ترکی میں اسلامی اقدار کے اَحیا کی جدوجہد

   
۴ جون ۱۹۹۷ء

ترکی کے وزیر اعظم جناب نجم الدین اربکان کے خلاف قومی اسمبلی میں مخالف پارٹیوں کی طرف سے پیش کی جانے والی تحریکِ مذمت گزشتہ دنوں سات ووٹوں سے ناکام ہو گئی۔ بی بی سی کے ایک نشریہ کے مطابق یہ تحریک فوج کے دباؤ کے تحت پیش کی گئی تھی لیکن اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

ترکی کم و بیش پانچ سو برس تک عالم اسلام کا بازوئے شمشیر زن رہا ہے، وہ خلافتِ عثمانیہ کا مرکز تھا جس نے صدیوں تک عالمِ اسلام کی قیادت کی ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کا یہ تسلسل موجودہ صدی کی تیسری دہائی تک قائم رہا اور حرمین شریفین اور بیت المقدس سمیت کم و بیش تمام عرب علاقوں پر خلافتِ عثمانیہ کا پھریرا لہراتا رہا۔ یورپین اقوام کو ملتِ اسلامیہ کی یہ مرکزیت ہمیشہ سے کھٹکتی چلی آ رہی تھی، چنانچہ مسلسل سازشوں کے نتیجے میں ۱۹۲۴ء میں خلافتِ عثمانیہ کو ختم کر کے ترکی میں سیکولر جمہوریت کے نفاذ کا اعلان کر دیا گیا۔ مصطفیٰ کمال اتاترک نے نہ صرف خلافت کے خاتمہ کا اعلان کیا بلکہ عدالتوں میں نافذ اسلامی قوانین بھی ختم کر دیے، اسلامی تعلیم کے مدارس بند کر دیے، عربی زبان ممنوع قرار دے دی، حتیٰ کہ عربی میں اذان اور قرآن کریم کی تلاوت و اشاعت بھی شجرِ ممنوعہ قرار پائی، مغربی لباس لازمی قرار دے کر عورتوں کے لیے برقع اور مردوں کے لیے ٹوپی کے استعمال کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا، اور اس طرح کے دیگر اقدامات کے ذریعے قانون اور حکومت کی طاقت سے خلافت بلکہ اسلام کے اثرات کو سوسائٹی سے ختم کرنے کی ایک وسیع مہم چلائی گئی، اور آئین میں ترک فوج کو سیکولرازم کے ان اقدامات و روایات کا محافظ قرار دے دیا گیا۔

لیکن ترکی کی پچانوے فیصد آبادی کے حامل مسلم عوام کو زیادہ دیر تک اس فضا میں نہ رکھا جا سکا اور اس کے ردِعمل نے جلد ہی ابھرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں صدر جلال بایار اور وزیر اعظم عدنان میندریس شہیدؒ نے، جو اسلامی روایات کے احیا کے وعدہ کے ساتھ انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آئے تھے، ان پابندیوں کو نرم کرنا شروع کیا۔ عربی زبان میں اذان اور قرآن کریم کی اشاعت کی اجازت دی گئی، بہت سی نئی مساجد کھلیں، دینی تعلیم کا حق بحال کیا گیا، اور اس طرح دھیرے دھیرے مذہبی سرگرمیاں پھر سے نظر آنے لگیں۔ مگر فوج کو یہ صورتحال گوارا نہ ہوئی، چنانچہ جنرل جمال گورسل نے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ترکی کی سیکولر حیثیت کے تحفظ کے نام پر عدنان میندریس کو پھانسی دے دی گئی۔ جبکہ صدر جلال بایار کی عمر رسیدگی آڑے آئی اور وہ پھانسی کی بجائے قید کی سزا کے مستحق ٹھہرے۔ اور اس طرح اسلامی روایات اور مذہبی اقدار کی بحالی کی جدوجہد کا پہلا دور وزیر اعظم عدنان میندریس شہیدؒ کی شہادت پر مکمل ہوا۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

ترکی میں ماضی کی طرف واپسی اور اسلامی روایات و تشخص کے احیا کی عوامی جدوجہد کا یہ دوسرا دور ہے، جس کی قیادت موجودہ وزیر اعظم جناب نجم الدین اربکان کر رہے ہیں۔ نجم الدین اربکان رفاہ پارٹی کے لیڈر ہیں جو ترک پارلیمنٹ میں بتدریج ہر انتخاب میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرتے ہوئے گزشتہ عام انتخابات میں سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی ہے۔ لیکن سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر ہوتے ہوئے بھی وہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور انہیں دو حریف سیکولر پارٹیوں مسعود یلماز کی مدر لینڈ پارٹی اور تانسو چیلر کی ٹروپاتھ پارٹی میں سے ایک یعنی تانسو چیلر کی پارٹی کے ساتھ اشتراک کر کے مخلوط حکومت بنانا پڑی، جس کی وجہ سے وہ اپنے پارٹی پروگرام پر آزادی کے ساتھ عمل پیرا نہ ہو سکے۔ تاہم ملک میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کی حوصلہ افزائی کی اور بیرون ملک ایران اور لیبیا جیسے امریکہ مخالف ممالک کا دورہ کر کے، اور آٹھ مسلم ممالک کا اقتصادی گروپ قائم کرنے کی طرف پیشرفت کر کے انہوں نے اپنی حکومت کے رجحانات کو واضح کر دیا اور یہ بات ان کی حکومت کے خلاف ایک نئی محاذ آرائی کا باعث بن گئی۔

ترکی میں اسلامی روایات کے احیا سے مغرب کس قدر خوفزدہ ہے؟ اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نے ایک انٹرویو میں اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ مغرب کے مفاد میں ترکی کا سیکولر رہنا ضروری ہے۔ اور چند ماہ قبل نجم الدین اربکان کی حلیف سیکولر پارٹی کی سربراہ اور ان کی وزیر خارجہ تانسو چیلر نے ایک تقریب میں سکارف باندھ کر شرکت کی اور اپنی تقریر کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا تو لندن کے اخبارات نے اس پر شذرے تحریر کیے اور اسے خطرے کی گھنٹی قرار دیا۔ لیکن اس شدید دباؤ کے باوجود نجم الدین اربکان کی حکومت بڑی حکمت عملی اور تدبر کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ چنانچہ ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہاں شراب کی دکانیں بتدریج کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں، حالانکہ ۱۹۸۵ء میں جب راقم الحروف، مولانا منظور احمد چنیوٹی اور مولانا محمد ضیاء القاسمی لندن جاتے ہوئے ایک روز کے لیے استنبول ٹھہرے تھے تو شام کی چائے کے لیے بازاروں میں مسلسل ایک گھنٹہ اس غرض سے گھومتے رہے کہ چائے کی کوئی ایسی دکان مل جائے جو شراب سے خالی ہو، مگر اس میں کامیابی نہیں ہوئی تھی اور وہ شام ہمیں بغیر چائے کے گزارنا پڑی تھی۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں اربکان حکومت کی مخالفت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے ان کے خلاف پارلیمنٹ میں دو مرتبہ تحریک پیش ہو چکی ہے۔ ترکی کے آئین کے تحت فوج اقتدار میں باضابطہ طور پر شریک ہے اور قومی سلامتی کونسل کے بالادست حصے کے طور پر ملکی معاملات کو کنٹرول کرتی ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ وہ آئینی طور پر ترکی کی سیکولر حیثیت کی محافظ ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی اجازت نہیں دے گی، چنانچہ ترک افواج کے سربراہ جنرل اسماعیل حقی کئی بار اربکان حکومت کے زیر سایہ اسلامی سرگرمیوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مداخلت کی دھمکی دے چکے ہیں۔ اور ربع صدی قبل عدنان میندریس حکومت کا انجام سامنے رکھتے ہوئے اس دھمکی کا مطلب سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔

اسی سلسلہ میں گزشتہ ماہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں فوجی حکام نے نجم الدین اربکان کی حکومت کے سامنے اٹھارہ نکات پر مشتمل ایجنڈا پیش کیا اور اس پر ایک ماہ کے اندر عملدرآمد کا الٹی میٹم دے دیا، اس اٹھارہ نکاتی ایجنڈے میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ یہ مطالبات بھی شامل ہیں کہ

  1. راسخ العقیدہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو روکا جائے۔
  2. ۱۹۳۳ء میں کمال اتاترک کے نافذ کردہ سیکولر جمہوری نظام کی مکمل حفاظت کی جائے۔
  3. اسلامی تعلیمات کے سکول اور ٹی وی اور ریڈیو سے اسلامی تعلیمات کی اشاعت کے پروگرام بند کیے جائیں اور اس کی جگہ سیکولرازم کی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔
  4. سکولوں اور دفاتر میں عورتوں کو سکارف پہننے کی اجازت واپس لی جائے۔
  5. مذہبی لباس پر پابندی لگائی جائے اور مذہبی تنظیموں کے مالی معاملات کی سختی کے ساتھ چھان بین کی جائے۔

وزیر اعظم نجم الدین اربکان نے ان مطالبات پر یہ کہہ کر وقتی طور پر فوجی حکمرانوں کو خاموش کر دیا ہے کہ ان کی پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے گی اور اس کے بعد ان پر عملدرآمد ہوگا۔ لیکن یہ خاموشی عارضی ہے اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اربکان حکومت زیادہ دیر اس کیفیت میں نہیں چل سکتی۔ اسے یا تو دوبارہ انتخابات کے لیے عوام کے سامنے جانا ہو گا اور یا پھر فوجی مداخلت کا سامنا کرنا پڑے گا، جو سیکولرازم کے تحفظ کے لیے صرف زبانی دھمکیاں نہیں دے رہی بلکہ خاموشی کے ساتھ عملی اقدامات بھی کرتی جا رہی ہے۔ چنانچہ اربکان حکومت کی پالیسی کے علی الرغم ملک میں دینی تعلیم کے اداروں کو بند کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور اب تک دو درجن سے زائد دینی اداروں کو بند کیا جا چکا ہے، اور وزارتِ داخلہ کے اعلان کے مطابق مزید ہزاروں مذہبی سکولوں کو بند کرنے کے لیے چھاپے مارنے کا پروگرام طے کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح فوج نے اسرائیل کے ساتھ مشترکہ بحری مشقوں کا معاہدہ کر کے عربوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے لیے اربکان حکومت کی پالیسی پر بھی کاری ضرب لگا دی ہے، یہ بحری مشقیں امریکہ، اسرائیل اور ترکی مل جل کر کریں گے اور اس کے لیے باقاعدہ معاہدہ ہو چکا ہے۔

نجم الدین اربکان کی یہ خوبی ہے کہ وہ اشتعال میں نہیں آتے اور جذبات کی بجائے تدبر اور حکمت سے کام لیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ معروضی حالات میں کہاں آگے بڑھنا ہے، کہاں رک جانا ہے اور کہاں مجبوراً ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے۔ وہ ووٹ کی قوت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کے ووٹ بینک میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ منطق اور استدلال کی زبان میں بات کرتے ہیں اور ذہنوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور وہ جمہوریت کے نام پر مسلط کی جانے والی لادینیت کو جمہوریت ہی کے ہتھیار سے شکست دینا چاہتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف جمہوریت کے نام نہاد علمبردار رائے عامہ اور ووٹ کی بالا دستی کو تسلیم کرنے کی بجائے فوجی جنتا کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں، اور الجزائر کی طرح ترکی میں بھی ووٹ اور رائے عامہ کو اس کا جائز جمہوری حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بہرحال عظیم برادر ملک ترکی میں اسلام اور لادینیت کی اس کشمکش میں ہم جناب نجم الدین اربکان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے خلوص دل سے دعاگو ہیں، آمین يا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter