بعد الحمد و الصلوٰۃ! آج کل ہمارا عام طور پر موضوع سود ہی ہوتا ہے کیونکہ سودی نظام کے خلاف مہم جاری ہے اور مختلف طبقات تاجر برادری ، علماء کرام اور دینی حلقے اس حوالے سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آج میں اس پہلو پر گزارش کرنا چاہوں گا کہ وطنِ عزیز کو سودی نظام سے نجات دلانے کی جدوجہد میں علماء کرام کو کیا کرنا چاہیے؟ علماء کرام خواہ کسی بھی مکتبہ فکر کے ہوں، مسجد، جمعہ، وعظ و خطابت اور تدریس سے جو تعلق رکھتے ہیں، انہیں دو تین کام تو کرنے ہی چاہئیں:
- سود کی حرمت کا بیان کہ سود حرام ہے اور اس کی نحوست واضح کرنا۔ جمعہ کا خطبہ، عوامی درس، کتاب کے سبق اور سکول کے لیکچر، جہاں موقع ملے سود کی نحوست اور اس کے نقصانات کو علماء کرام اپنے اپنے دائرے میں موقع بموقع واضح کرتے رہیں۔ یہ ہماری سب سے پہلی ذمہ داری ہے۔
- دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ متعلقہ طبقات سے رابطہ قائم کریں۔ تاجروں، بینکاروں، بزنس کمیونٹی اور وکیلوں کو اس مہم کے لیے تیار کریں ، انہیں بریف کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھائیں۔ مختلف مکاتب ِفکر کے علماء کرام، وکلاء و تاجر حضرات اور دیگر طبقات جس طرح ختم ِنبوت کے مسئلہ میں آپس میں تعاون کرتے ہیں یہ بھی اسی نوعیت کا اجتماعی مسئلہ ہے، اس کے لیے بھی اسی طرح کا ماحول بنانا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آپس میں متحد ہو کر کام کریں۔
- جبکہ ہماری تیسری ذمہ داری یہ ہے جس پر آج میں کچھ تفصیل سے بات کروں گا کہ سودی نظام کے حوالے سے جو شکوک و شبہات سوشل میڈیا، اخبارات و رسائل اور عام مجالس میں اٹھائے جا رہے ہیں، علماء کرام انہیں نظر انداز نہ کریں بلکہ موضوعِ بحث بنائیں، سوالات کو پہلے سمجھیں، ان کے جوابات تلاش کریں اور پھر لوگوں تک پہنچائیں۔ کیونکہ یکطرفہ سوالات اور شکوک و شبہات پھیلتے جائیں اور ان کا جواب نہ ہو تو لوگ اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں محنت کرنا پڑے گی اور پہلے خود معاملہ سمجھنا پڑے گا کیونکہ اگر میں خود شکوک و شبہات کو نہیں سمجھوں گا تو دوسروں کو کیا سمجھاؤں گا۔ شکوک و شبہات کا نوٹس لینا، ان کا جواب دینا، لوگوں کو مطمئن کرنا، ان کی تسلی کرانا، یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے جو شروع سے چلی آرہی ہے۔
سود ہر آسمانی شریعت میں حرام رہا ہے۔ یہودیت اور عیسائیت جنہیں ہم اہلِ کتاب کہتے ہیں، یہ تو ریکارڈ پر ہیں، ان کے علاوہ بھی جتنے آسمانی مذاہب ہیں سب میں سود حرام ہے۔ قرآن تو سود کو حرام کہتا ہی ہے، بائبل ، تورات، انجیل اور ہندوؤں کی وید بھی کہتی ہے کہ سود کا لین دین جائز نہیں ہے۔ پاکستان کی چھپی ہوئی بائبل میں وہ آیات موجود ہیں جن میں سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ پرانی کتابیں اگرچہ تحریف شدہ ہیں لیکن ان میں بہت سے احکام موجود ہیں جن کے مطابق تمام آسمانی شریعتوں میں سود حرام رہا ہے۔
سود کے حوالے سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جن شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا ان کا ذکر قرآن کریم نے بھی کیا ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی آیا ہے۔ اور جناب نبی کریمؐ نے سود کے حرام ہونے کا صرف اعلان نہیں فرمایا بلکہ عملاً سود کو ختم فرمایا، جب حضورؐ دنیا سے روپوش ہوئے تو عرب دنیا میں سود باقی نہیں رہا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں سود کا عام رواج تھا اور لوگوں کا کاروبار اسی حوالے سے ہوتا تھا تو جب آپؐ نے اس کی حرمت کا اعلان فرمایا تو اشکالات بھی ہوئے:
- سب سے پہلا اشکال جس کا ذکر قرآن مجید نے کیا ہے یہ ہوا کہ ’’انما البیع مثل الربوٰ‘‘۔ لوگوں نے کہا کہ سود بھی تو تجارت کی قسم ہے، وہ بھی لین دین ہے اور یہ بھی لین دین ہے، وہ بھی نفع کے ساتھ ہے اور یہ بھی نفع کے ساتھ ہے، تو ان میں فرق کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس اشکال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ احل اللہ البیع وحرم الربٰو‘‘ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کہا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ تجارت کے نتائج اور ہیں، سود کے نتائج اور ہیں۔ اس پر آج بہت بحث ہو چکی ہے، آپ ریسرچ کریں، دنیا کی جدید معیشت کے ماہرین یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ تجارت سے رقم پھیلتی ہے اور سود سے سمٹتی ہے، یہ آج کی تحقیق کا بنیادی نکتہ ہے اور دنیا کے بڑے مسائل میں سے ہے کہ سود نے معیشت کو جس ٹریک پر ڈال دیا ہے اسے واپس کیسے لائیں؟
ظاہری منظر یہ ہے کہ سود پر رقم دیں گے تو رقم میں اضافہ ہوگا، اور زکوٰۃ دیں گے تو رقم میں کمی ہوگی۔ گنتی کا ماحول تو یہی ہے کہ سود پر ایک سو روپیہ دیں تو واپس ایک سو دس یا ایک سو پندرہ آئیں گے، جبکہ زکوٰۃ دیں تو سو میں سے ساڑھے ستانوے رہ جاتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کی نفی کی ہے ’’ما اٰتیتم من ربا لیربو فی اموال الناس فلا یربوا عند اللہ وما اٰتیتم من زکوٰۃ تریدون وجہ اللہ فاولئک ھم المضعفون‘‘۔ جو تم سود پر رقم دیتے ہو کہ مال میں اضافہ ہو تو اس میں اللہ کے ہاں اضافہ نہیں ہوتا، اور جو تم زکوٰۃ دے کر سمجھتے ہو کہ مال کم ہوگیا ہے ’’فاولئک ھم المضعفون‘‘ تو زکوٰۃ سے رقم کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے۔ قرآن مجید نے دراصل اس کےاجتماعی نتائج کو ذکر کیا ہے اور اس ظاہری منظر کو رد کیا ہے کہ زکوٰۃ سے رقم کم ہوتی اور سود سے بڑھتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کی اس بات کو لوگوں پر واضح کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
البتہ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل چیز گنتی ہوتی ہے یا قدر (value) ہوتی ہے؟ میں اس کی ایک مثال دوں گا کہ جی ٹی روڈ گکھڑ پر ۱۹۶۰ء میں ہم نے گھر بنایا تھا اور ایک سو روپیہ فی مرلہ زمین خریدی تھی۔ میں نے خود دس مرلے کی رجسٹری کرائی تھی کہ تحصیلدار کے سامنے گیارہ سو ستر روپے رجسٹری کے خرچے سمیت پیش کیے تھے۔ اب وہاں گکھڑ میں جی ٹی روڈ پر ایک مرلہ زمین کی قیمت ایک کروڑ روپیہ بتائی جاتی ہے۔ گنتی تو بڑھی ہے لیکن ویلیو اس اعتبار سے وہی ہے کہ زمین تو ایک مرلہ ہی ہے، ایسا نہیں کہ ایک مرلے کی زمین پھیل کر دس مرلے ہو جائے۔ ایک بات اور سمجھ لیں کہ گنتی آپ کے پاس ہے لیکن قدر آپ کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ مثال کے طور پر میری جیب میں جو پانچ ہزار روپے کا نوٹ ہے وہ میرا ہے لیکن اس کی ویلیو میرے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس کی قدر، اس کی قوتِ خرید بڑھ کر پانچ سے سات ہزار بھی ہو سکتی ہے اور کم ہو کر تین ہزار بھی۔ اس کی ویلیو مالیاتی اداروں کے اقدامات سے اور معاشی اتار چڑھاؤ سے طے ہوتی ہے۔ تو آج کی معیشت کے ان مسائل پر بحث کس نے کرنی ہے؟ فرشتوں نے تو نہیں کرنی، یہ بھی ہم علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان معاملات کو پہلے خود سمجھیں اور پھر لوگوں کو سمجھائیں۔
- طائف کے بنو ثقیف کے سرداروں کا وفد فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو چونکہ طائف فتح نہیں ہو سکا تھا اور طائف والے خود اسلام قبول کرنے گئے تھے تو یہ گھمنڈ ذہن میں تھا کہ ہم خود جا رہے ہیں اس لیے اسلام اپنی شرطوں پر قبول کریں گے، لیکن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ شرطیں مسترد فرما دی تھیں۔ سود کے جواز میں یہ دلیل کہ دوسری قوموں کے ساتھ ہماری تجارت سود کی بنیاد پر چلتی ہے اس لیے ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے، یہ دلیل انہوں نے بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی تھی لیکن آپؐ نے اسے رد فرمادیا تھا۔ علماء کرام سیرت کی کسی متوسط کتاب میں ان شرائط کو ضرور پڑھیں۔ ساری کتاب تو ہم نے پڑھنی نہیں ہوتی کیونکہ ہمارا ذوق یہ بن گیا ہے کہ کتابیں سجانے کے لیے رکھتے ہیں، پڑھتے نہیں ہیں۔
اس پر ایک لطیفہ میں نے پڑھا تھا، سنا دیتا ہوں کہ ہمارا کتاب کا ذوق کیا ہے؟ ایک بہت مالدار خاتون نے کوٹھی بنوائی ۔ کسی نے مشورہ دیا کہ امیر لوگوں کی کوٹھی میں لائبریری بھی ہونی چاہیے، تو اس نے مختلف الماریاں بنوائیں ، انہیں طرح طرح کے رنگ کروائے اور پھر کتابیں لینے کے لیے بڑے کتب خانے میں چلی گئی۔ گھر سے الماریاں فیتے سے ماپ کر گئی تھی کہ اتنے انچ نیلے رنگ کی ، اتنے انچ کالے رنگ کی اور اتنے انچ سبز رنگ کی کتابیں چاہئیں، اور وہ لا کر اس نے ان الماریوں میں سجا دیں۔ آج ہمارا کتاب کا ذوق یہی ہے کہ ہم نے مطالعہ چھوڑ دیا ہے اور کتاب بھی ہمارے ہاں سامانِ نمائش کر رہ بن گیا ہے۔ میں علماء کرام سے یہ عرض کر رہا ہوں کہ ان مسائل کو بیان کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
- آج ایک یہ بھی عمومی اشکال ہوتا ہے کہ سود مسلمانوں کے لیے حرام ہے کیونکہ قرآن کے احکام مسلمانوں کے لیے ہیں، تو غیر مسلم جو سود کا کاروبار کرتے ہیں اس سے آپ کو کیا مسئلہ ہے، ان کے ہاں تو سود حرام نہیں ہے۔ اس بارے میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کیا ہے؟ آپ معاہدہ نجران پڑھیں ۔ نجران کے عیسائی معاہدے کے تحت اسلامی ریاست میں شامل ہوئے تھے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت تسلیم کی تھی تو ان کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا، جس میں لکھا گیا تھا کہ تم غیر مسلم بھی ہماری ریاست میں سود کا کاروبار نہیں کرو گے۔ ایک جملہ یہ تھا کہ اگر تم میں سے کسی ذمہ دار شخص نے سود کا کاروبار کیا تو یہ معاہدہ ختم ہو جائے گا۔
میری علماء کرام سے گزارش ہے کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ایک تو ہم سود کا حرام اور منحوس ہونا لوگوں پر واضح کرتے رہیں، دوسرا اس کی محنت کے لیے مختلف طبقات کو تیار کریں اور انہیں قریب کرتے رہیں، اور تیسری بات کہ مختلف حوالوں سے جو شکوک و شبہات سامنے آرہے ہیں، انہیں پہلے خود سمجھیں اور ان کے جوابات تیار کریں، پھر بیان کریں اور لوگوں کو سمجھائیں، اس سے یہ جدوجہد آگے بڑھے گی، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائیں، آمین!