جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے دورۂ افغانستان کے تاثرات

   
مئی ۲۰۰۰ء

مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے فرزند اور لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے گزشتہ دنوں افغانستان کا دورہ کیا ہے اور واپسی پر لاہور میں ایک تقریب کے دوران اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے امارتِ اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ انہوں نے افغانستان کے انقلاب کو ایک کامیاب اسلامی انقلاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح طالبان نے افغانستان میں امن قائم کیا ہے وہ اس دور میں اور کوئی نہیں کر سکا اور یہ اسلامی احکام کے نفاذ کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اسلام اور پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں اس لیے ہمیں مغرب کے دباؤ کے تحت طالبان کو ناراض نہیں کرنا چاہیے اور ان سے ہر ممکن تعاون کرنا چاہیے۔

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۴ اپریل ۲۰۰۰ء کے مطابق ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ افغان خواتین کے بارے میں مغرب منفی پراپیگنڈا کر رہا ہے اور طالبان ہماری جنگ لڑ رہے ہیں جس کا ہمیں احساس تک نہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت ہمارے مفاد میں نہیں ہے اور ہم نے مغرب کے کہنے پر طالبان کا ساتھ چھوڑا تو ہمیں شدید نقصان ہو گا۔

جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کا شمار ہمارے ملک کے لبرل دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمیشہ علماء کے طبقہ کی مخالفت کی ہے، اور اجتہاد کے نام پر اسلامی احکام و قوانین کی جدید تعبیر و تشریح کی بات کی ہے۔ حتٰی کہ ڈاکٹر جاوید اقبال ترکی کی ان اصلاحات کی بھی حمایت کرتے رہے ہیں جن کے تحت مصطفٰی کمال اتاترک نے خلافتِ عثمانیہ اور اس کے ساتھ اسلامی قوانین کے پورے نظام کو ترکی سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب موصوف کا دورہ افغانستان اور ذاتی مشاہدہ کی بنیاد پر ان کی طرف سے طالبان کی حکومت کی حمایت کا یہ رجحان بلاشبہ حالات میں بہت بڑی تبدیلی کی غمازی کرتا ہے، اور طالبان کی اسلامی حکومت کی مخلصانہ پالیسیوں کی شہادت دیتا ہے۔

اس لیے ہم ملک کے دیگر دانشوروں سے بھی یہی گزارش کریں گے کہ وہ مغربی میڈیا کے پروپیگنڈا پر انحصار کرنے کی بجائے خود افغانستان جا کر حالات اور حقائق کا مشاہدہ کریں اور اپنے مظلوم اور غیور افغان مسلم بھائیوں کو اس مشکل اور نازک مرحلہ سے وقار اور کامیابی کے ساتھ باہر نکالنے میں ان سے عملی تعاون کی کوئی صورت نکالیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter