اردن کے فرمانروا شاہ عبد اللہ نے کہا ہے کہ ’’میں اس تعصب کو مسترد کرتا ہوں کہ اسرائیلی بچے کا خون فلسطینی بچے کے خون سے مقدس اور قیمتی ہوتا ہے‘‘۔ شاہ اردن کو یہ بات مشرق وسطیٰ میں فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان جاری خونی کشمکش کے بارے میں امریکی طرز عمل کی صاف طور پر نظر آنے والی ترجیحات کے حوالے سے کہنا پڑی جس میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی فوج کشی کو ’’دفاع کا حق‘‘ اور مظلوم فلسطینیوں کی طرف سے ردعمل اور جوابی کاروائیوں کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیا جا رہا ہے، اور فلسطینیوں کو ان کے اپنے ہی وطن میں عزت، وقار اور امن و امان کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
امریکہ سے یہ شکایت نئی نہیں ہے بلکہ جب سے صہیونی طالع آزماؤں نے اپنے چہروں پر امریکی ماسک چڑھا کر دنیا کا کنٹرول حاصل کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے تب سے امریکہ کا طرز عمل یہی چلا آ رہا ہے۔ کسی جنگ میں چند امریکیوں کی لاشیں پورے امریکہ کو ہلا دینے کے لیے کافی ہوتی ہیں، لیکن دوسری طرف مخالفین کی ہزاروں لاشوں کے جسموں سے خون ٹپکتا دیکھ کر بھی امریکی حکمرانوں کے چہروں کی کیفیات میں کوئی منفی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ ابھی گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں چرچ کے افسوسناک سانحہ میں زخمی ہونے والے امریکیوں کی عیادت کے لیے پاکستان میں امریکی سفیر وینڈی چیمبر لین ہسپتال گئیں تو وہاں کی ایک فوٹو میں وہ غیظ و غضب کے جو تاثرات چہرے پر ابھارے کھڑی نظر آرہی ہیں اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا بس چلے تو پورے پاکستان کو کچا چبا ڈالیں۔ جبکہ انہی کے وزیر دفاع رمز فیلڈ اپنی پریس کانفرنسوں کے دوران افغانستان میں افغانیوں اور مشرق وسطٰی میں عربوں کے قتل عام کا اس انداز سے تذکرہ کرتے ہیں جیسے امریکی بمبار طیارے انسانوں کی لاشوں کے چیتھڑے فضا میں نہیں اڑا رہے بلکہ منچلے شکاریوں کا کوئی گروہ جنگل میں جانوروں کے شکار میں مصروف ہے اور ان کے جسموں کو تڑپتا دیکھ کر انجوائے کر رہا ہے۔ جبکہ فلسطین میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے:
- برطانیہ نے فلسطین پر زبردستی قبضہ کر کے اس کا بٹوارہ کیا اور یہودیوں کو دنیا بھر سے بلا کر اس کے ایک حصے پر ان کی ریاست قائم کروائی۔
- اس کے بعد اسرائیل کی اس ریاست کی پرورش اور تحفظ کا کام امریکہ نے سنبھال لیا، جس میں برطانیہ بھی اس کے ساتھ برابر کا شریک چلا آرہا ہے۔
- فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد دربدر کیمپوں میں دھکے کھا رہی ہے اور اس بٹوارے میں فلسطین کا جو علاقہ ان فلسطینیوں کے لیے باقی چھوڑا اس پر بھی ایک آزاد ریاست کے طور پر ان کا حق تسلیم نہیں کیا جا رہا۔
- اسرائیل طاقت کے زور پر فلسطینیوں کو اپنا محکوم اور زیردست رکھنا چاہتا ہے جبکہ فلسطینی عوام ایک آزاد اور خود مختار قوم کے طور پر زندہ رہنے کا جائز حق مانگ رہے ہیں۔
- اسرائیل کے پاس ایٹم بم سمیت ہر قسم کے جدید ہتھیار موجود ہیں جبکہ فلسطینی عوام کے پاس غلیلوں، چھوٹے ہتھیاروں اور فدائی حملوں کے لیے اپنی معصوم جانوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
مگر امریکہ اور اس کے حواریوں کا معیار اور پیمانہ یہ ہے کہ اسرائیلی طیاروں کی بمباری اور توپ خانے کی گولہ باری سے فلسطینیوں کی بستیاں کھنڈرات میں تبدیل ہوتی ہیں اور ان کے نوجوان اور بچے شہید ہوتے ہیں تو اسے یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع اور تحفظ کا حق حاصل ہے۔ اور فلسطینیوں کی غلیلوں، دستی بمبوں اور فدائی حملوں سے چند اسرائیلی مارے جاتے ہیں تو اسے دہشت گردی قرار دے کر فلسطینی قیادت کو دھمکایا جاتا ہے کہ جب تک وہ اس دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم نہیں کریں گے اس وقت تک مذاکرات میں کوئی عملی پیشرفت نہیں ہوگی۔ اسرائیل کا جب جی چاہتا ہے ٹینک لے کر کسی فلسطینی بستی پر چڑھ دوڑتا ہے اور اس کے طیارے آسمان سے آگ برسانا شروع کر دیتے ہیں۔ مگر فلسطینیوں کا یہ حق بھی تسلیم نہیں کیا جا رہا کہ وہ اس سفاکی، درندگی اور ظلم کے خلاف کسی ردعمل کا اظہار کریں اور حملہ آور درندوں کے خلاف کوئی ہلکی پھلکی کاروائی ہی کر ڈالیں۔
ہم اس سے قبل ان کالموں میں عرض کر چکے ہیں کہ اس تعصب کے پیچھے دراصل یہودیوں کا نسلی بالادستی اور برتری کا جنون کار فرما ہے۔ اور وہ اب نہیں بلکہ ہزاروں سال سے خود کو ایک برتر نسل سمجھتے ہیں جس کے اظہار کے لیے باقی انسانوں کا خون ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہودیت ایک نسلی مذہب ہے اور اس کی بنیاد پر قائم ہونے والی اسرائیلی ریاست بھی خالصتاً ایک نسلی ریاست ہے۔ امریکہ کا المیہ یہ ہے کہ اس کی سیاست و معیشت پر نسل پرست یہودیوں کا قبضہ ہے جنہوں نے امریکہ کی سیاسی قوت کے سرچشموں اور معاشی وسائل کو پوری طرح اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ اور یہ بات اب کوئی صیغہ راز کی بات نہیں بلکہ درجنوں امریکی دانشور کھلے بندوں اس کا اظہار کر چکے ہیں اور خود امریکہ کے اندر اس صورتحال کے خلاف احتجاج و اضطراب کی لہر موجود ہے۔ لیکن صہیونیوں کے قبضے سے امریکہ کی قومی پالیسیوں اور ریاستی ڈھانچے کو آزاد کرانے کی کوئی راہ انہیں سجھائی نہیں دے رہی۔
صہیونیوں نے امریکہ اور یورپ کے صرف معاشی وسائل اور سیاسی قوت کے سرچشموں پر قبضہ نہیں کیا بلکہ مذہب کے ساتھ ان کے تعلق کو بھی بتدریج کمزور کیا ہے، اور آسمانی تعلیمات کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ پر ایسا شب خون مارا ہے کہ اکثر امریکیوں کے ہاں مذہب ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے، جبکہ یورپی عیسائیوں میں مذہب کو یہ درجہ بھی حاصل نہیں رہا۔ امریکہ اور یورپ میں یہودیوں کی اس تہذیبی اور ثقافتی یلغار اور اس میں کامیابی کے بعد وہاں کوئی ایسا جذبہ اور حس ہی سرے سے موجود نہیں ہے جو یہودی سازشوں اور سیاست و معیشت پر صہیونیوں کے تسلط کے خلاف کسی ردعمل کو ابھار سکے اور ان دونوں براعظموں کے عوام کے ذہنوں میں صہیونیوں کی غلامی سے آزادی اور اپنی پالیسیوں میں خود مختاری کی کوئی طاقت ور لہر پیدا کر سکے۔
اس لیے اگر شاہ اردن یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے احتجاج کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے حواری فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے خون کو برابر سمجھنا شروع کر دیں گے تو یہ ان کی خام خیالی اور خوش فہمی ہے۔ جب تک امریکہ اور یورپ کی سیاست و معیشت صہیونیوں کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے اس وقت تک امریکہ اور اس کے یورپی حواریوں سے کسی بھی درجہ میں انصاف کی کوئی امید رکھنا سراسر خودفریبی کے مترادف ہو گا۔
البتہ اس حوالہ سے اردن کے شاہ عبداللہ سے ڈرتے ڈرتے ایک گزارش کرنے کو جی چاہتا ہے کہ دو قوموں کے خون میں فرق روا رکھنے کے جس تعصب کا ہم امریکہ اور اس کے ساتھیوں کو طعنہ دے رہے ہیں، اس تعصب کے بت کہیں خود ہماری آستینوں میں بھی تو موجود نہیں ہیں؟ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے شاہ اردن کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جب ترکوں کی خلافت عثمانیہ کو عربوں پر غیر عربوں کی حکمرانی قرار دے کر اس کے خلاف فتوٰی بازی کا بازار گرم کرنے کے بعد بغاوت کی راہ ہموار کی گئی تھی، اور انگریز فوجوں کی مدد سے ترک سپاہیوں کا قتل عام کر کے انہیں سرزمین عرب سے نکالا گیا تھا، تو اس کے پیچھے بھی یہی تعصب کار فرما تھا۔ اور غیر عربوں پر عربوں کی برتری کے اس نسلی تعصب نے خلافت عثمانیہ کا تیاپانچہ کر کے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مرکزیت سے محروم کر دیا تھا جس کے بعد سے عالم اسلام پچاس سے زیادہ ٹکڑیوں میں بٹ کر صہیونیوں کی شکار گاہ بنا ہوا ہے۔ یہ زیادہ دیر کا قصہ نہیں بلکہ صرف پون صدی قبل کی بات ہے اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کی اس مہم کی قیادت خود شاہ عبد اللہ موصوف کے پردادا محترم نے فرمائی تھی۔ اس لیے اگر آج انہیں نسلی تعصب کی مکروہ فصل مشرق وسطیٰ میں سر اٹھائے لہلہاتی نظر آرہی ہے تو انہیں اس فصل کا بیج بونے اور اس کی آبیاری کرنے والے ہاتھوں کو بھی پہچاننا چاہیے۔
اور اگر شاہ عبد اللہ محترم زیادہ ناراض نہ ہو جائیں تو تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ان سے یہ سوال پوچھنے کو بھی جی چاہتا ہے کہ ابھی گزشتہ سال افغانستان پر امریکہ کی فوج کشی اور وحشیانہ بمباری کے دوران شاہ اردن سمیت اکثر عرب حکمرانوں نے جو یہ راگ الاپنا شروع کر دیا تھا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف امریکہ کے ساتھ ہیں لیکن کسی عرب ملک پر حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا، اس کے پیچھے کون سا فلسفہ کار فرما تھا؟ اور افغانستان اور عربوں کو الگ الگ حیثیت میں رکھنے اور دیکھنے والا تعصب کون سی نسل سے تعلق رکھتا تھا؟ بات اگر اصول اور انصاف کی ہے تو ہم عرب حکمرانوں سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آج عراق پر مجوزہ امریکی حملے کو مسترد کرنے اور امریکہ سے عراق کے خلاف الزامات کا ثبوت فراہم کرنے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ عرب حکمرانوں کے یہ مطالبات اور ان کی یہ اصول پسندی اب سے صرف چھ ماہ قبل کون سے فریزر میں منجمد پڑی تھی۔
عراق پر امریکہ کے مجوزہ حملہ کی ہم بھی مذمت کرتے ہیں اور اسے بھی اسی طرح وحشت درندگی سمجھتے ہیں جیسی وحشت و درندگی کا اظہار امریکہ نے افغانستان میں کیا ہے، لیکن ہمارے لیے عراق اور افغانستان کو الگ الگ عینکوں سے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبہ حجۃ الوداع پر ہمارا غیر متزلزل ایمان ہے جس میں رسالت مآبؐ نے عرب و عجم میں فرق کے تصور کی نفی کرتے ہوئے تمام انسانوں کے خون مال اور آبرو کو یکساں قابل احترام قرار دیا تھا اور اسے اسلام کی عالمگیریت کی بنیاد کے طور پر پیش فرمایا تھا۔
شاہ اردن اور دیگر عرب حکمرانوں سے ہماری مؤدبانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ امریکہ اور صہیونیوں کو نسلی اور قومی تعصب سے نجات حاصل کرنے کا درس ضرور دیں، اس درس میں ہم بھی ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی اس تعصب سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کریں کیونکہ اس کے بغیر نہ عالم اسلام متحد ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسے مصائب و آلام کی دلدل سے نکالنے کے کوئی راہ نکل سکتی ہے۔