نسبت کی اہمیت و برکات اور اس کے تقاضے

   
تاریخ: 
۱۱ اکتوبر ۲۰۲۰ء

(جامع مسجد سیدنا صدیق اکبرؓ فیروز پور روڈ لاہور کے زیر اہتمام ۱۱ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو منعقد ہونے والے روحانی اجتماع اور عالمی انجمن خدام الدین لاہور کے سالانہ اجتماع منعقدہ ۲۴ تا دسمبر ۲۰۲۰ء سے مولانا راشدی کے بیانات کے مجموعہ کو یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)

بعد الحمد و الصلوٰۃ۔ نسبت کے حوالے سے دو چار باتیں عرض کرنا چاہوں گا کہ نسبت کیا چیز ہے؟ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں مختلف جگہوں پر نسبت کا اور نسبت کی برکات کا ذکر کیا ہے ۔ ان میں سے دو حوالے پیش کروں گا۔

اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کا ذکر کیا: ’’الذین یحملون العرش و من حولہ یسبحون بحمد ربہم ویومنون بہ ویستغفرون للذین اٰمنوا، ربنا وسعت کل شیء رحمۃ وعلمًا فاغفر للذین تابوا واتبعوا سبیلک وقھم عذاب الجحیم‘‘۔ جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے گرد ہیں وہ اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہتے ہیں، اس پر ایمان لاتے ہیں اور ایمانداروں کے لیے بخشش مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب تیری رحمت اور تیرا علم سب پر حاوی ہے پھر جن لوگوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے پر چلتے ہیں انہیں بخش دے اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ یہ فرشتے کام تو اپنا کرتے ہیں مگر دعا مسلمانوں کے لیے کرتے ہیں۔ ڈیوٹی ان کی عرش کو سنبھالنا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ اللہ کی حمد کرتے رہتے ہیں اور استغفار کرتے رہتے ہیں۔ استغفار کس کے لیے کرتے ہیں؟ مسلمانوں کے لیے۔ ہم گناہگاروں کے لیے دعا کرتے ہیں۔ وہ دعا بھی اللہ تعالی نے ذکر کی ہے کہ اللہ آپ کی رحمت اور علم ہر چیز پر وسیع ہے اللہ ان کو معاف کر دے۔

اور ’’ربنا وادخلھم جنات عدن التی وعدتھم ومن صلح من اٰبآئھم وازواجھم وذریاتھم انک انت العزیز الحکیم‘‘جس جنت کا آپ نے ان سے وعدہ کیا ہے اس میں داخل کر دے اور ان کی برکت سے ان کے ماں باپ بیوی بچوں کو بھی جنت میں داخل کر دے۔ یہاں نسبت کی برکت کا ذکر ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ’’الحقنابھم ذریتھم ومآ التناھم من عملھم من شیء‘‘ اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی (جنت) میں ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے، اس میں فرمایا کہ ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ مقام تک پہنچا دیں گے۔ اگر بڑے بزرگ کسی اونچے مقام میں ہیں اور ان کے ماننے والے نیچے والے گریڈ میں ہیں تو اللہ تعالیٰ دونوں کو اکٹھا فرما دیں گے، اوپر والوں کے گریڈ میں کمی بھی نہیں ہو گی۔

مگر اس کے ساتھ نسبت کے کچھ تقاضے بھی بیان کیے گئے ہیں۔ بزرگوں کے ساتھ نسبت ہمارے ہاں بہت اعزاز، برکت اور اعتماد کی بات سمجھی جاتی ہے اور اس کا بڑے اہتمام کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔ فی الواقع یہ اعتماد اور اعزاز کی بات ہے اور اس کی بے حد برکات ہوتی ہیں، لیکن یہ نسبت دو دھاری تلوار ہے جو دونوں طرف چلتی ہے۔ اس کے فائدے اور برکات بہت زیادہ ہیں لیکن اگر اس کے تقاضے پورے نہ ہو سکیں تو دوسری طرف بات چلی جاتی ہے۔ دنیا میں محبت، رازداری، اعتماد اور بے تکلفی کے حوالہ سے سب سے بڑی نسبت میاں بیوی کی ہوتی ہے اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کے دونوں پہلوؤں کا ذکر فرمایا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا تذکرہ کیا جو مسلمانوں کی مائیں ہیں اور امت کی بزرگ ترین خواتین ہیں، اسی طرح اصلاح، تزکیہ اور طہارت کے لیے ضروری اعمال کا ذکر فرمایا ہے، اور یہ دونوں سورۃ الاحزاب میں بیان ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ کی مختلف آیات کریمہ کا خلاصہ اپنی ترتیب اور اسلوب کے ساتھ عرض کرنا چاہ رہا ہوں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے مطابق چلو گی تو تمہیں دوہرا اجر ملے گا، لیکن اگر کسی غلط حرکت کا ارتکاب کرو گی تو عذاب بھی ڈبل ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھی نسبت بڑی نعمت ہے، اگر اس کے تقاضے پورے ہوں تو دوہرے اجر کا باعث بن جاتی ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو یہی نسبت دوہرے عذاب کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

اسی طرح فرمایا ’’لستن کأحد من النسآء ان اتقیتن‘‘ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو مگر اس وقت جب تم تقویٰ اختیار کرو۔ یعنی نسبت کی برکات اور فوائد کے لیے تقویٰ شرط ہے، اگر ایمان اور تقویٰ نہ ہو تو یہ نسبت حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور بیٹے، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کے کام بھی نہیں آتی۔ گویا نسبت کا اعزاز اور برکات دونوں ایمان اور تقویٰ کے ساتھ مشروط ہیں۔ یہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ماحول کی بات بیان کی گئی ہے تو وہاں سے ہٹ کر خالی نسبت کیسے کام کر سکتی ہے؟

اس حوالہ سے ایک اور حساس بات اور بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گھریلو زندگی کے لیے بہتر سہولتوں کا تقاضہ کیا تھا، جو ناجائز نہیں تھا اور بظاہر ان کا حق بھی تھا، لیکن اس سے انکار کر دیا گیا اور کہا گیا کہ رسول اللہ کے گھر میں جس حالت میں ہو اسی طرح رہنا ہوگا اور اگر اس سے زیادہ کا تقاضہ ہے تو وہ سہولتیں اس گھر میں نہیں ملیں گی، اس کے لیے آپؐ سے علیحدگی اختیار کرنا ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نسبت سے متعلقہ معاملات میں صرف جواز عدم جواز کی بات نہیں ہوتی بلکہ اس ماحول کے تقاضوں کا لحاظ بھی ضروری ہوتا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا ماحول جس فقر و فاقہ کا عادی تھا اس کے مطابق رہنا ہی وہاں کا تقاضہ تھا، اس کی آسان تعبیر کے لیے مثال دے رہا ہوں کہ گو یا یہ کہا جا رہا ہے کہ حضورؐ کے گھر میں رہنا ہے تو وہاں کی ’’ایس او پیز‘‘ کی پابندی کرنا ہوگی ورنہ اس گھر میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔

اسی طرح روحانی نسبتوں کی بات ہے کہ ہر سلسلہ کا اپنا ماحول اور دائرہ ہوتا ہے۔ اس سلسلہ کے ساتھ منسلک ہونے والوں کے لیے وہاں کے ’’ایس او پیز‘‘ یعنی قواعد و ضوابط کے دائرے میں رضا ضروری ہے۔ دوسرے کسی سلسلہ کے قواعد و ضوابط ناجائز اور غیر شرعی نہیں ہوتے، لیکن جس سلسلہ سے تعلق ہے وہاں کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے، اس لیے جس بزرگ کی نسبت سے تعارف اور برکات حاصل کرنا مقصود ہے ان کے ماحول کو بھی قبول کرنا ہو گا ورنہ نسبت کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔

یہ گزارشات تو نسبت کے حوالہ سے ہیں کہ

  1. نسبت سے فائدہ اور برکات حاصل کرنے کے لیے ایمان اور تقویٰ شرط ہے۔
  2. نسبت سے جہاں ثواب ڈبل ہوتا ہے وہاں اس کی ناقدری سے عذاب بھی ڈبل ہو جاتا ہے۔
  3. جس بزرگ سے نسبت ہے اس کے ماحول اور قواعد و ضوابط کی پاسداری بھی ضروری ہوتی ہے۔
  4. اس کے بعد تزکیہ و طہارت کے ضروری اعمال کی طرف توجہ فرما لیں جو انہیں آیات میں مذکور ہیں اور نبی کریمؐ کی ازواج مطہرات سے کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے خاندان کو ’’یطھرکم تطھیرا‘‘ پاکیزگی کا ماحول دینا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ جن اعمال کا ذکر کیا گیا ہے ان پر ایک نظر ڈال لیں:

  • ’’فلا تخضعن بالقول‘‘ اپنی آواز میں ایسی لچک نہ پیدا کریں جس سے بیمار دل والے شخص کے دل میں طمع پیدا ہو۔
  • ’’قلن قولاً معروفا‘‘ آواز اور لہجے کو کنٹرول رکھتے ہوئے بھی گفتگو سلیقہ اور معروف طریقہ سے کریں۔
  • ’’قرن فی بیوتکن‘‘ اپنے گھروں میں رہیں اور بلا ضرورت نہ گھومیں پھریں۔
  • ’’لا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ‘‘ جاہلیت اولیٰ کے ماحول کی طرح اپنی زینت کی نمائش اور اظہار نہ کریں۔
  • ’’اقمن الصلوٰۃ‘‘ نماز کی پابندی کریں۔
  • ’’اٰتین الزکوٰۃ‘‘ زکوٰۃ ادا کرتی رہیں۔
  • ’’اطعن اللّٰہ ورسولہ‘‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی اطاعت کریں۔
  • ’’واذکرن ما یتلیٰ فی بیوتکن من آیات اللّٰہ والحکمۃ‘‘ تمہارے گھروں میں اللہ تعالیٰ کی جو آیات تلاوت کی جاتی ہیں ان کو یاد کرو اور یاد رکھو، اور اسی طرح حکمت بھی یاد کرو اور یاد رکھو۔ قرآن کریم میں عام طور پر جہاں حکمت کا لفظ قرآن کریم کے ساتھ بیان ہوا ہے مفسرین نے اس سے مراد سنت لی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث اور قرآن و سنت کو یاد بھی رکھیں اور ان کا تذکرہ بھی کرتی رہیں۔

یہ اعمال وہ ہیں جن کا ذکر ’’ویطھرکم تطھیرا‘‘ کے ساتھ کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ طہارت حاصل کرنے اور تزکیہ و اصلاح سے ہمکنار ہونے کے لیے ان اعمال کا اہتمام ضروری ہے۔ احسان و سلوک کے ماحول میں نسبت اور تزکیہ و طہارت دو بڑے تقاضے ہیں جن کے لیے محنت کی جاتی ہے اور ان سے فوائد و برکات کے حصول کا اہتمام کیا جاتا ہے جو ضروری ہے، لیکن اس کے لیے جو طریقِ کار اور اعمال و قواعد قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں ان کا ایک ہلکا سا خاکہ میں نے آپ کے سامنے مختصراً بیان کیا ہے۔ تفصیلات کا موقع نہیں ہے اس لیے ان گزراشات پر اکتفا کرتے ہوئے سب دوستوں سے اس دعا کا خواستگار ہوں کہ ان میں سے جو بات صحیح ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter