلے سال یکم مئی کے لیے الماری کے محفوظ خانے میں رکھ دی گئیں۔

محنت کش اور تنخواہ دار طبقہ ہمارے معاشرے میں جس خوفناک معاشی دباؤ کا شکار ہے اس نے اس طبقہ کے لیے زندگی کو سزا بنا کر رکھ دیا ہے جسے وہ بہرحال بھگتنے پر مجبور ہے۔ محدود آمدنی اور ہوشربا مہنگائی کے دو پاٹوں کی اس چکی نے محنت کش اور تنخواہ دار لوگوں کا جس بری طرح کچومر نکالا ہے اس کی صحیح تعبیر کے لیے مناسب الفاظ کی تلاش بھی مشکل ہوگئی ہے۔ مگر ہمارے پاس ان کے لیے رسمی بیانات اور خوشنما وعدوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی ہم صورتحال کی اس سنگینی کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کے لیے تیار ہیں۔

اس مصیبت کے اسباب کو تلاش کرنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ اگر ہم سرمایہ دارانہ نظام، جاگیرداری سسٹم، اور سوشلزم و کمیونزم کی کشمکش کے دائروں سے نکل کر اسلام کے صاف اور شفاف سرچشمے کی طرف رجوع کریں تو سادہ، فطری، اور متوازن معیشت کی ایک ایسی شاہراہ ہمارے سامنے موجود ہے جو انسانی معاشرہ کو آج بھی امن اور خوشحالی کی منزل تک پہنچانے کی ضمانت دیتی ہے۔ ہمارے اجتماعی نظام کی بنیاد ’’خلافت راشدہ‘‘ پر ہے۔ اور حضرات خلفاء راشدین حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، اور حضرت علیؓ نے سیاسی اور معاشی زندگی میں جو روایات ہمیں دی ہیں وہ نہ صرف ہمارے لیے بلکہ قیامت تک پوری نسل انسانی کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اور اپنی مشکلات و مصائب سے نجات حاصل کرنے کے لیے زود یا بدیر ہمیں بہرحال اپنی روایات کی طرف واپس پلٹنا ہوگا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو ان کا ذریعہ معاش کپڑا بننا اور بیچنا تھا جسے وہ خلافت کی ذمہ داریوں کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتے تھے۔ چنانچہ خلافت راشدہ کی پہلی مجلس شوریٰ نے ان کے لیے قومی خزانے (بیت المال) سے وظیفہ مقرر کیا۔ اس کے لیے اصول یہ طے پایا کہ خلیفہ محترم کو مدینہ منورہ کے ایک عام شہری جیسی زندگی گزارنے کے لیے ضروریات فراہم کی جائیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی تو وہی اصول قائم رہا بلکہ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے گورنروں اور آفیسرز پر پابندی لگا دی کہ ان میں سے کوئی باریک لباس نہیں پہنے گا، ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا، گھر کے دروازے پر ڈیوڑھی نہیں بنائے گا، اور چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا۔ یہ باتیں اس دور میں معاشرتی طور پر امتیاز کی علامتیں (اسٹیٹس سیمبل) سمجھی جاتی تھی۔ گویا حضرت عمرؓ نے حکمران طبقہ اور سرکاری افسران کو حکماً پابند کر دیا کہ وہ ایک عام شہری جیسی زندگی گزاریں گے۔ حتیٰ کہ انہوں نے بعض حکام کو ان حدود سے تجاوز کرنے پر سزائیں بھی دیں۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے تو وہ خود مالدار تھے اس لیے بیت المال سے وظیفہ نہیں لیتے تھے۔ ان کا شمار عرب کے مالدار ترین افراد میں ہوتا تھا لیکن انہوں نے عام لوگوں کی سی زندگی برقرار رکھی اور حکمرانی اور مالداری دونوں کے اجتماع کے باوجود عام شہریوں کے معیار زندگی سے دوری اختیار نہیں کی۔ وہ لوگوں کے درمیان عام آبادی میں رہے اور لباس و خوراک میں بھی واضح طور پر نظر آنے والا فرق پیدا نہیں ہونے دیا۔ اور یہ انہی کا واقعہ ہے کہ ایک موقع پر جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے بہت تاخیر سے مسجد نبوی میں پہنچے اور منبر پر کھڑے ہوتے ہی سب سے پہلے یہ عذر پیش کیا کہ گھر سے وقت پر چل پڑا تھا مگر راستے میں ایک گھر کے پرنالے سے کپڑوں پر چھینٹے پڑ گئے۔ واپس گھر جا کر لباس دھویا اور غسل کیا، چونکہ دوسرا جوڑا موجود نہیں تھا اس لیے اس لباس کے خشک ہونے کے انتظار میں دیر ہوگئی ہے۔

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ تو تھے ہی ’’صاحب الفقر‘‘۔ اس لیے ان کے بارے میں کسی واقعاتی شہادت کو تلاش کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔ خلفاء راشدینؓ کے طرز عمل پر ایک نظر ڈالیے اور اندازہ کیجیے کہ انہوں نے سوسائٹی کے مختلف طبقات یعنی شہریوں، مالداروں، اور حکمران طبقہ کے معیار زندگی کو ایک دائرے میں رکھنے کی شعوری کوشش کی اور اس امر کا اہتمام کیا کہ ان طبقوں کے معیار زندگی میں کوئی واضح طور پر نظر آنے والا فرق پیدا نہ ہو۔ اور یہی وہ توازن ہے جسے نظر انداز کر کے ہم نے اپنی معیشت اور معاشرت دونوں کا بیڑا غرق کر لیا ہے۔

معیار زندگی کو ایک متوازن دائرے میں پابند رکھنے کے ساتھ ساتھ تنخواہوں کا معیار بھی ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ اور خلافت راشدہ اس سلسلہ میں ہمیں یہ اصول فراہم کرتی ہے کہ جو شخص اپنی صلاحیتوں اور خدمات کو اسٹیٹ کے لیے وقف کرتا ہے اس کی تنخواہ کم سے کم اتنی ضرور ہونی چاہیے کہ وہ سوسائٹی کے دوسرے افراد کی طرح زندگی بسر کر سکے اور اس کی ضروریات اس تنخواہ سے پوری ہوتی رہیں۔ مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے، اس لیے اپنے ضروری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے محنت کش اور عام تنخواہ دار شخص کو حلال و حرام کے دائرے توڑتے ہوئے خدا جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں تب کہیں وہ مہینہ پورا کر پاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک محنت کش تنظیم کے عہدیدار کا یہ بیان توجہ طلب ہے جو اسی ’’یوم مئی‘‘ کو کسی اخبار میں نظر سے گزرا ہے کہ جس معاشرے میں ایک ادارے کا اعلیٰ ترین افسر بارہ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پاتا ہو اور اسی ادارے کے ایک معمولی ملازم کو دو ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہو، اس معاشرے میں کرپشن اور بد دیانتی کو کون روک سکتا ہے؟ یہ بات سو فیصد درست ہے اور جب تک اس تفاوت کو کم نہیں کیا جائے گا کرپشن اور بدعنوانی پر قابو پانے کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔

پھر امام ابوحنیفہؒ تو ایک اور بات کہتے ہیں، ان کا ارشاد ہے لا رضاء مع الاضطرار کہ مجبوری کی حالت میں رضا کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص مجبوری اور اضطرار کی حالت میں اپنے حق سے کم پر راضی ہو جاتا ہے تو اس کی رضا کا شرعًا کوئی اعتبار نہیں ہے اور اسے اس کا وہ حق بہرحال ملنا چاہیے جس سے وہ مجبوری کی وجہ سے دستبردار ہوگیا ہے۔ اس اصول پر اگر مزدوروں اور چھوٹے ملازمین کی ملازمت کے معاہدوں کو پرکھا جائے تو وہ سارے کنٹریکٹ مشکوک ہو جاتے ہیں جو بے روزگار لوگوں نے فاقے اور بھوک سے بچنے کے لیے مجبورًا سائن کیے ہیں۔ اور حکومت پابند ہوجاتی ہے کہ انہیں معاشرے میں ان جیسے دوسرے افراد کی طرح باعزت زندگی بسر کرنے کے لیے وہ تمام ضروریات فراہم کرے جو اس کے لیے ناگزیر ہیں۔

بجٹ کی آمد آمد ہے اور پوری قوم سانس روکے اس عذاب کی آمد کی منتظر ہے کہ خدا جانے اب کے ہم پر کون سا قہر ٹوٹے گا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے نمائندے اپنے لاؤ لشکر اور ہتھیاروں سمیت بجٹ تیار کرنے والے حکام کے سروں پر مسلط ہیں۔ ٹیکس بڑھانے، نرخوں میں اضافہ کرنے، کرنسی کی قیمت کم کرنے، ملازمین کی چھانٹی کرنے، سرکاری ادارے بیچ دینے، اور قومی فوج کی ڈاؤن سائزنگ کرنے کی تجاویز تلوار کی طرح قوم کے سروں پر لٹک رہی ہیں۔ ان حالات میں کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم اپنا قبلہ درست کر لیں اور ’’پالیسی راہ نمائی‘‘ کے لیے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی دریوزہ گری کرنے کی بجائے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مایہ ناز خلفاء راشدینؓ کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟

ہمارے خیال میں اگر ہم مندرجہ ذیل تین اصولوں کو اپنا کر اس سمت اپنی قومی معیشت کا رخ موڑ لیں تو معاشی خود کفالت اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ عالمی اداروں اور استعماری قوتوں کی معاشی غلامی سے نجات حاصل کرنے میں بھی چند برسوں سے زیادہ کا وقت درکار نہیں ہوگا۔

  1. تعیش کے اسباب اور مظاہر پر قانوناً پابندی لگا کر معیار زندگی میں زیادہ سے زیادہ یکسانیت پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
  2. تنخواہوں اور معاوضوں کا تعین معاشرہ میں باعزت زندگی کی معروف ضروریات کی بنیاد پر کرنے کا اصول تسلیم کیا جائے۔
  3. تنخواہوں اور معاوضوں میں خوفناک تفاوت کو اگر کلیتًا ختم نہیں کیا جا سکتا تو اسے کم کر کے زیادہ سے زیادہ ایک اور پانچ کے تناسب پر لایا جائے۔

اگر ہم اس بجٹ میں اس سمت اپنا رخ موڑ سکیں تو یہ محنت کشوں کے لیے ’’یوم مئی‘‘ کا حسین تحفہ ہوگا اور خوشگوار مستقبل کا پیغام بھی۔

   
2016ء سے
Flag Counter