بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کافی عرصے کے بعد درسِ قرآن ڈاٹ کام میں حاضری کا اور دوستوں سے ملاقات کا موقع مل رہا ہے۔ بڑی خوشی ہوتی ہے سرگرمیاں دیکھ کر اور تسلسل دیکھ کر۔ اللہ پاک قبول فرمائیں اور مزید برکات، ترقیات نصیب فرمائیں۔ آج میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک پہلو پر کچھ تھوڑی سی گزارشات عرض کرنا چاہوں گا۔ وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک شکایت کافی عرصے سے موجود ہے لیکن اب بڑھتی جا رہی ہے۔ ہماری نئی نسل کے بارے میں، نوجوانوں کے بارے میں، کہ ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات ابھر رہے ہیں، اور ان کو دور کرنے کا کوئی نظم موجود نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے۔
ہماری وہ نئی نسل جو کالج اور یونیورسٹی تک جاتی ہے، بچے ہوں یا بچیاں، میرا بھی مشاہدہ یہی ہے کہ ان کے ذہنوں میں کنفیوژنز، شکوک، شبہات آتے ہیں۔ فطری بات ہے۔ میں اس پر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اس کے اسباب کا جائزہ لینا چاہیے۔ میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی بے علمی اور بے خبری ہے۔ ہمارے ہاں اپنی اولاد کو، نئی نسل کو، اپنے مستقبل کو، دین کی بنیادی معلومات سے باخبر کرنے اور دین کا بنیادی علم فراہم کرنے کا کوئی نظم موجود نہیں ہے۔ وہ بچے جو مسجد یا دینی مدرسے سے وابستہ ہوتے ہیں تو کچھ معلومات مل جاتی ہے ان کو، بیس بھی مل جاتی ہے، ذہن بھی مل جاتا ہے۔ لیکن جن کا تعلق کسی مدرسے یا مسجد سے براہ راست نہیں ہے، یا کسی دینی شخصیت کے ساتھ عقیدت کا تعلق نہیں ہے، وہ عام طور پہ دینی معلومات سے بے خبر رہتے ہیں اور دین کی بنیادی باتوں سے بے علم رہتے ہیں۔ جس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کوئی سسٹم ہی نہیں ہے۔ اور جو ہمارے تعلیم کے اور ذرائع کے ادارے ہیں ان کا ایجنڈا ہی اور ہے۔ ہمارے ابلاغ کے ذرائع جو ہیں، میڈیا کے، اور ایجوکیشن کے جو ذرائع ہیں، ان کے ایجنڈے میں یہ بات شامل نہیں ہے کہ ہم نے اپنے مستقبل کی اس پود کو دین سے، دینی معلومات سے، دینی شخصیات سے، اپنے تہذیبی پس منظر سے، اپنے اخلاقی ماحول سے وابستہ رکھنا ہے۔ ان کے ایجنڈے میں یہ بات شامل نہیں ہے۔
اور بے خبری کا یہ ماحول، ظاہر بات ہے جب ایک نوجوان کو دین کی بنیادی باتوں کا علم نہیں ہو گا، اور اس کے خلاف بہت سی باتیں ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے بھی، اس کے کانوں میں بھی، اس کے فکر میں بھی، اس کے مطالعے میں بھی آتی رہیں گی، تو کنفیوژن پیدا ہونا فطری بات ہے، اس پہ اس کا قصور کوئی نہیں ہے۔ میں اپنے حضرات سے کہا کرتا ہوں کہ ہمیں اسباب کا جائزہ لینا چاہیے اور نئی نسل کو، اپنے بچوں اور بچیوں کو، بالخصوص وہ بچے اور بچیاں جو کالج کے دور تک چلے جاتے ہیں اور یونیورسٹی میں آگے ان کا حق ہے جانا، ان کو دین کی بنیادی معلومات فراہم کرنے کا کوئی سسٹم ضرور بنائیں۔
سب سے پہلے تو ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔ ماں باپ نہیں کرتے تو ماحول میں جو یہ تعلیمی ادارے ہیں ان کا کام ہے۔ کم از کم قرآن پاک پڑھنا آتا ہو۔ قرآن پاک کے ساتھ فہم کا تعلق ہو۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت اور محبت کا تعلق تو ہے ہی، فہم اور شعور کا تعلق نہیں ہے۔ حضورؐ کی سیرت کیا ہے، ارشادات کیا ہیں، حضورؐ کے اخلاقیات کیا تھے۔ دین کی بنیادی باتوں کا، نماز، روزہ، فرائض، واجبات، حلال، حرام، اور حقوق، معاملات آپس کے، یہ دینی حوالے سے ہمیں معلوم نہیں ہوتے۔ معاشرے میں ہوتے ہیں۔ تو یہ پہلی بات تو میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے۔ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ اس کا فکر کرے۔
قرآن پاک نے ارشاد فرمایا ہے ’’یا ایھا الذین اٰمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا‘‘ (التحریم ۶) ارشادِ ربانی ہے کہ اے ایمان والو! خود تو دوزخ سے بچنے کی کوشش کرتے ہو لیکن یہ کافی نہیں ہے، اپنے گھر کے ماحول کو، اپنے بچوں کو، بیوی کو، اپنے ماحول کے لوگوں کو بچانے کی کوشش بھی کرو۔ یہ ذمہ داری ہے ہماری۔ ایک بات تو یہ کہ ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے اور اپنے بچوں اور بچیوں کو اور نوجوانوں کو دین کی بنیادی معلومات سے باخبر رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب ہم اپنے بچوں سے یا نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہیں تو بجائے اس کے کہ ہم بنیادی معلومات فراہم کریں، ہم انہیں مباحث میں الجھا دیتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ مباحث کی بات آتی ہے لیکن وہ بہت بعد میں آتی ہے۔ ابتدائی ضرورت ان کی قرآن پاک ہے، قرآن پاک کا فہم ہے، ترجمہ قرآن پاک ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہے، حلال حرام کے مسائل ہیں، اور اسلامی تہذیب اور اسلامی اخلاقیات کی بنیادی چیزیں ہیں۔ بنیادی ضرورت ان کی یہ ہے، باقی باتیں آگے کی ہیں۔
یہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ان کی ضرورت، ان کی ذہنی سطح، ان کا فکری دائرہ، جس کو آج کی زبان میں فریکوئنسی ملانا کہتے ہیں۔ ہماری ایک کمزوری یہ ہے کہ ہم جس سے مخاطب ہوتے ہیں، فریکوئنسی سیٹ کیے بغیر باتیں کرتے ہیں۔ وہ پھر مؤثر نہیں ہوتیں۔ اور بسا اوقات الٹا اثر ہوتا ہے ان کا۔ دوسری بات میں نے یہ کی ہے۔
تیسری بات میں یہ عرض کرنا چاہوں گا، اور یہ بڑی بنیادی بات ہے، کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو طعنہ نہ دیں۔ ان کی باتیں سنیں، ان کی باتوں کے اسباب معلوم کریں۔ ان کو طعن و تشنیع کے ذریعے نہیں، محبت پیار کے ذریعے سمجھائیں۔ میرے پاس کوئی نوجوان آتا ہے، آتے ہیں نوجوان، اور الحمد للہ بہت سے نوجوان اس اعتماد سے آتے ہیں کہ جی آپ کے بارے میں سنا ہے کہ آپ بات سن لیتے ہیں۔ اور میں سن لیتا ہوں اور مسکراتے ہوئے سنتا ہوں۔ بات بسا اوقات غلط بھی ہوتی ہے پھر بھی کہتا ہوں نہیں بیٹا یوں نہیں یوں کر لیں۔ ان کو ڈانٹیں نہیں، ان سے نفرت نہیں کریں، ان سے طعن و تشنیع کی زبان میں نہ بات کریں۔ محبت کی زبان میں بات کریں اور ہمدردی سے بات کریں۔
دیکھیں، ایک مریض ہے، ڈاکٹر اگر اس کو ڈانٹنا شروع کر دے گا تو علاج نہیں کر پائے گا۔ ہم خود کو معالج سمجھیں کہ ہم نئی نسل، اپنے بچوں، اپنی بچیوں؛ یہ ہمارا مستقبل ہے، انہوں نے ہی کام سنبھالنے ہیں سارے۔ ہم انہیں یوں سمجھ کے کہ میں معالج ہوں اور یہ مریض ہے، اس حساب سے، ہمدردی کے ساتھ، محبت کے ساتھ، پیار کے ساتھ، تمام اسباب کو سمجھتے ہوئے بات کرنی چاہیے۔
میں یہ بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کبھی کسی نوجوان کے ذہن کو ٹٹول کر دیکھیں۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں میں کنفیوژنز اور شکوک و شبہات کا جنگل پھیلا ہوا ہے۔ وہ ڈرتے ہوئے بات نہیں کرتے کہ فتویٰ لگ جائے گا، ڈانٹ پڑ جائے گی۔ یہ خوف دور کریں ان کا۔ اعتماد پیدا کریں اور ان کی بات سنیں۔ ان کو سمجھائیں اور محبت کے ساتھ پیار کے ساتھ۔ میں نے کئی نوجوان دیکھے ہیں، وہ الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں، لیکن جب ان سے محبت سے پیار سے بات کی ہے، ان کی کنفیوژن کی وجہ کو سمجھ کر اس کو دور کرنے کی کوشش کی ہے تو نتیجہ مثبت آیا ہے۔
تو یہ آج میں اس حوالے سے کہ اپنے مستقبل کو اور مستقبل کی قیادت کو اور اپنی نوجوان نسل کو صحیح راستے پر رکھنا۔ دو معیار: (۱) کم از کم صحیح مسلمان ہو اور (۲) صحیح پاکستانی ہو۔ مسلمان ہونے کا اپنا دائرہ ہے۔ اور اس کے ساتھ پاکستانی، ملک کے ساتھ محبت، ملک کا مفاد، ملک کے ساتھ تعلق۔ یہ ہم ان دو دائروں میں کوشش کریں کہ اپنی اولاد کو، صرف اولاد کو نہیں، اپنی نئی نسل کو ایک صحیح مسلمان رکھنے کی کوشش کریں اور ایک صحیح پاکستانی بنانے کی کوشش کریں تاکہ یہ ہمارے بچے ہمارے مستقبل کو بہتر انداز میں ڈیل کر سکیں اور اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ اللھم صل علیٰ سیدنا محمدن النبی الامی وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔