این جی اوز کے مثبت اور منفی پہلو

   
۲۴ اکتوبر ۲۰۰۰ء

وفاقی وزیرداخلہ جناب معین الدین حیدر نے گزشتہ دنوں ’’فاطمید فاؤنڈیشن‘‘ کی ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے این جی اوز کے بارے میں کہا ہے کہ ساری این جی اوز ایک جیسی نہیں ہیں اور ان میں کچھ فاطمید جیسی اچھا کام کرنے والی این جی اوز بھی ہیں اس لیے سب این جی اوز کی مخالفت کرنا درست نہیں ہے۔ اس سے قبل حکمران کیمپ کے بعض دیگر حضرات بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں لیکن دوسری طرف دینی جماعتیں بالخصوص مولانا فضل الرحمان نے این جی اوز کی مخالفت میں دن رات ایک کر رکھا ہے اور مولانا شاہ احمد نورانی کے بقول ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں کہ اگر سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کا نوٹس نہ لیا گیا تو دینی جماعتوں اور این جی اوز میں براہ راست تصادم ہو سکتا ہے۔

این جی اوز (نان گورنمنٹل آرگنائزیشنز) سے مراد وہ غیر سرکاری تنظیمیں اور ادارے ہیں جو سرکاری نظم و نسق سے ہٹ کر رضاکارانہ بنیادوں پر سوسائٹی میں عام لوگوں کے فائدہ کی کوئی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے این جی اوز کا دائرہ بہت وسیع ہے اور وہ مساجد اور مدارس بھی بنیادی طور پر اسی دائرہ میں شمار ہوتے ہیں جو سرکاری کنٹرول میں نہیں ہیں اور عام لوگوں کے رضاکارانہ تعاون سے دینی اور تعلیمی خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ لیکن عرف عام میں جب این جی اوز کہا جاتا ہے تو اس سے وہ تنظیمیں اور ادارے مراد ہوتے ہیں جو تعلیم، صحت اور رفاہ عامہ کے کسی عنوان سے معاشرہ میں کام کر رہے ہیں۔ اپنے بنیادی اہداف کے حوالے سے یہ خدمات کسی بھی سوسائٹی کے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں کہ اس سے عام شہریوں کو بہت سے فوائد اور سہولتیں حاصل ہونے کے علاوہ ریاستی اداروں کا بوجھ بھی کم ہو جاتا ہے کیونکہ عوامی ضرورت و مفاد کے بہت سے کام جو سرکاری ادارے تمام تر وسائل کے باوجود نہیں کر پاتے ان غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے ہو جاتے ہیں۔ اس لیے حکومتیں ایسے اداروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، سرپرستی کرتی ہیں، ان کی مالی معاونت کرتی ہیں اور انہیں تحفظ بھی فراہم کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ بین الاقوامی طور پر ان این جی اوز کی حوصلہ افزائی، سرپرستی اور تحفظ کے سلسلہ میں قوانین موجود ہیں جن کی نگرانی اقوام متحدہ اور اس کے ادارے کرتے ہیں اور اس طرح غیر سرکاری تنظیموں کا ایک عالمگیر نظام ہے جو اقوام متحدہ کے اداروں اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے دنیا بھر میں کام کر رہا ہے۔ بین الاقوامی تنظیمیں اور ادارے ان غیر سرکاری تنظیموں کی بھرپور مالی معاونت اور پشت پناہی کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان روابط و تعلقات کی راہ بھی ہموار کرتے ہیں اور یہ این جی اوز جو دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں ایک منظم نیٹ ورک کے طور پر اپنے مقاصد و اہداف کے لیے مصروف ہیں۔

تعلیم، صحت، صفائی اور رفاہ عامہ کے دیگر امور کے حوالے سے این جی اوز کی خدمات کی اہمیت و افادیت سے کسی ذی شعور کو اختلاف نہیں ہے۔ اور معاشرہ میں نادار اور بے بس افراد کو ضروری سہولتیں فراہم کرنا اور ان میں معاشرتی شعور بیدار کرنا اسلامی تعلیمات کی رو سے سنت نبویؐ ہے کہ خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رفاہ عامہ کی یہ خدمات ذاتی طور پر سرانجام دی ہیں اور عام لوگوں کی اس قسم کی خدمات سرانجام دینے کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبولیت اور بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث بتایا ہے۔ اس لیے کسی مسلمان کی طرف سے اس حوالہ سے این جی اوز کی مخالفت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جو شخص این جی اوز کے ان مقاصد و اہداف کے حوالے سے ان سے واقف ہونے کے باوجود ان کی مخالفت کرتا ہے وہ یا تو اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہے یا آگاہ ہونے کے باوجود خدانخواستہ اس کے دل میں ان کی اہمیت نہیں ہے۔

البتہ اپنی کارکردگی اور طریق کار کے حوالے سے این جی اوز کی سرگرمیاں دن بدن متنازعہ ہوتی جا رہی ہیں اور سنجیدہ حلقوں کی ان شکایات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ بہت سی این جی اوز نے رفاہ عامہ کی خدمات کے مقدس عنوان کو صرف آڑ اور سائن بورڈ کے طور پر اختیار کر رکھا ہے اور اس کی اوٹ میں وہ مختلف ممالک میں ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جنہیں معاشرتی خدمات کی بجائے سوسائٹی کو سبوتاژ کرنے اور ذہنی و فکری انارکی پیدا کرنے کی کوششوں سے تعبیر کرنا زیادہ موزوں محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں مسلم ممالک بالخصوص پاکستان میں ان این جی اوز پر جو اعتراضات عام طور پر کیے جاتے ہیں ان میں تین چار امور کا تذکرہ اس موقع پر زیادہ ضروری ہے:

  • ایک یہ کہ عالمی استعمار اور بین الاقوامی ادارے ان غیر سرکاری تنظیموں کی آڑ میں اپنے جاسوس بھیج دیتے ہیں اور یہ این جی اوز غیر ملکی جاسوسوں کے لیے کمین گاہیں ثابت ہوتی ہیں۔
  • دوسرا یہ کہ یہ این جی اوز ہر ملک میں وہاں کے کلچر، معاشرتی روایات اور مذہبی اقدار کے خلاف عام لوگوں کی ذہن سازی کرتی ہیں اور مغربی کلچر کی راہ ہموار کرتی ہیں جیسا کہ پاکستان میں اسلام کے نکاح، طلاق اور وراثت کے قوانین اور جرائم کی قرآنی سزاؤں کی مخالفت سب سے زیادہ ان این جی اوز کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ اور اس طرح یہ این جی اوز ہمارے معاشروں میں رفاہ عامہ کی خدمات سرانجام دینے کی بجائے اس کی آڑ میں اسلامی ثقافت اور روایات کے خلاف بغاوت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جسے معاشرتی تخریب کاری سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
  • تیسری بات یہ ہے کہ ان غیر سرکاری تنظیموں کو اپنے ظاہر کردہ مقدس عنوان کے باعث ملک کے اندر سے اور بیرونی طور پر عالمی اداروں اور مخیر شخصیات و طبقات کی طرف سے بہت زیادہ رقوم ملتی ہیں مگر ان رقوم کا بیشتر حصہ عام لوگوں کی مدد پر خرچ ہونے کی بجائے تنظیموں کے انتظامی اخراجات، عہدیداروں کی تنخواہوں اور پر تعیش آسائشوں کی نذر ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ ادارے عوامی خدمت کی بجائے انتہائی نفع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
  • جبکہ چوتھی بات یہ ہے کہ بعض این جی اوز ملک و قوم کی اجتماعی پالیسیوں کے پس منظر میں ایسی سرگرمیوں میں ملوث پائی جاتی ہیں جو ملکی مفاد کے منافی ہوتی ہیں۔ مثلاً ہمارے ملک کی بعض این جی اوز کی یہ سرگرمیاں ریکارڈ پر آچکی ہیں جو وہ پاکستان کی ایٹمی پالیسی کی مخالفت، فوج کا سائز کم کرنے، بے حیائی کے کلچر کو فروغ دینے اور مسئلہ کشمیر پر قومی موقف کو سبوتاژ کرنے کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس لیے جب این جی اوز کا یہ روپ سامنے آتا ہے اور یہ بھی صاف دکھائی دیتا ہے کہ این جی اوز میں غالب اکثریت ایسی تنظیموں اور اداروں کی ہے جو اپنے بیان کردہ اہداف اور عوامی خدمت کے کاموں کی بجائے مذکورہ بالا سرگرمیوں میں ملوث ہیں تو کسی بھی محب وطن شہری کے لیے اس صورتحال میں خاموش رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بالخصوص اس تاریخی پس منظر میں کہ عالم اسلام کی سیاسی وحدت کی آخری علامت ترکی کی خلافت عثمانیہ کو سبوتاژ کرنے میں سب سے اہم کردار انہی این جی اوز نے ادا کیا تھا۔ اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا کو خانہ جنگی اور تباہی تک پہنچانے میں سب سے نمایاں ہاتھ انہی این جی اوز کا دکھائی دے رہا ہے ۔چنانچہ پاکستان کے طول و عرض میں کروڑوں روپے کی غیر ملکی سرمایہ کے بل پر متحرک ہزاروں این جی اوز کی شب و روز نقل و حرکت کو خاموشی کے ساتھ دیکھتے چلے جانا دینی حمیت اور ملی غیرت سے بہرہ ور کسی شخص کے لیے ممکن نہیں رہتا اور اسی وجہ سے دینی حلقوں کی طرف این جی اوز کی مخالفت دن بدن بڑھ رہی ہے۔

ہمیں اس سے انکار نہیں ہے کہ ان این جی اوز میں بعض ادارے اور تنظیمیں یقیناً ایسی بھی ہوں گی جو عالمی استعمار کے ایجنڈے، گلوبل سولائزیشن وار، بین الاقوامی اداروں کے مخصوص مقاصد اور عالمی لابیوں کی سیاسی اغراض سے لاتعلق رہتے ہوئے صرف اور صرف رفاہ عامہ اور معاشرتی خدمات کی غرض سے مصروف کار ہوں گی اور ایسی تنظیموں کی لازماً حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ لیکن چند گنی چنی تنظیموں کی اچھی کارکردگی اور نیک نامی کی چادر کو کھینچ تان کر ہزاروں بدعنوان اور اسلام دشمن این جی اوز کو اس کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرنا بھی دانشمندی کی بات نہیں ہے۔ اور ہم وزیرداخلہ جناب معین الدین حیدر کو توجہ دلانا چاہیں گے کہ اسی طرح کی ایک این جی او جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی قائم ہوئی تھی جس کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ توبہ میں موجود ہے کہ مدینہ منورہ میں مسلمان کہلانے والے کچھ لوگوں نے ’’مسجد‘‘ کے عنوان سے ادارہ قائم کیا تھا جس کا ظاہری عنوان نماز اور عبادت کا تھا اور جناب نبی اکرمؐ نے اس میں نماز پڑھ کر اس کا افتتاح کرنے کا وعدہ بھی کر لیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اسے دشمن کی گھات اور کمین گاہ قرار دے کر نبی کریمؐ کو وہاں جانے سے روک دیا تھا اور پھر وہ نام نہاد مسجد آنحضرتؐ کے حکم پر نذر آتش کر دی گئی تھی۔ اس لیے اگر دشمن کی گھات اور کمین گاہ کے طور پر مسجد کا وجود اسلام میں گوارا نہیں ہے تو عالمی استعمار کے ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اوز کو برداشت کرنے کی گنجائش کیسے نکل سکتی ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter