حضرت مولانا حکیم عبد الرحیم اشرفؒ کے ساتھ غائبانہ تعارف تو بچپن ہی سے تھا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں طالب علمی کے زمانے میں (۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۰ء) میرا معمول یہ تھا کہ شہر میں جہاں کہیں کسی لائبریری یا دارالمطالعہ کا پتہ چلتا وہاں تک رسائی کی کوشش کرتا اور اخبارات و رسائل کے مطالعہ کے لیے کچھ نہ کچھ وقت روزانہ صرف ہوجاتا۔ انہی میں سے ایک دارالمطالعہ چوک نیائیں میں اہل حدیث دوستوں کا بھی تھا۔ سالہا سال تک یہ سلسلہ جاری رہا کہ روزانہ یا کم از کم ہفتہ میں دوبارہ وہاں ضرور جاتا اور کچھ وقت مطالعہ میں گزارتا۔ ہفت روزہ المنبر سے وہیں شناسائی ہوئی اور مختلف عنوانات پر حکیم صاحب کی تحریرات پڑھنے کا موقع ملا۔ البتہ یہ دور حکیم صاحب کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی اور فکری موافقت کا دور نہیں تھا۔ کیونکہ میرا شمار اس دور میں دینی مدارس کے ان طلبہ میں ہوتا تھا جو جماعت اسلامی کے شدید مخالف اور جمال عبد الناصر مرحوم کے پرجوش حامی تھے۔ ہم لوگ اس وقت جمال عبد الناصر کو عالم اسلام کی استعمار دشمن قوتوں کا نمائندہ سمجھتے تھے جبکہ جماعت اسلامی ہمارے نزدیک استعمار دوست حلقوں اور دانشوروں کی کمین گاہ تصور ہوتی تھی۔ حکیم صاحب مرحوم جمال عبد الناصر کے شدید مخالف تھے اور ایک عرصہ تک ان کا تعلق جماعت اسلامی کے ساتھ رہ چکا تھا، اس لیے ان کے مضامین پڑھنے کے باوجود ان کے لیے دل کے کسی گوشے میں انس یا موافقت کا کوئی جذبہ اس دور میں موجود نہیں پاتا تھا۔
یہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی صحبت اور تربیت کا فیض ہے کہ طالب علمی کے دور سے ہی یہ ذوق چلا آرہا تھا کہ کسی بھی مسئلہ پر کچھ کہنے سننے یا رائے قائم کرنے سے پہلے موافق اور مخالف دونوں پہلوؤں کا جائزہ لینا اور دونوں فریقوں کے نقطۂ نظر اور موقف سے آگاہی حاصل کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اسی نقطۂ نظر سے حکیم صاحب مرحوم کی تحریرات کا مطالعہ کرتا، ان میں مین میخ نکالتا اور کبھی کبھار دوستوں کی محفل میں ان پر تبصرہ بھی کرتا تھا۔
اس صورتحال میں تبدیلی کا آغاز اس وقت ہوا جب مولانا حکیم عبد الرحیم اشرفؒ کے کچھ مضامین قادیانیت کےخلاف سامنے آئے۔ قادیانیت کے خلاف جدوجہد میری گھٹی میں شامل تھی۔ زندگی میں پہلی بار چار پانچ سال کی عمر میں والد صاحب کو آٹھ دس ماہ تک مسلسل گھر سے غائب پایا تو یہ ۱۹۵۳ء کا سال تھا جب وہ تحریک ختم نبوت کے سلسلہ میں کم و بیش دس ماہ جیل میں رہے اور ان کی گرفتاری و رہائی کا منظر اب تک نگاہوں کے سامنے ہے۔ قادیانیت کے خلاف حکیم صاحبؒ کے مضامین اور کتابچے منظر عام پر آئے تو انہیں نہ صرف خود پڑھا بلکہ بہت سے دوستوں کو پڑھایا۔
حکیم صاحبؒ کا اپنا انداز تحریر تھا، وہ بات کو سمجھانے کے لیے اسے کئی پہلوؤں اور نکات میں تقسیم کر لیتے تھے اور پھر ایک ایک کو موضوعِ بحث بنا کر اپنا موقف پورے شرح و بسط کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی کہ زیر بحث مسئلہ کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا پہلو بھی مخاطب کی نظروں سے اوجھل نہ رہ جائے۔ مجھے اس طرزِ تحریر سے مناسبت نہیں ہے اور میری کوشش ہوتی ہے کہ لمبی سے لمبی بات مختصر الفاظ میں اس طرح بیان ہو جائے کہ مخاطب بات کا اصل مقصد سمجھ لے۔ مگر اس کے باوجود قادیانیت کے بارے میں حکیم صاحب مرحوم کے مضامین بہت پسند آئے اور اس کے بعد کافی عرصہ تک یہ سلسلہ رہا کہ جدید تعلیم سے بہرہ ور کوئی دوست قادیانیت کے بارے میں لٹریچر کی نشاندہی کے لیے کہتا تو اسے جن کتابوں اور رسائل کے مطالعہ کا مشورہ دیتا ان میں حکیم صاحبؒ کے مضامین اور کتابچے بھی شامل ہوتے۔ یوں حکیم صاحبؒ کے ساتھ کسی درجہ ذہنی انس اور فکری ہم آہنگی کے دور کا آغاز ہوا۔
حکیم صاحبؒ کے ساتھ پہلی ملاقات غالباً اس دور میں ہوئی جب انہوں نے جامعہ تعلیمات اسلامیہ کا آغاز کیا اور اس کے لیے مختلف مکاتب فکر کے اہل علم کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے جامعہ تعلیمات اسلامیہ میں تدریس کے لیے جن حضرات کو اکٹھا کیا ان میں غزنی خیل ضلع لکی مروت کے مولانا احمد جان بھی تھے جن کا تعلق جمعیۃ علماء اسلام سے تھا اور وہ ایک موقع پر جمعیۃ کی طرف سے ایم این اے بھی منتخب ہوئے تھے۔ میرا ان سے جماعتی تعلق تھا اور دوستانہ بے تکلفی بھی تھی اور وہی مولانا حکیم عبد الرحیم اشرفؒ کے ساتھ میری ملاقات کا باعث بنے۔ یہ ملاقات حکیم صاحبؒ کی رہائش گاہ پر ہوئی جو رات کافی دیر تک جاری رہی اور اس میں میرے ایک اور مخدوم حضرت مولانا عبد الغفار حسنؒ بھی موجود تھے۔ مولانا عبد الغفار حسنؒ بزرگ اہل حدیث عالم دین تھے اور میرے ان بزرگوں میں سے تھے جو ہمیشہ شفقتوں اور دعاؤں سے نوازتے رہے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے سلسلہ میں جیل میں اکٹھے رہے اور اسی مناسبت سے مجھے بھتیجا کہتے تھے۔ اور میری بھی کوشش رہتی تھی کہ جب بھی موقع ملے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر راہنمائی، شفقت اور دعاؤں کا حصہ وصول کروں۔
بہرحال مولانا حکیم عبد الرحیم اشرفؒ کی رہائش گاہ پر ان سے اور ان کے ہمراہ مولانا عبد الغفار حسنؒ اور مولانا احمد جان غزنی خیل کے ساتھ ابتدائی ملاقات کی یہ طویل نشست اب تک اپنی بیشتر تفصیلات سمیت ذہن میں محفوظ ہے اور کبھی کبھی اسے ذہن کی اسکرین پر سجا کر ’’حظ مکرر‘‘ کا لطف اٹھا لیتا ہوں۔ سچی بات ہے کہ حکیم صاحبؒ کی سادگی، خلوص، جذبۂ خیر خواہی اور دینی تقاضوں کے ساتھ ان کی بے لچک وابستگی نے بہت متاثر کیا۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا ایک ان گنت سلسلہ ہے جنہیں شاید شمار بھی نہ کر سکوں۔ بہت سے دینی و قومی مسائل پر گھنٹوں گفتگو ہوتی رہی۔ متعدد امور میں مجھے ان سے اختلاف بھی رہا مگر ان کی شفقت اور خلوص نے ہمیشہ متاثر کیا۔ میری حیثیت ہر لحاظ سے ان کے سامنے بچوں جیسی تھی لیکن انہوں نے ہر بار شفقت بھرے احترام سے نوازا۔
حکیم صاحبؒ کی خواہش ہوتی تھی کہ میں جب بھی فیصل آباد جاؤں ان سے ضرور ملوں۔ اور کئی مواقع پر یہ معلوم کر کے کہ میں فیصل آباد گیا اور ان سے نہیں ملا تو وہ باقاعدہ ناراضی کا اظہار کرتے اور اگلی ملاقات میں یا خط کی صورت میں اس کا شکوہ کرتے۔ مگر میرے لیے اکثر اوقات مشکل یہ ہوتی تھی کہ حکیم صاحبؒ کے ساتھ ملاقات کے لیے تھوڑا بہت وقت کفایت نہیں کرتا تھا۔ وہ شب زندہ دار بزرگ تھے اور ان کے ساتھ اطمینان کی ملاقات رات کو ہی ہو سکتی تھی۔ اس لیے ملاقات کرنے والے کو شب زندہ دار بننا پڑتا تھا جبکہ میں اس معاملہ میں بہت کمزور بلکہ بہت ہی کمزور واقع ہوا ہوں۔ اس لیے کئی بار ان کی ناراضی بلکہ ڈانٹ کا حظ اٹھانا پڑا۔
ایک دور میں حکیم صاحبؒ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں سیاسی جھمیلوں سے خود کو الگ کر کے تعلیمی لائن اختیار کروں اور ان کے پاس جامعہ تعلیمات اسلامیہ آجاؤں۔ مگر اس وقت سیاست کا جنون ذہن پر اس قدر حاوی تھا کہ اس قسم کا کوئی مشورہ سنتے ہوئے بھی ذہن پر بوجھ محسوس ہوتا تھا اس لیے ان کی مخلصانہ پیشکش کو قبول نہ کر سکا۔
جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جب دستوری اور قانونی طور پر چند اسلامی اصلاحات سامنے آئیں تو حکیم صاحبؒ کی انتہائی مخلصانہ کوشش تھی کہ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام متحد ہو کر جنرل صاحب کا بھرپور ساتھ دیں اور سب مصلحتوں اور تقاضوں کو چھوڑ کر پوری قوت کے ساتھ جنرل ضیاء الحق مرحوم کی پشت پر کھڑے ہو جائیں۔ اس مقصد کے لیے حکیم صاحبؒ نے جن دینی کارکنوں کو قائل کرنے کی مسلسل کوشش کی ان میں میرا نام بھی شامل ہے۔ انہوں نے کئی نشستوں میں مجھے اس بات پر قائل کرنا چاہا کہ میرے جیسے کارکنوں کو جنرل ضیاء الحق مرحوم کے کیمپ میں شامل ہوجانا چاہیے۔ حتیٰ کہ جب جنرل صاحب مرحوم نے وفاقی مجلس شوریٰ تشکیل دی تو حکیم صاحبؒ کی خواہش تھی کہ میں بھی اس میں شامل ہوں جس کے لیے وہ غالباً جنرل صاحب مرحوم سے بات کر چکے تھے۔ مجھے حکیم صاحبؒ نے فرمایا کہ اگر میں چاہوں تو اپنے ساتھ دو تین اور مرضی کے افراد کے نام بھی شوریٰ کے لیے پیش کر سکتا ہوں۔ مگر میرے لیے اس وقت دو رکاوٹیں تھیں۔ ایک یہ کہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے ذمہ دار حضرات میں شمار ہوتا تھا اور میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کی مرضی کے بغیر اس قسم کا کوئی قدم اٹھاتا۔ جبکہ ان دونوں بزرگوں کی رائے اس کے حق میں نہیں تھی۔ دوسری رکاوٹ یہ تھی کہ میں خود بھی ذہنی طور پر مطمئن نہیں تھا اور میرا موقف یہ تھا کہ جنرل صاحب کے اقدامات کا کوئی عملی نتیجہ موجودہ حالات میں سامنے آنے کی توقع نہیں ہے۔ اس لیے ان کے اقدامات کی اصولی حمایت کے باوجود نظریاتی کارکنوں کو اس کیمپ میں شامل ہونے کی بجائے ’’ریزرو‘‘ میں رہنا چاہیے اور سب لوگوں کو اسلامی اصلاحات کی ناکامی کی ذمہ داری میں شریک نہیں ہوجانا چاہیے۔ اس لیے یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ حکیم صاحبؒ یہ سب کچھ خلوص، شفقت اور ہمدردی کے ساتھ کہہ رہے ہیں، ان کی مخلصانہ جدوجہد میں ان کا ساتھ نہ دے سکا۔
مولانا حکیم عبد الرحیم اشرف مسلکاً اہل حدیث تھے مگر روایتی مسلکی تعصب سے بالکل پاک اور عین اس طرح تھے جیسے کسی بھی مسلک کے صاحبِ علم اور سنجیدہ حضرات کو ہونا چاہیے۔ ان کے تعلقات اور روابط ہر مسلک کے حضرات سے تھے اور ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ مختلف مسالک کے علماء اور کارکنوں کے درمیان مفاہمت کی فضا قائم ہو اور مشترکہ قومی و دینی مقاصد کے لیے سب مل جل کر کام کریں۔ اسی لیے دینی حلقوں کے باہمی اتحاد کی ہر سنجیدہ کوشش میں وہ پیش پیش رہے۔ اسلامی روایات و اقدار کا تحفظ، نظام شریعت کا نفاذ، ملکی سالمیت اور قومی وحدت ان کی دلچسپی کے خصوصی موضوعات تھے اور ان میں سے کسی بھی امر کے بارے میں کوئی مسئلہ پیش آتا توہ بالکل بے لچک وہ جاتے تھے۔ ان حوالوں سے ان کی ترجیحات اپنی ہوتی تھیں اور کوئی سیاسی یا غیر سیاسی مصلحت ان کی راہ میں حائل نہیں ہو پاتی تھی۔ وہ ان دانشوروں میں سے تھے جو حکمرانوں کے ساتھ الجھاؤ اور کشمکش کی فضا قائم کرنے کی بجائے حکمت و دانش اور مفاہمت کے ماحول میں ان سے کام لینے کو ترجیح دیتے تھے۔ انہیں یہ فن آتا تھا اور کئی بار دینی و قومی تحریکات نے ان کی اس صلاحیت سے استفادہ کیا۔ لیکن طاقتور حکمرانوں کے ساتھ روابط اور قرب کے باوجود ان کا دامن مفادات اور اغراض کی آلائشوں سے ہمیشہ پاک رہا اور ان کے کسی بڑے سے بڑے مخالف کو بھی اس حوالہ سے ان پر انگلی اٹھانے کی کبھی گنجائش نہیں ملی۔ وہ ذاکر و شاغل بزرگ تھے، ان کے شب و روز کے اوقات کا ایک متعین حصہ ذکر و اذکار اور نوافل میں گزرتا تھا۔ اسی مناسبت سے میں انہیں اپنے دوستوں کی محفل میں بسا اوقات ’’وہابی صوفی‘‘ بھی کہہ دیا کرتا تھا۔
آخر عمر میں حکیم صاحبؒ کی یادداشت متاثر ہوگئی تھی۔ اس دوران ایک روز میں بیمار پرسی کے لیے حاضر ہوا تو حسب عادت پرتپاک طریقہ سے ملے اور تاثر یہی دیا جیسے مجھے پہچان گئے ہوں۔ لیکن محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اخلاقاً ایسا کر رہے ہیں اور یادداشت ان کا ساتھ چھوڑ گئی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبولیت سے نوازیں، سیئات سے درگزر فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر سرفراز کریں، آمین یا رب العالمین۔