برادر مسلم ملک الجزائر میں عام انتخابات پانچ جون کو ہوئے اور جوں جوں انتخابات کی تاریخ قریب آ رہی تھی، الجزائر میں قتل و غارت کی خبروں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ لندن کے بعض اخبارات نے ریڈیو نشریات کے حوالے سے یہ خبر شائع کی ہے کہ گزشتہ پیر کے روز الجزائر کے سکیورٹی فورسز نے قومی انتخابات سے قبل کی جانے والی کارروائی کے تحت ایک سو تیس راسخ العقیدہ مسلمانوں کو ہلاک کر دیا ہے، جبکہ الجزائر کے مغربی علاقہ میں جسے مسلم انتہا پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے سرکاری فوج کی پیش قدمی جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی لندن میں الجزائر کے مسلمانوں کی سرگرمیوں میں تیزی پیدا ہو رہی ہے۔
الجزائر میں حکومت اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کے درمیان یہ کشمکش گزشتہ پانچ برس سے جاری ہے جو اب مسلح تصادم کی شکل اختیار کر چکی ہے اور دونوں طرف سے ہزاروں افراد اب تک اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اس کشمکش کا آغاز ۱۹۹۲ء میں اس وقت ہوا تھا جب ملک کے عام انتخابات میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے پہلے مرحلہ میں اَسی فیصد ووٹ حاصل کر کے فیصلہ کن کامیابی حاصل کر لی تھی۔ اسلامک سالویشن فرنٹ الشیخ مجالس مدنی اور الشیخ علی بن حاج کی قیادت میں الجزائر کو ایک نظریاتی اسلامی ریاست بنانے اور ملک میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، اور رائے عامہ کی حمایت سے ووٹ کے ذریعے بتدریج آگے بڑھتے ہوئے فرنٹ نے ۱۹۹۲ء میں یہ پوزیشن حاصل کر لی کہ اسے انتخابات کے پہلے مرحلہ میں فیصلہ کن کامیابی ملی۔ یہ صورتحال نہ صرف الجزائر کے سیکولر حلقوں بلکہ اردگرد کی عرب حکومتوں اور عالمی قوتوں کے لیے بھی قابل قبول نہ تھی، چنانچہ انتخابات کا دوسرا مرحلہ منسوخ کر دیا گیا، فوج نے اقتدار سنبھال لیا، اور اسلامک سالویشن فرنٹ کو خلافِ قانون قرار دے کر اس کی قیادت اور ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
اس کے بعد فوج اور دیگر ریاستی ادارے مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ اسلامک سالویشن فرنٹ کو غیر مؤثر بنا کر الیکشن میں حصہ لینے یا ان پر اثرانداز ہونے کے قابل نہ رہنے دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہزاروں مساجد کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا اور ہزاروں علماء اور کارکن ریاستی جبر کا نشانہ بن چکے ہیں جن کے ردعمل کے طور پر بعض حلقوں نے ہتھیار اٹھا کر مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود کوئی بھی انتخابات کے بارے میں مطمئن دکھائی نہیں دیتا اور سرکاری فورسز کو الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے خلاف اس درجہ کی کارروائی کرنا پڑ رہی ہے کہ صرف ایک دن میں ایک سو تیس کے لگ بھگ راسخ العقیدہ مسلمان ان فورسز کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اس سلسلہ میں لندن میں الجزائر کے ایک صحافی عبداللہ المسعی سے تفصیلی ملاقات ہوئی جو یہاں کچھ عرصہ سے مقیم ہیں اور الجزائر کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسلامی قوتوں بالخصوص اسلامک سالویشن فرنٹ کو نظرانداز کر کے کرائے جانے والے انتخابات کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ محض ڈھونگ ہوں گے جن سے الجزائر کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ انہوں نے الجزائر کے سابق صدر اور تحریکِ آزادی کے لیڈر احمد بن بیلا کا یہ مقولہ بھی نقل کیا کہ اس طرح کے الیکشن چالیس بار بھی ہو جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
عبداللہ المسعی نے الجزائر کی داخلی صورتحال کے بارے میں بہت سی مطبوعات راقم الحروف کے سپرد کی ہیں جن کی تفصیلات وقتاً فوقتاً قارئین کی خدمت میں پیش کی جائیں گی۔ سردست ان میں سے ایک کتابچہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے جو اسلامک سالویشن فرنٹ کے لیڈر الشیخ علی بن حاج نے جیل میں تحریر کیا ہے۔
الشیخ علی بن حاج اسلامک سالویشن فرنٹ کے قائد الشیخ عباس مدنی کے دستِ راست اور صفِ اول کے لیڈر ہیں ان کا سنِ ولادت ۱۹۵۶ء ہے۔ ان کے والد محترم الجزائر کے جنوبی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ فرانسیسی استعمار کے خلاف الجزائر کی جنگ آزادی کے سرگرم مجاہد تھے اور تحریکِ آزادی کے دوران ہی شہید ہو گئے تھے۔ علی بن حاج حافظِ قرآن کریم اور سبع قراءات قاری ہیں، سلفی عقیدہ رکھتے ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ سے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور اہم مراکز میں دینی علوم کی تدریس میں مشغول رہے ہیں۔ وہ سرگرم دینی کارکن ہونے کی وجہ سے ۱۹۸۳ء سے ۱۹۸۷ء کے آخر تک ساڑھے چار سال مسلسل جیل کاٹ چکے ہیں اور اب ۱۹۹۲ء سے دوبارہ جیل میں ہیں اور بارہ سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
یہ کتابچہ ان کی دو تحریروں پر مشتمل ہے۔ ایک الجزائر کے صدر کے نام ان کا خط ہے جو انہوں بائیس جولائی ۱۹۹۴ء کو جیل میں بھجوایا، اور اس میں ریاستی اداروں کے اقدامات کو غیر شرعی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف عوامی جدوجہد کی حمایت کا اعادہ کیا ہے، اور کہا ہے کہ جو حکومت بھی مسلمان کہلاتے ہوئے شریعت کے واضح احکامات سے روگردانی کرتی ہے وہ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق ’’طاغوت‘‘ ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کرنا مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے۔ اس خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کیے بغیر الجزائر کے مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔
دوسری تحریر میں انہوں نے عام مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے اور اس میں اسلامک سالویشن فرنٹ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے ان سے تعاون کی اپیل کی ہے۔ الشیخ علی بن حاج کا کہنا ہے کہ اسلامک سالویشن فرنٹ کا واحد مقصد الجزائر کو اسلامی ریاست بنانا اور ایسی حکومت قائم کرنا ہے جو قرآن و سنت کے احکام کی پیروی کرے اور خلفاء راشدینؓ کے نقشِ قدم پر چلے۔ اس مقصد کے لیے فرنٹ نے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا ہے اور وہ ملک کی رائے عامہ کو ہموار کر کے ووٹ کے ذریعے ملک کے نظام میں تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ چنانچہ اسی پروگرام کے تحت اسلامک سالویشن فرنٹ نے بلدیاتی اور قومی انتخابات میں حصہ لیا ہے اور عوامی رائے کو بتدریج اسلامی نظام کے حق میں ہموار کیا ہے ۔۔۔۔ لیکن ریاستی جبر کے ذریعے فرنٹ کے خلاف ڈٹ جائے اور مظلومین کا ساتھ دے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسلامک سالویشن اسی حکومت کو جائز اور شرعی سمجھتا ہے جو عام مسلمانوں کے مشورہ سے وجود میں آئے اور اسے رائے عامہ کی حمایت حاصل ہو۔ اس سلسلہ میں انہوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروق اعظمؓ، حضرت علی المرتضیٰؓ اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے متعدد ارشادات کا حوالہ دیا ہے جن میں اسلامی حکومت کی تشکیل میں عام مسلمانوں کے مشورہ اور رائے کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔ علی بن حاج نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلامی احکام و قوانین سے انحراف کرنے والی مسلم حکومتیں ظالم و جابر ہیں اور ان کے خلاف جدوجہد مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔ انہوں نے اپنے مقالے میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جیل کی صعوبتیں اور ریاستی جبر کی کوئی بھی شکل ان کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکے گی اور الجزائر کو ایک اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کی جدوجہد جاری رہے گی۔
اس سلسلہ میں عرب دنیا کے ایک معروف کالم نگار فہمی ہویدی کے اس مضمون کا حوالہ دینا بھی شاید نامناسب نہ ہو جو روزنامہ الشرق الاوسط لندن نے پانچ مئی ۱۹۹۷ء کو شائع کیا ہے اور اس میں انہوں نے الجزائر کی داخلی صورتحال کو انتہائی اندوہناک قرار دیتے ہوئے اس بات کا شکوہ کیا کہ عالمی ادارے بالخصوص عرب دنیا کی اسلامی جماعتیں اور ذرائع ابلاغ صورتحال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی بجائے محض سرکاری اعلانات اور بیانات پر اکتفا کر رہے ہیں، جبکہ الجزائر کے غریب عوام ذبح ہو رہے ہیں اور ان کے مصائب میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔