قادیانی سرگرمیاں اور سرکاری تفتیشی ادارے

   
۱۱ دسمبر ۱۹۸۷ء

تحریک پاکستان کے کارکن مولانا عبد القدوس بہاری نے کہا ہے کہ تعلقہ میرپور خاص کی ۱۳ ہزار ایکڑ الاٹ شدہ زمین ۹۰ لاکھ روپے میں فروخت کر کے رقم بھارت سمگل کر دی گئی ہے۔ حالانکہ اس زمین پر بلوچ ہاری اور مہاجرین آباد تھے جن کے مکانات کو بلڈوزروں کے ذریعے مسمار کر دیا گیا ہے۔ نیز کراچی کے ایک ہوٹل کی لاکھوں روپے کی ماہانہ آمدنی قادیان سمگل ہو رہی ہے لیکن ان واقعات سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔ (روزنامہ مشرق، کراچی ۔ ۱۴ نومبر ۱۹۸۷ء)

نظام مصطفٰیؐ گروپ کے رکن ممبر قومی اسمبلی حافظ محمد تقی نے کہا ہے کہ اس امر کے ناقابل تردید شواہد ملے ہیں کہ کراچی کے حالیہ خونریز ہنگاموں کے پیچھے قادیانیوں کا ہاتھ ہے جنہوں نے ملت اسلامیہ پر شب خون مار کر انتشار و افتراق کی ایسی فضا قائم کر دی ہے کہ جس کی وجہ سے نفرتوں، عداوتوں اور مصیبتوں کے طوفان کھڑے ہوگئے ہیں۔ (روزنامہ نوائے وقت، کراچی ۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۸۷ء)

قادیانیوں کی وطن دشمن سرگرمیوں کے بارے میں اس قسم کی خبریں وقتاً فوقتاً اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں جن سے ان کے مذموم عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن معلوم نہیں حکومتِ پاکستان کے تفتیشی اور سراغرساں اداروں کو کس بات پر اطمینان ہے کہ یہ خبریں ان کے نوٹس میں آنے کے بعد بھی ضروری توجہ سے محروم رہتی ہیں۔ اور حکومت بھی ان سنگین امور کے بارے میں صحیح صورتحال کی وضاحت کر کے ملک کے عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔

سراغرسانی اور تفتیش کے سرکاری اداروں کا کام صرف سیاست دانوں اور علماء کا پیچھا کرنا نہیں بلکہ وطن دشمن عناصر کی سرگرمیوں کا تعاقب کرنا اور ان کو بے نقاب کر کے ملک و قوم کو ان سے بچانا بھی ان اداروں کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ مندرجہ بالا سنگین امور کے بارے میں صحیح صورتحال کی وضاحت کر کے عوام کو مطمئن کرے۔

   
2016ء سے
Flag Counter