مولانا اعظم طارق کی رہائی کا مطالبہ

   
ستمبر ۲۰۰۲ء

جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان نے میانوالی جیل میں اسیر کالعدم سپاہِ صحابہؓ کے سربراہ مولانا اعظم طارق سے ملاقات کر کے ان کی ایک ماہ سے زائد عرصہ سے جاری بھوک ہڑتال ختم کرا دی ہے اور ان کی مسلسل گرفتاری کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے بتایا کہ وہ ان کی رہائی کے لیے متعلقہ حکام سے بات چیت کر رہے ہیں۔

مولانا اعظم طارق کو افغانستان پر امریکی حملہ کے بعد اس کے خلاف ’’دفاعِ پاکستان و افغانستان کونسل‘‘ کی احتجاجی تحریک میں سرگرم کردار ادا کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد سے وہ مسلسل زیر حراست ہیں اور متعلقہ عدالتوں سے ان کی ضمانت ہو جانے بلکہ لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے ان کی رہائی کے واضح حکم کے باوجود انہیں رہا کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ جس پر احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے جیل میں بھوک ہڑتال کر دی تھی۔

مولانا اعظم طارق کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ چونکہ مولانا موصوف جھنگ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبر رہے ہیں، اور اب بھی وہ الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس لیے انہیں الیکشن سے دور رکھنے کے لیے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت زیر حراست رکھا جا رہا ہے، اور یہ بات ان کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے آزادانہ اور شفاف انتخابات کے دعووں کے بھی منافی ہے۔

ہم مولانا فضل الرحمان کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ انہوں نے خود جیل جا کر مولانا اعظم طارق کی بھوک ہڑتال ختم کرائی اور انہیں ان کی رہائی کے لیے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ مولانا فضل الرحمان صاحب، جمعیت علماء اسلام کے دیگر قائدین بلکہ متحدہ مجلسِ عمل کے راہنماؤں سے ہماری درخواست ہے کہ مولانا اعظم طارق اور ان کے علاوہ مولانا محمد مسعود اظہر، پروفیسر حافظ محمد سعید اور دیگر ایسے سینکڑوں گرفتار علماء کرام اور دینی کارکنوں کی رہائی کے لیے سنجیدگی کے ساتھ حکومت سے بات چیت کریں۔ جن کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے برادر اسلامی ملک افغانستان پر امریکہ کے حملہ کے خلاف احتجاج کا جائز حق استعمال کیا اور اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے اپنے مظلوم افغان بھائیوں کا ساتھ دیا۔ ہمیں امید ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی قیادت اس سلسلہ میں سنجیدگی کے ساتھ کوئی قدم اٹھائے تو ان مظلوم دینی راہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی کی صورت نکل سکتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter