برما میں مسلمانوں کی حالت زار

   
اگست ۲۰۱۲ء

دوبئی سے شائع ہونے والے اردو اخبار ہفت روزہ ’’سمندر پار‘‘ کے شمارہ ۶ تا ۱۲ جولائی ۲۰۱۲ء کی ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیے:

’’برما میں بوزی قبائل کے دہشت گرد گروپ ’’ماگ‘‘ کی جانب سے مسلمان آبادی پر مسلط کی گئی جارحیت میں اب تک کم سے کم ۲۵۰ مسلمان شہید، ۵۰۰ زخمی اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہو گئے ہیں۔ انسانی حقوق کے ایک برمی مندوب محمد نصر نے عرب ٹی وی کو ٹیلی فون پر بتایا کہ مسلمانوں پر مسلط کی گئی جارحیت میں تین سو افراد تاحال لاپتہ ہیں جبکہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے والے ہزاروں افراد کو خوراک اور بنیادی اشیا کی قلت کے باعث سخت مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ محمد نصر نے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ماگ ملیشیا کے دہشت گردوں نے برما میں مسلمانوں کے ۲۰ دیہات اور ۱۶۰۰ مکانات نقشہ سے مٹا دیے ہیں جس کے باعث لاکھوں کی تعداد میں شہری نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں، مسلمانوں کی جائیدادوں کو کھلے عام پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماگ ملیشیا کے حملوں سے مسلمان اکثریتی صوبہ اراکان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں مسلمانوں کے اجتماعی قتل کے بعد ہزاروں کی تعداد میں شہری سرحد پار کر کے بنگلہ دیش میں پناہ گزین کیمپوں میں جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘‘

برما جسے اب سرکاری طور پر ’’میانمار‘‘ کہا جاتا ہے، بودھ اکثریت کا ملک ہے، جو بنگلہ دیش کے پڑوس میں واقع ہے اور طویل عرصہ تک متحدہ ہندوستان کا حصہ رہا ہے، برطانوی استعمار نے اسے ایک الگ ملک کی حیثیت دی تھی۔ جبکہ اراکان مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور صدیوں تک ایک آزاد مسلم ریاست کے طور پر اس خطہ کی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش کا ساحلی شہر چٹاگانگ بھی ایک زمانے میں اراکان میں شامل تھا مگر نوآبادیاتی دور میں برطانوی استعمار نے چٹاگانگ کو بنگال میں اور اراکان کو برما میں شامل کر دیا جس سے اراکان کا یہ علاقہ، جو مسلم اکثریت کا خطہ ہے، بودھ اکثریت کے ملک برما کا صوبہ بن گیا۔

تب سے اس علاقہ کے مسلمان بودھ اکثریت کے متعصبانہ رویہ کے ساتھ ساتھ ریاستی جبر کا شکار بھی چلے آرہے ہیں اور بہت سے مسلمان گروپ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے باعث اراکان کی آزادی کی جدوجہد میں مصروف چلے آرہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور ماضی میں آزاد ریاست رہا ہے اس لیے آزادی اس کا حق ہے۔ لیکن عالمی سطح پر ان کے اس موقف اور مطالبہ کو توجہ حاصل نہیں ہو رہی بلکہ ان پر ریاستی جبر اور بودھ انتہا پسندوں کے مظالم میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس سے قبل مختلف مراحل میں اس قسم کے جبر اور مظالم سے تنگ آکر وہ اپنے پڑوسی ملک بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں پناہ لے چکے ہیں اور پاکستان میں بھی برمی مہاجرین کی ایک خاصی تعداد موجود ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے خاموشی کے ساتھ اس منظر کو دیکھ رہے ہیں اور مسلم ممالک بھی ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں، حتٰی کہ انہیں برما میں بسنے والے مسلمانوں کی طرف سے بھی وہ رسمی اور ظاہری حمایت حاصل نہیں ہے جس کی وہ ان سے توقع رکھتے ہیں۔ ان حوالوں سے اراکان کی صورتحال مقبوضہ کشمیر سے ملتی جلتی ہے، البتہ دو باتوں کا فرق ہے:

  • ایک یہ کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو کسی نہ کسی درجہ میں ووٹ دینے اور اقتدار میں برائے نام شرکت کا حق ہے جبکہ اراکان کے مسلمانوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہے۔
  • اور دوسری یہ کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو پڑوسی مسلمان ملک پاکستان کی حمایت اور سرپرستی میسر ہے جبکہ اراکان کا پڑوسی مسلمان ملک بنگلہ دیش اراکانی مہاجرین کو پناہ دینے اور پناہ گزین کے طور پر ان کی امداد کرنے سے زیادہ اس سلسلہ میں کسی مزید پیشرفت کے موڈ میں نہیں ہے، جس سے اراکانی مسلمانوں کی بے بسی دو چند ہو گئی ہے۔
  • راقم الحروف نے ماہ رواں کے آغاز میں اسلام آباد میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر اور پارلیمنٹ کی قومی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کر کے اس مسئلہ پر ان سے تفصیلی گفتگو کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اراکانی مسلمانوں کی اس مظلومیت اور بے بسی کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں متعلقہ حلقوں اور اداروں سے رابطہ کر کے اس مسئلہ کا کوئی حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔

    اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ اراکانی مسلمانوں کا یہ مسئلہ عالمی سطح پر اٹھایا جائے، مسلم حکومتوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ وہ اس مسئلہ کے حل کے لیے مؤثر کردار ادا کریں اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کو احساس دلایا جائے کہ اراکان کے مسلمانوں کا ’’ماگ‘‘ جیسی دہشت گرد فورسز کے مظالم کا شکار ہونا انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ ہے اور ان مظلوموں کو اس جبر و تشدد سے بچانا بھی انسانی حقوق کے تحفظ کا تقاضہ ہے۔ ظاہر بات ہے کہ عالمی سیکولر حلقوں کی امداد سے چلنے والی این جی اوز کو تو اس مسئلہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہوگی لیکن کیا پاکستان اور بنگلہ دیش کی دینی جماعتیں بھی اس سلسلہ میں کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں؟

       
    2016ء سے
    Flag Counter