روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۱۶ دسمبر ۲۰۰۱ء کے کالم سرِراہے میں رائٹر کی اس خبر کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ترکی کے وزیراعظم بلند ایجوت نے ترک خواتین پر پابندی لگا دی ہے کہ وہ اسکرٹ پہنیں اور بالخصوص سرکاری ملازمت کرنے والی خواتین دفتروں میں پاجامے کی بجائے اسکرٹ پہن کر آئیں۔ مگر ترک خواتین کی ایک بڑی تعداد نے اس حکم کو تسلیم نہیں کیا اور وہ احتجاج کے طور پر پاجامہ پہن کر دفتر میں آ رہی ہیں۔
اس سے قبل روزنامہ جنگ لاہور نے ۲۳ نومبر کو خبر دی تھی کہ ترک پارلیمنٹ نے ایک قانونی بل منظور کیا ہے جس کے تحت خاندانی قوانین میں ترمیم کر کے خاندانی نظام میں خاوند کے سربراہ ہونے کی حیثیت کو ختم کر دیا گیا ہے اور دونوں کو برابر حیثیت دے دی گئی ہے۔ خبر کے مطابق قانون میں یہ بھی ہے کہا گیا ہے کہ شادی کے دوران میاں بیوی کے کمائے ہوئے اثاثے دونوں کی مشترکہ ملکیت ہوں گے، خبر میں بتایا گیا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد یورپی یونین کا رُکن بننے کی ضروریات پوری کرنا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ترکی نے اسلامی معاشرہ سے پیچھا چھڑانے اور ہر معاملہ میں یورپ کی تقلید کے لیے اب تک جو کچھ کیا ہے وہ کافی نہیں ہے، اور اسے یورپی برادری میں شامل ہونے کے لیے ابھی اور بہت کچھ کرنا ہے۔ اسی سے ہمارے ان مسلم حکمرانوں اور دانشوروں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو مغرب کی قیادت میں عالمی برادری کا اہم حصہ بننے کے لیے بے چین ہیں، اور انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک وہ اپنے دین اور کلچر کی آخری علامت سے بھی دستبردار نہیں ہو جاتے یورپ اور موجودہ عالمی برادری انہیں کوئی اہم مقام اور کردار دینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہو گی۔