حفاظِ کرام اور ان کے والدین سے چند باتیں

   
جامع مسجد سیدنا علی کرم اللہ وجہہ، جھاوریاں
۲۲ مارچ ۲۰۲۳ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا احسن ندیم صاحب کا شکر گزار ہوں کہ اس محفل میں شریک ہونے، آپ کے ساتھ ملاقات کرنے اور کچھ باتیں کہنے سننے کا موقع فراہم کیا۔ قرآن مجید چھ سال کے عرصہ میں ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ درس کی صورت میں نمازیوں کو سنایا گیا ہے اور چھ بچوں نے قرآن کریم حفظ مکمل کیا ہے، یہ بڑی سعادت کی بات ہے، اس کے اختتام کی تقریب میں ہم شریک ہیں۔ اس موقع پر بچوں کو اور تمام نمازیوں کو مبارکباد دیتے ہوئے چند باتیں اختصار کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا۔ دو باتیں بچوں سے کرنا چاہوں گا اور ایک بات آپ حضرات سے کرنا چاہوں گا۔

بچوں سے پہلی بات یہ کہ آپ نے حفظ مکمل کیا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو قرآن مجید یاد رکھنے کی توفیق دیں۔ حفظ جو کر لیا ہے یہ کافی ہے یا اب اسے یاد بھی رکھنا ہے؟ یہ آپ سے اور آپ کے والدین سے میرا سوال ہے۔ یاد کرنے میں دو تین سال لگے ہوں گے لیکن یاد رکھنے کے لیے دس پندرہ سال بھی ناکافی ہیں۔ اس کی لمٹ کیا ہے؟ پوری زندگی یاد رکھنا ہے۔ اس لیے پہلی بات یہ ہے کہ قرآن مجید یاد کر لینا کافی نہیں ہے بلکہ اسے یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔

حافظِ قرآن کو قیامت میں جو اعزازات ملیں گے، میڈل تمغے شیلڈز بہت کچھ ملے گا، ان کا مختلف احادیثِ مبارکہ میں ذکر ہے۔ ان میں ایک یہ بھی ہے جو حدیث ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حشر کے فیصلوں کے بعد جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو باقی جنتیوں کو الاٹمنٹ ملے گی کہ فلاں کالونی فلاں شہر میں تمہاری کوٹھی، بنگلہ، باغ ہے، وہ تمہاری زمین ہے۔ جبکہ حافظ کو الاٹمنٹ نہیں ملے گی بلکہ یہ چانس ملے گا کہ قرآن مجید پڑھتا چلا جا اور جنت کی منزلیں طے کرتا چلا جا۔ جہاں ’’من الجنۃ والناس‘‘ کہے گا وہاں تیرا ٹھکانہ ہوگا۔ وہ تیری کالونی، تیری کوٹھی اور تیرا باغ ہے۔ اس لیے میں بچوں سے کہنا چاہوں گا کہ وہاں جانے تک قرآن مجید یاد ہوگا تو پڑھیں گے اور جنت کے درجے چڑھیں گے، اگر خدانخواستہ یہیں بھول گئے تو وہاں کیا پڑھیں گے، تو وہ چانس بھی ہاتھ سے جائے گا۔

حدیث کا ایک جملہ یہ ہے ’’کما کنت ترتل فی الدنیا‘‘ کہ حافظ کو کہا جائے گا کہ جیسے دنیا میں اپنی موج میں قرآن مجید پڑھا کرتے تھے اسی طرح آج قرآن مجید پڑھتے چلے جاؤ اور جنت کے درجے طے کرتے چلے جاؤ۔ حافظ جتنا ٹھہر ٹھہر کر پڑھے گا اتنے ہی بلند درجے تک پہنچ پائے گا۔ ہمارے ہاں دنیا میں ہر حافظ کی اپنی رفتار ہوتی ہے اور لہجہ بھی اپنا ہوتا ہے۔ رمضان کے ہمارے پہلے چار پانچ دن تو یہ چیک کرتے ہوئے گزرتے ہیں کہ یہ حافظ ڈیڑھ گھنٹے میں تراویح پڑھاتا ہے یا پونے دو گھنٹے میں؟ سوا گھنٹے میں پڑھاتا ہے یا گھنٹے میں؟ اور جو حافظ پونے گھنٹے میں تراویح پڑھاتا ہے وہ تو بس نمٹا ہی دیتا ہے۔ دنیا میں تیز رفتاری اچھی سمجھی جاتی ہے کہ یہ دس منٹ میں پارہ پڑھ لیتا ہے اور کسی کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ آدھا گھنٹہ پارے کے ساتھ لگا ہی رہتا ہے۔ میں حافظ بچوں سے کہنا چاہوں گا کہ وہاں اللہ تعالی فرمائیں گے کہ اپنی دنیا والی رفتار سے پڑھتے چلے جاؤ۔ لہٰذا سب سے پہلے پانچ منٹ والا رکے گا، اس کے بعد دس منٹ والا اوپر جائے گا، پندرہ منٹ والا اس سے اوپر پہنچے گا، اور سب سے اوپر آدھے گھنٹے والا جائے گا۔ اس لیے اگر وہاں پڑھنا ہے تو یاد بھی رکھنا ہوگا اور رفتار بھی سیٹ کرنی ہوگی کہ میں نے کہاں تک جانا ہے۔ یہ دو باتیں میں نے بچوں سے کی ہیں۔

آپ حضرات سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید بچوں کو حفظ کروانا بہت اچھی بات ہے، اس سے اجر و ثواب ملتا ہے، فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن میرا سوال ہے کہ کیا بچوں کو قرآن مجید پڑھا دینے سے ہمارا اپنا قرآن مجید بھی صحیح ہو جائے گا؟ ہمارا بچہ قرآن مجید تجوید کے ساتھ بہت اچھا پڑھتا ہے تو کیا اس کے اچھا پڑھنے سے ہمارا پڑھنا بھی ٹھیک ہو جائے گا یا ہمیں خود سیکھنا پڑے گا؟ اگر میں قرآن مجید صحیح نہیں پڑھوں گا تو صحیح نہ پڑھنے پر جو کچھ ہوتا ہے وہ میرے ساتھ ہوگا یا نہیں ہوگا؟

پہلی بات یہ کہ کسی بھی زبان کا لفظ غلط بولا جائے تو معنی بدل جاتا ہے۔ انگریزی کا لفظ ہو یا فارسی کا، فرنچ کا ہو یا پشتو کا، کوئی بھی زبان ہو جب کسی لفظ کو غلط بولیں گے تو اس لفظ کا معنی صحیح نہیں رہے گا۔ ایک دفعہ میں ایک جگہ تقریر کرنے کے لیے بیٹھا تو ایک نوجوان قلم کاغذ لے کر بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا بیٹا! کیا کرنے لگے ہو تو اس نے کہا آپ کی تقریر کے نوٹِس (Notice) لینے لگا ہوں۔ میں نے کہا کہ نوٹِس لینا تمہارا کام نہیں، تھانے والوں کا کام ہے۔ نوٹْس (Notes) لینے ہیں تو لے لو۔ نوٹَس اور نوٹْس لکھنے میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن حرکت کے بدلنے سے معنی بدل گیا۔ کوئی بھی لفظ صحیح نہیں بولیں گے تو لفظ بدلنے سے معنی بدل جائے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اور زبانوں میں تو لفظ بدلنے سے معنی بدل جاتا ہے، جبکہ قرآن مجید میں لفظ بدلنے سے صرف معنی نہیں بدلتا، بلکہ بسا اوقات عقیدہ بھی بدل جائے گا۔

تیسری بات یہ ہے کہ کسی بھی زبان کا تلفظ ہو وہ سیکھے بغیر صحیح نہیں ہوتا۔ صرف قرآن مجید ہے جو ہمیں سیکھنا نہیں پڑتا، جیسے تیسے پڑھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ ثواب تو مل جائے گا۔ یہ رویہ درست نہیں ہے۔ ہمیں قرآن مجید صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ سیکھے بغیر نہیں ہوتا۔ اگر انگریزی سیکھے بغیر نہیں آتی، اگر فارسی کا تلفظ سیکھے بغیر صحیح نہیں ہوتا تو قرآن مجید کا تلفظ بھی سیکھے بغیر صحیح نہیں ہو سکتا۔ اور اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ اگر اَسی سال کا بابا غلط پڑھے تب بھی غلط ہے اور اگر آٹھ سال کا بچہ غلط پڑھے تب بھی غلط ہے۔

آخر میں کہ قرآن مجید نے اپنے بارے میں جو حقوق بیان کیے ہیں اور ہم سے جو مطالبات کیے ہیں ان میں سے تین کا ذکر کروں گا:

پہلا تو یہ کہ ’’فاقرؤا ما تیسر من القرآن‘‘ قرآن مجید جتنا آسانی سے پڑھ سکو، کچھ نہ کچھ ضرور پڑھا کرو۔ اس کا ایک مطلب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں یہ ہے جس مسلمان کے روزمرہ کے معمول میں قرآن مجید کی تلاوت نہیں ہے اس کا سینہ اجڑا ہوا گھر ہے۔ آدمی کے کچھ معمولات ہوتے ہیں۔ دن میں آٹھ دس کام کرنے ہی ہوتے ہیں، ان میں قرآن مجید کی تلاوت کا معمول بھی ہونا چاہیے، خواہ دس آیتیں ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک حدیث میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ جس گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کا ماحول نہیں ہے وہ ’’کالبیت الخرب‘‘ اجڑا ہوا گھر ہے۔

قرآن مجید نے دوسرا تقاضا یہ کیا ہے ’’رتل القرآن ترتیلا‘‘ کہ قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر تجوید اور تلفظ کا خیال کرتے ہوئے پڑھا کرو، چاہے تھوڑا پڑھو لیکن صحیح پڑھو۔ جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ اس پر ایک لطیفہ سناتا ہوں حضرت مولانا ضیاء القاسمی بڑے خطیب تھے، گوجرانوالہ تشریف لائے، ایک مسجد میں اذان سنی جو پنجابی لہجے میں لمبی کر کے دی گئی تھی۔ اب تو معاملہ کچھ بہتر ہو گیا ہے، پہلے بہت لمبی اذان دی جاتی تھی۔ مولانا ضیاء القاسمی کا اپنا مزاج تھا۔ تقریر میں کہنے لگے کہ آج اذان سننے کا مزہ آگیا۔ اللہ میاں نے اذان سنی ہے تو فرشتوں سے کہا ہے کہ میں نے سن تو لی ہے لیکن اسے کہیں لکھ کر نہ لے آنا۔ بہرحال قرآن مجید صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا قرآن مجید کا ہم سے تقاضا ہے۔

قرآن مجید نے ہم سے تیسرا تقاضہ یہ کیا ہے ’’حتٰی تعلموا ما تقولون‘‘ کہ جو کہہ رہے ہو تمہیں پتہ بھی ہونا چاہیے کہ کیا کہہ رہے ہو۔ قرآن مجید سمجھ کر پڑھو۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ہمارے لیے ہے، لیکن ہم اسے سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے۔ یہ غضب نہیں ہے، قیامت کی نشانی نہیں ہے کہ ہم سمجھ نہیں رہے؟ بلکہ سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کر رہے کہ میرا اللہ مجھ سے کیا کہہ رہا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ہم سے کلام کرتے ہیں، اللہ کی باتیں ہم نہیں سمجھتے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ نماز میں ہم اللہ سے باتیں کرتے ہیں تو اپنی بات بھی نہیں سمجھتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ ایسا مکالمہ دنیا میں کہیں دیکھا ہوگا کہ میں اللہ سے باتیں کر رہا ہوں اور وہ مجھ سے باتیں کر رہا ہے، نہ مجھے اپنا پتہ ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور نہ اس کا پتہ ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ کام ہم پانچ وقت وضو کر کے ہاتھ باندھ کر کرتے ہیں کہ اس کی باتیں سنتے ہیں اور اپنی باتیں کرتے ہیں۔ یہ پتہ تو ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کیا کہہ رہے ہیں، ڈانٹ رہے ہیں یا خوش ہو رہے ہیں، کوئی چیز یاد دلا رہے ہیں یا کوئی ہدایت دے رہے ہیں۔

اس لیے قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر کا درس بہت ضروری ہے۔ تفسیر کا درس ہر مسجد میں لازمی ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ نمازیوں کو نماز کا ترجمہ بھی پڑھانا چاہیے تاکہ جو باتیں ہم ہاتھ باندھ کر اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں ان کا ہمیں پتہ ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، معافی طلب کر رہا ہوں یا کوئی چیز مانگ رہا ہوں۔ نماز کا ترجمہ پڑھ کر سمجھتے ہوئے نماز پڑھنے کا جو لطف آئے گا وہ لطف ہی کچھ اور ہوگا۔ یہ ہم سے قرآن مجید کے تین تقاضے ہیں کہ قرآن مجید کچھ نہ کچھ پڑھتے رہا کرو۔ قرآن مجید جتنا بھی پڑھو صحیح تلفظ اور صحیح لہجہ کے ساتھ پڑھو، اور قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھو۔

اس لیے بچوں کو الگ مبارکباد اور آپ حضرات کو اور مولانا طلحہ صاحب کو الگ مبارکباد کہ انہوں نے قرآن مجید ترجمہ اور تفسیر پڑھایا اور آپ نے پڑھا۔ یہ ’’حتٰی تعلموا ما تقولون‘‘ کا مصداق ہے۔ ان گزارشات کے ساتھ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سلسلوں کو قائم رکھیں اور ہم سب کو ان سے جڑے رہنے، استفادہ کرنے اور ترقی اور استحکام کی محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھتے رہنے، صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنے اور سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ اپریل ۲۰۲۳ء)
2016ء سے
Flag Counter