مولانا فضل الرحمٰن پر خودکش حملے کے بعد ان کی خیریت کی خبر تو اسی شام مل گئی تھی اور اگرچہ اس شرمناک حملے میں دو افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں، جو افسوس اور الم و رنج کا باعث ہے، مگر مولانا موصوف کی خیریت پر اطمینان ہوا اور اس پر اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں شکر ادا کیا۔ ان سے فون پر دوسرے روز بات بھی ہو گئی تھی مگر جی چاہتا تھا کہ انہیں صحیح سلامت ایک بار پھر آنکھوں سے دیکھ لوں جس کا ۲۷ اکتوبر کی شام کو موقع مل گیا۔
اسلامی نظریاتی کونسل اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی اقبالؒ اکیڈمی کے اشتراک سے ۲۸ و ۲۹ اکتوبر کو ’’اسلام اور مغرب‘‘ کے حوالے سے منعقدہ دو روزہ قومی سیمینار میں شرکت کے لیے ۲۷ اکتوبر کی شام کو اسلام آباد پہنچا تو اپنے میزبان پروفیسر علی طارق اور مولانا احمد الرحمان کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان کی قیام گاہ پر حاضری ہوئی، وہ مہمانوں اور ساتھیوں کے ہجوم میں حسب معمول ملکی حالات پر تبصرے کے ساتھ ساتھ سانحے کی تفصیلات بیان کر رہے تھے۔ انہیں صحیح سلامت اور متحرک دیکھ کر دل خوش ہوا، کچھ دیر ان کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ اور جب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر حضرت مولانا خواجہ عزیز احمد صاحب آف کندیاں شریف مولانا عزیز الرحمان جالندھری، مولانا اللہ وسایا اور مولانا عزیز الرحمان ثانی کے ہمراہ وہاں پہنچے تو ہم نے ’’آب آمد تیمم برخاست‘‘ کہتے ہوئے اجازت چاہی اور رخصت ہو گئے۔
مولانا فضل الرحمان قومی سیاست میں دینی جدوجہد کی مضبوط اور مؤثر آواز ہیں، انہوں نے مختلف مواقع پر پارلیمنٹ میں اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ، قومی خودمختاری کی بحالی، اور دستور و قانون کی بالادستی کے لیے جو مؤثر آواز اٹھائی اور کردار ادا کا ہے وہ دینی جدوجہد اور اسلامی سیاست کے حوالے سے ملک کی پارلیمانی تاریخ میں ہمیشہ محفوظ رہے گا، اللہ تعالٰی انہیں صحت و عافیت کے ساتھ یہ کردار تادیر ادا کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
’’اسلام اور مغرب، باہمی افہام و تفہیم کی ضرورت اور تقاضے‘‘ کے عنوان سے دو روزہ قومی سیمینار شاہ فیصل مسجد کے قائد اعظم آڈیٹوریم ہال میں منعقد ہوا ۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر ممتاز احمد اس قومی سیمینار کے داعی اور میزبان تھے۔ جبکہ افتتاحی نشست میں وفاقی وزیر محترم جنرل (ر) عبد القادر بلوچ اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر احمد بن یوسف الدریویش بھی شریک ہوئے اور خطاب کیا۔
مجھے پہلے روز کی تین نشستوں میں شرکت کا موقع ملا۔ ظہر سے عصر تک کی نشست کی صدارت کا اعزاز بھی بخشا گیا۔ جبکہ پہلے روز کے مقررین میں مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ ڈاکٹر طاہر مسعود، جناب سجاد میر، پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز، پروفیسر سید متین احمد شاہ، جناب خورشید احمد ندیم، جسٹس (ر) ڈاکٹر محمد الغزالی، پروفیسر علی طارق اور دیگر حضرات شامل تھے۔ ’’اسلام اور مغرب‘‘ کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں پر اصحاب فکر و دانش نے اظہار خیال کیا۔ اور کچھ گزارشات میں نے بھی پیش کیں۔ سب حضرات کی گفتگو کا احاطہ تو اس کالم میں ممکن نہیں ہے البتہ مختلف اصحاب دانش کے ارشادات میں چند زیادہ اہم اور توجہ طلب نکات قارئین کی دلچسپی کے لیے ذکر کیے جا رہے ہیں۔
- ’’اسلام اور مغرب کی کشمکش‘‘ کا عنوان بجائے خود محل نظر ہے، اس لیے کہ مغرب بحیثیت مغرب اسلام دشمن نہیں ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد مغرب میں آباد ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، حتیٰ کہ فرانس اور جرمنی سمیت بعض ممالک میں اسلام وہاں کا دوسرا بڑا مذہب تسلیم کیا گیا ہے۔ مغرب کی غیر مسلم آبادی میں ایک بڑی تعداد اسلام قبول کر رہی ہے اور مغربی اقوام میں نو مسلموں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد اسلام کا مطالعہ کر رہی ہے، وہ اسلام کی دعوت سننے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسے سمجھنا چاہتے ہیں۔ جبکہ مغرب کی یونیورسٹیوں میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے بہت سے پہلوؤں پر تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ اس سب کو استشراق اور اسلام دشمنی کے ساتھ جوڑنا درست نہیں ہے، کیونکہ تحقیق اور ریسرچ کی دنیا میں ہونے والے کام کا ایک بڑا حصہ فی الواقع تلاشِ حق کے دائرے میں آتا ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس میں تعاون کے راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت اور ان سے محاذ آرائی کا اہتمام کرنے والے عناصر اگرچہ طاقتور اور مؤثر ہیں، اور سیاست، معیشت اور میڈیا پر ان کا کنٹرول ہے، مگر وہ تعداد میں زیادہ نہیں ہیں۔ اس لیے مغرب کے ساتھ بات کرتے ہوئے یا مغرب کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس درجہ بندی کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ - اس کشمکش کے بارے میں یہ سمجھ لینا بھی درست نہیں ہے کہ یہ اسلام اور مسیحیت کی لڑائی ہے۔ اسلام اور مسیحیت کی کشمکش صدیوں رہی ہے اور اپنے دائروں میں اب بھی موجود ہے، لیکن اسلام اور مغرب کی موجودہ کشمکش میں مغرب کی قیادت مسیحیت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اس لیے کہ مسیحی مذہب کو سوسائٹی کی قیادت سے دست بردار ہوئے دو صدیاں گزر چکی ہیں۔ اب یہ قیادت سیکولر اور مذہب مخالف عناصر کے ہاتھ میں ہے جو اپنے مقاصد کے لیے مذہب کا نام تو کبھی کبھی استعمال کر لیتے ہیں لیکن خود لا مذہب ہیں، اور ان کی پالیسی اور کردار کی بنیاد بھی مذہب کی نفی اور مخالفت پر ہے۔ وہ اپنا موقف اور ترجیحات بائبل یا آسمانی تعلیمات کے حوالہ سے نہیں بلکہ سوسائٹی کی خواہشات کی روشنی میں طے کرتے ہیں۔ اس لیے یہ کشمکش دراصل مذہب اور لامذہبیت ، یا خدا پرستی اور ہوا پرستی کے درمیان ہے، اور اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے یہ حقیقت سامنے رہنی چاہیے۔
- اسلام اور مغرب کی اس کشمکش میں دراصل مغرب کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کی مختلف سطحوں اور دائروں سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور مغربی فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کا حقیقت پسندانہ تجزیہ ضروری ہے۔ وہاں اسلام، سیکولر ازم اور مسیحیت کے حوالہ سے بیک وقت مختلف لہریں موجود ہیں اور مختلف طبقات سرگرم عمل ہیں۔ اس لیے جس طرح مغربی دنیا میں مشرق کے مطالعہ اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تحقیقی اور مطالعاتی کام وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے، اسی طرح اسلامی دنیا کے تعلیمی اداروں اور مراکز کو بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ مغربی دنیا کے علمی، فکری اور تہذیبی رجحانات کا رخ کیا ہے۔ اور اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے ان سے گفتگو اور مکالمہ کی ضروریات کیا ہیں؟ کیونکہ مغرب کو پوری طرح سمجھے بغیر اور مغربی دنیا کے مختلف الجہات رجحانات کو سامنے رکھے بغیر ’’اسلام اور مغرب‘‘ کے بارے میں کوئی صحیح موقف اور طرز عمل طے کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی یہ قرین انصاف ہوگا۔