رابطہ عالم اسلامی کی سالانہ کانفرنس ۱۸ سے ۲۰ ستمبر تک مکہ مکرمہ میں منعقد ہوئی۔ پہلے سے علم ہوتا تو اس میں بطور مبصر یا اخبار نویس تھوڑی دیر کے لیے حاضری کی کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرتا اس لیے کہ ۱۸ ستمبر کو میں جدہ میں تھا، لیکن ۱۹ ستمبر کو جب میں سعودی عرب میں ایک ہفتہ گزار کر لندن کے لیے روانہ ہو رہا تھا تو اخبارات میں اس کانفرنس کے آغاز کی خبر پڑھی۔ یہ کانفرنس ہر سال ہوتی ہے اور اس میں دنیا بھر سے رابطہ کے ارکان اور مدعوین شرکت کرتے ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی مسلمانوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے، اس حوالہ سے کہ اس کی سرگرمیاں پورے عالم اسلام تک پھیلی ہوئی ہیں اور بالخصوص غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کی دینی، تعلیمی اور رفاہی سرگرمیوں میں تعاون اور راہ نمائی کرتی ہے۔ ہیڈ کوارٹر مکہ مکرمہ میں ہے اور سعودی حکومت کی سرپرستی میں اس کی سرگرمیاں انجام پاتی ہیں، اگرچہ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی اس طرح کی کوئی عالمی تنظیم ایسی ہو جو حکومتی اثرات سے آزاد رہ کر اہل علم ودانش کی آزادانہ راہ نمائی میں دینی، علمی وفکری راہ نمائی کا فریضہ سرانجام دے۔ عرب دنیا کے معروف دانش ور اور عالم دین الشیخ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اس کے لیے کوشش بھی کی تھی اور لندن میں ایک بڑی بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد کی تھی مگر بوجوہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ چند سال قبل ورلڈ اسلامک فورم نے بھی اس سمت توجہ دی تھی اور مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ اور راقم الحروف نے مختلف ممالک کے علماء کرام اور دانشوروں سے رابطے کر کے لندن میں دس بارہ ملکوں کے ارباب علم ودانش کے مشاورتی اجتماع کا اہتمام کیا تھا لیکن اس کے لیے وقت، ٹیم اور وسائل کی جو فراوانی ضروری ہے، اس کا حصول ہمارے بس کی بات نہیں تھی اس لیے ہم نے بھی یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا۔
ایسے میں رابطہ عالم اسلامی اور موتمر عالم اسلامی جیسی تنظیموں یا اداروں کا وجود غنیمت نظر آتا ہے کہ کچھ ارباب فکر ودانش کو سال میں ایک دو بار بیٹھنے اور باہمی تبادلہ خیالات کا موقع مل جاتا ہے اور سعودی حکومت کی ترجیحات کے مطابق ہی سہی، عالم اسلام بالخصوص غیر مسلم اکثریت کے ممالک میں مسلمان اداروں کو اپنی تعلیمی، رفاہی اور دینی سرگرمیوں کے لیے تعاون اور سرپرستی حاصل ہو جاتی ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کی اس سالانہ کانفرنس کا آغاز حسب معمول سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فہد کے پیغام سے ہوا جو گورنر مکہ مکرمہ شاہزادہ عبد المجید نے پڑھ کر سنایا اور جس میں انہوں نے عالم اسلام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کی تلقین کرتے ہوئے مسلم ممالک کے بیشتر حکمرانوں کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں پوری طرح شریک ہیں۔ روزنامہ ’’اردو نیوز‘‘ جدہ کی رپورٹ کے مطابق شاہ فہد نے اس پیغام میں کہا ہے کہ:
’’اسلام کے متعلق غلط تصور ہی کے باعث بعض نوجوان امت مسلمہ کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں اور تشدد کے راستے پر چل رہے ہیں۔ سعودی عرب نے تشدد اور اس کے پیروکاروں کے خلاف شاندار موقف اختیار کیا ہے اور مملکت کی قیادت نے اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور والیان ریاست کی سرتابی کرنے والوں کے خلاف کتاب وسنت کے مطابق موقف اپنایا ہے اور واضح کیا ہے کہ تشدد کے راستے پر چلنے والے شیطان کے فریب میں آکر امت کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔‘‘
یہ موقف صرف شاہ فہد کا نہیں بلکہ موجودہ مسلم حکمرانوں کی اکثریت کا ہے جو امریکہ، اسرائیل، روس اور بھارت کی جارحیت اور ریاستی جبر کے خلاف نبرد آزما مجاہدین کی جدوجہد کو اپنے خلاف قرار دیتے ہوئے ان کی کردار کشی اور انہیں کچلنے میں مصروف ہیں، حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ عالم اسلام کی جہادی تحریکوں کا اصل ہدف امریکہ وغیرہ کی استعماری پالیسیاں ہیں۔ جہادی تحریکوں کے طرز عمل اور ہتھیار بکف ہونے کی روش سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کا ہدف اصلاً مسلم حکومتیں نہیں ہیں۔ وہ عالم اسلام میں امریکی استعمار کی مداخلت اور روز افزوں جبر وظلم کے خلاف رد عمل میں ہتھیار بکف ہوئے ہیں اور اپنا پورا وزن ان کے مخالف کیمپ میں ڈال دینے والی مسلم حکومتیں بھی فطری طور پر ان کی سرگرمیوں کا ہدف بن رہی ہیں۔
ہمارے خیال میں اگر مسلم حکومتیں ان جہادی تحریکات کے بارے میں امریکی بولی بولنے اور انہیں ریاستی جبر کا نشانہ بنانے کے بجائے صرف یہ اعتماد دلا دیں کہ عالم اسلام کی آزادی، مسلم ممالک کی خود مختاری اور اسلامی اقدار کی سربلندی کے بارے میں وہ ان کے موقف کو اصولی طور پر درست سمجھتے ہوئے ان کے ہتھیار بکف ہونے کے طریق کار کو غلط قرار دیتی ہیں، اور اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو وہ ان کے اصولی موقف کی حمایت اور ترجمانی کرنے کے لیے تیار ہیں، تو بہت سی جہادی تحریکوں کو ہتھیار ڈالنے اور اپنی جدوجہد کو پرامن طریقہ سے آگے بڑھانے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مسلم حکومتیں ملت اسلامیہ کے جذبات کی ترجمانی کے لیے تیار نہ ہوں اور عالم اسلام کے خلاف بڑھتی ہوئی استعماری یلغار کو روکنے کے لیے کسی ٹھوس منصوبہ بندی پر بھی آمادہ نہ ہوں بلکہ صرف ہتھیار اٹھانے والوں کو کوس کر اور انہیں ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر یہ سمجھ لیں وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہی ہیں، تو یہ نہ صرف مسلم امہ کے ساتھ ظلم و ناانصافی ہے اور خود کو فریب میں رکھنا ہے، بلکہ مسلم امہ اور ممالک کے مستقبل کے حوالہ سے بھی انتہائی خطرناک بات ہے کیونکہ آزادی، خود مختاری اور اسلامی اقدار کے تحفظ کے بارے میں امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی اور نمائندگی کا اہتمام نہیں ہوگا تو رد عمل، تشدد اور اشتعال میں مزید اضافہ ہوگا اور ہتھیار اٹھانے والوں کی تعداد میں کمی کے بجائے ان کی تعداد اور سرگرمیاں بڑھتی چلی جائیں گی جو موجودہ مسلم حکومتوں کے لیے بھی خطرات میں اضافہ کا باعث بنیں گی۔
ہم ہتھیار اٹھانے کی پالیسی کی حمایت نہیں کر رہے۔ خود ہمارا موقف بھی یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ہتھیار بکف ہونے کے بجائے حالات میں تبدیلی اور اصلاح کے لیے پرامن جدوجہد کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر باہمی اتحاد، ربط و مشاورت، علم و حکمت اور فہم و دانش کی بنیاد پر عالم اسلام کی آزادی، مسلم ممالک کی خود مختاری اور اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے مربوط اور منظم جدوجہد کی جائے تو استعماری قوتوں کو مسلم ممالک میں مداخلت سے باز رکھا جا سکتا ہے اور ان کی یلغار کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم ہتھیار اٹھانے والوں کی مجبوری کو بھی سمجھتے ہیں اور ان کے اضطرار کے اسباب پر نظر رکھتے ہیں اس لیے ہم ان کے طریق کار کی مبینہ غلطی کو اسلام اور ملت اسلامیہ سے سرتابی اور انحراف قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ہمیں اس وقت تعجب ہوتا ہے اور ہماری حیرت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جب بہت سے مسلم حکمران اپنی حکومتوں اور پالیسیوں کے دفاع میں اسلام کا حوالہ دیتے ہیں اور قرآن و سنت کا نام لیتے ہیں، کیونکہ یہ احکام تو انہیں یاد رہتے ہیں کہ کسی مسلمان حکومت کے خلاف بغاوت اور خروج کی شرائط کیا ہیں اور مسلم حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کی شرعی پوزیشن کیا ہے، لیکن خود ان حکمرانوں کے لیے قرآن و سنت میں جو احکام و قوانین موجود ہیں اور جن پر عملداری کا اہتمام مسلم حکمران کی حیثیت سے ان کی بنیادی ذمہ داری ہے، ان میں سے کوئی بھی ان کے حافظہ اور یادداشت میں محفوظ نہیں ہے۔ حالانکہ اگر بات کتاب و سنت کی ہو اور ہمارے مسلم حکمران اپنی حکومتی اور ریاستی پالیسیوں میں قرآن و سنت کی ہدایات کا لحاظ کرنے لگیں تو سرے سے یہ مسائل ہی پیدا نہ ہوں اور کسی کے لیے اسلام کے نام پر ہتھیار اٹھانے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔
ہتھیار اٹھانے والے غلط ہیں یا صحیح، مگر ان کے پاس اپنے اس عمل کے جواز کی ایک ہی دلیل ہے کہ مسلم ممالک میں قرآن و سنت کے احکام کی عمل داری کا اہتمام نہیں ہے، مغرب کا فلسفہ و نظام اس خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم معاشروں میں دراندازی کر رہا ہے، اور مسلم حکومتوں اور ممالک کے داخلی معاملات میں استعماری قوتوں کی مسلسل اور ہمہ گیر مداخلت نے مسلم ممالک کی آزادی اور خود مختاری کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ اگر مسلم حکمران اپنے اپنے ملکوں میں قرآن و سنت کی عمل داری کا اہتمام کر کے اور اپنی آزادی اور خود مختاری کو بیرونی مداخلت سے محفوظ کر کے ان مبینہ دہشت گردوں سے جواز کا یہ ہتھیار چھین لیں تو دوسرے ہتھیار خودبخود ان کے ہاتھوں سے گر جائیں گے اور ان میں وہ ہتھیار اٹھانے کی سکت ہی باقی نہیں رہے گی۔
رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد اللہ المحسن الترکی نے بھی مذکورہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس عنوان پر گفتگو کی ہے مگر ان کا تجزیہ قدرے مختلف ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ:
’’اسلام کا بین الاقوامی ثقافتی حل پیش نہ کرنے اور اس سلسلہ میں اصحاب علم وفکر کے پس وپیش والے مسلک نے منحرف فہم، برخود غلط فکر رکھنے والوں، خود ساختہ دینی داعیوں اور کوتاہ اندیشوں کو اپنے افکار وخیالات پھیلانے اور انتشار واضطراب پیدا کرنے کا موقع مہیا کر دیا اور اسی رویے نے دیگر افراد کو خوارج کا طریقہ کار اپنا کر تشدد کے راستے پر چلنے کی راہ ہموار کی۔‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر عبد اللہ محسن ترکی کا یہ تجزیہ زیادہ حقیقت پسندانہ ہے کیونکہ اس میں صرف الزام عائد کرنے کے بجائے اسباب پر بحث کی گئی ہے اور رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے مسلم معاشرہ میں اسلام کے حوالے سے ملت اسلامیہ کے اجتماعی موقف سے ہٹ کر انفرادی طور پر پیش کیے جانے والے خیالات اور تشدد کی تحریکات کا ذکر کرتے ہوئے ان دونوں کا بڑا سبب مسلم علماء کرام اور دانشوروں کی بے حسی اور بے توجہی کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بدلتے ہوئے عالمی حالات اور تہذیبی چیلنجز کو مسلم علماء اور دانشوروں کی طرف سے نظر انداز کیے جانے اور روایتی دینی حلقوں کے اپنی اپنی کھال میں مست رہنے کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اس فکری انتشار اور خلفشار کا شکار ہیں۔
ہمیں اس بات سے اتفاق ہے اور ان صفحات میں کئی بار ہم عرض کر چکے ہیں کہ مسلم دنیا کے علمی مراکز اور دینی اداروں نے اپنے اپنے ماحول پر قناعت کر کے عالمی حالات اور جدید علمی وفکری چیلنجز سے آنکھیں بند کرنے کی جو روش اختیار کر رکھی ہے، وہ نہ صرف نقصان دہ بلکہ تباہ کن ہے اور اس کے جو تلخ ثمرات ونتائج سامنے آ رہے ہیں، ان کی تلافی وقت گزر جانے پر ممکن نہیں رہے گی۔ خدا کرے کہ علماء کرام، دینی ادارے اور علمی مراکز اپنی اس ذمہ داری کا صحیح طور پر بروقت احساس کر سکیں کیونکہ ملت اسلامیہ کی صحیح فکری راہ نمائی کا اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے، آمین یا رب العالمین۔