نوجوان علماء کی مثبت سرگرمیاں

   
۸ اپریل ۲۰۱۵ء

کچھ عرصہ سے نوجوان علماء کی سرگرمیوں میں ایک خوشگوار تبدیلی سامنے آرہی ہے جس کا ذکر وقتاً فوقتاً اس کالم میں کرتا رہتا ہوں اور خاص طور پر میرے لیے اس میں اطمینان کے دو تین پہلو نمایاں ہیں: ایک یہ کہ دینی مدارس کے نئے فضلاء اور نوجوان علماء کرام میں کچھ نہ کچھ کرتے رہنے اور فارغ نہ بیٹھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جو ایک اچھی علامت ہے۔ دوسرا یہ کہ سرگرمیوں کا رخ امت کے اجتماعی مسائل و ضروریات کی طرف مڑ رہا ہے جو اس سے بھی اچھی بات ہے۔ جبکہ تیسرا پہلو یہ ہے کہ باہمی رابطہ و مشاورت اور اشتراک و تعاون کے ساتھ دینی جدوجہد کو منظم کرنے کے ذوق میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بہت سے شہروں میں دیکھا گیا ہے کہ قومی یا علاقائی سطح پر موجود جماعتی اور گروہی تقسیم کو اسی درجہ میں رکھتے ہوئے مقامی طور پر باہمی رابطہ و مفاہمت کو ترجیح دی جا رہی ہے اور درجنوں مقامات پر اس قسم کی سرگرمیاں میرے علم و مشاہدہ میں ہیں جن میں سے ایک دو کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

۴ اپریل کو ڈیرہ غازی خان جانے کا اتفاق ہوا جس کی دعوت ہمارے ایک عزیز شاگرد مولانا حسنین اعجاز کی طرف سے تھی۔ ان کے ساتھ نوجوان علماء کا ایک گروپ ہے جس نے ڈیرہ غازی خان کی مختلف مساجد میں باقاعدگی کے ساتھ درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور وہ اس میں مسلسل پیشرفت کر رہے ہیں۔ ان کا نظم پچاس کے لگ بھگ مساجد میں ترتیب کے ساتھ کام میں مصروف ہے۔ اسی حوالہ سے انہوں نے ایک مرکزی درس کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں راقم الحروف نے درس قرآن کریم کی اہمیت و ضرورت اور عوامی سطح پر فہم قرآن کریم کے فروغ کے تقاضوں پر تفصیلی گفتگو کی۔ اس کے علاوہ شہر کے سرکردہ علماء کرام کے ساتھ ایک نشست میں آج کی علمی، فکری اور فقہی ضروریات پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملا اور ’’تحریک انسداد سود‘‘ کے سلسلہ میں ایک سیمینار سے بھی خطاب کیا۔ انسداد سود کے بارے میں اس سے قبل بھی مختلف شہروں میں علماء کرام کے اجتماعات سے خطاب کا موقع مل چکا ہے اور اس حوالہ سے ایک بات کم و بیش ہر جگہ محسوس کی جا رہی ہے کہ سود کے خاتمہ کے لیے پاکستان میں اب تک ہونے والی جدوجہد سے علماء کرام کی اکثریت بے خبر ہے۔ اور ان کے لیے یہ معلومات بالکل اجنبی ہوتی ہیں کہ پاکستان میں سودی نظام کے خلاف دینی حلقوں کی محنت کن مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچی ہے اور کون کون سے حلقے اس کے لیے مصروف عمل ہیں۔

ڈیرہ غازی خان کے بعد ملتان حاضری ہوئی اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر ایک نشست میں حاضری کی سعادت حاصل کی۔ مولانا عبد الجبار طاہر ہمارے فاضل دوست ہیں جو جامعہ قادریہ ملتان کے فضلاء میں سے ہیں۔ کراچی کے ملیر کینٹ میں خطابت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ لیکن ان کی سرگرمیوں کی بڑی جولانگاہ ملتان ہی ہے۔ انہیں حضرت مولانا محمد نواز کی بھرپور سرپرستی اور بہت سے مخلص دوستوں کا تعاون حاصل ہے۔ ادارہ ’’الکتاب‘‘ کے عنوان کے ساتھ ایک فورم کے تحت دعوت و تعلیم کا سلسلہ مختلف شعبوں میں جاری رکھے ہوئے ہیں اور کم و بیش دس سال سے کسی اہم موضوع پر سالانہ سیرت کانفرنس کا اہتمام اس فورم کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس سال یہ کانفرنس ۵ اپریل کو عشاء کی نماز کے بعد ایک وسیع ہال میں ہوئی جس کا موضوع تھا ’’تعلیم اور معیشت سیرت نبویؐ کی روشنی میں‘‘۔

مولانا محمد نواز کی صدارت میں انعقاد پذیر اس کانفرنس میں پروفیسر ڈاکٹر مفتی سعید الرحمن نے اس نکتہ پر روشنی ڈالی کہ ’’معیشت‘‘ بھی دین کا ایک اہم شعبہ ہے اور اسے دنیا داری قرار دے کر دین سے الگ سمجھ لینے کا تصور درست نہیں ہے۔ انہوں نے اس امر کی وضاحت کی کہ دین کی جامعیت اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و تعلیمات کا انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہونا ہی دین کا صحیح مفہوم ہے اور علماء کرام کو اس پر خاص توجہ دینی چاہیے۔

مولانا مفتی محمد زاہد آف فیصل آباد نے معاشی حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات کی طرف توجہ دلائی اور اس بات پر زور دیا کہ تجارت و معیشت اور زندگی کے دیگر معاملات میں سیرت نبویؐ سے راہ نمائی حاصل کر کے ہی ہم اپنے مسائل اور مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں۔

راقم الحروف نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے اس پہلو کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا کہ آپؐ نے کس طرح بیت المال قائم کر کے ایک ویلفیئر اسٹیٹ کی بنیاد رکھی اور حکومت و ریاست کو سوسائٹی کے ضرورت مند، معذور اور بے سہارا افراد کی کفالت کا ذمہ دار قرار دے کر دنیا کے سامنے ایک عملی نمونہ پیش کیا۔

ڈیرہ غازی خان اور ملتان کے اس سفر میں نوجوان علماء کرام کی سرگرمیاں اور با مقصد دینی اجتماعات کا یہ ماحول دیکھ کر دلی خوشی ہوئی ہے۔ خدا کرے کہ یہ رجحان ملک بھر میں عام ہو اور ہم امت مسلمہ کی اجتماعی ضروریات و مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے دینی جدوجہد کو مثبت، با مقصد اور مفید مستقبل فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter