اسلامی نظریاتی کونسل نے تین طلاقیں اکٹھی دینے کو تعزیری جرم قرار دینے کی سفارش کی ہے جس پر بعض حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس پر بحث و تمحیص ہو رہی ہے۔ یہ تجویز دراصل مشرف حکومت کے دوران حدود آرڈیننس میں تحفظ حقوق نسواں کے عنوان سے کی جانے والی ترامیم کے موقع پر سرکردہ علماء کرام کی ایک کمیٹی کی طرف سے ستمبر ۲۰۰۶ء کے دوران سامنے آئی تھی۔ اس کمیٹی میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا حسن جان شہیدؒ ، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہید کے علاوہ راقم الحروف بھی شامل تھا۔ کمیٹی نے حدود آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم پر چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی، سردار نصر اللہ خان دریشک اور دیگر حضرات پر مشتمل حکومتی ٹیم سے مذاکرات کیے تھے اور دینی حلقوں کا موقف پیش کیا تھا جسے تحفظ حقوق نسواں بل میں نظر انداز کر دیا گیا۔ اور تحفظ حقوق نسواں ایکٹ کے ذریعہ حدود آرڈیننس کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ اس موقع پر علماء کرام کی مذکورہ بالا کمیٹی نے مجوزہ ترامیم کے بارے میں اپنے تحفظات اور تجاویز کے اظہار کے علاوہ اپنی طرف سے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی تھیں کہ:
- خواتین کو عملاً وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے، اس کے سد باب کے لیے مستقل قانون بنایا جائے۔
- بعض علاقوں میں خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف نکاح پر مجبور کیا جاتا ہے، اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے اور اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔
- بیک وقت تین طلاقیں دینے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے اور ایسی دستاویز لکھنے والے نوٹری پبلک اور وثیقہ نویس کو بھی شریک جرم قرار دیا جائے۔
- جبری وٹہ سٹہ یعنی نکاح شغار کو قانوناً جرم قرار دیا جائے۔
- قرآن کریم کے ساتھ نکاح کی مذموم رسم کا سدباب کیا جائے۔
- عورتوں کی خرید و فروخت اور انہیں میراث بنانے کے غیر شرعی رواج اور رسم کا سدباب کیا جائے۔
بیک وقت تین طلاقیں دینے کو قابل تعزیر جرم قرار دینے کا پس منظر یہ ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں فقہاء نے طلاق کے تین درجات بیان کیے ہیں۔ (۱) ایک یا دو بار صریح طلاق کے بعد نئے نکاح کے بغیر رجوع کی گنجائش ہوتی ہے۔ (۲) طلاق بائن کے بعد دوبارہ نکاح کی صورت میں ہی میاں بیوی اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ (۳) تیسری طلاق واقع ہو جانے پر قرآن کریم نے دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں دی جب تک کہ عورت کا نکاح دوسری جگہ نہ ہو، اور وہاں سے خاوند کی وفات یا طلاق کے ذریعہ فارغ نہ ہو جائے۔ طلاق کے ان تین درجات میں فقہاء کرام نے پہلی صورت کو سنت کے مطابق قرار دیا ہے جبکہ تین طلاقیں اکٹھی دینے کو طلاق بدعی شمار کیا ہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر لوگ طلاق کے مسائل اور اس کی ترتیب و تفصیل سے آگاہ نہیں ہوتے۔ حتیٰ کہ وثیقہ نویس اور نوٹری پبلک حضرات کی اکثریت بھی ان نزاکتوں سے بے خبر ہوتی ہے۔ اس لیے کوئی مسلمان غصہ میں ان کے پاس طلاق لکھوانے کے لیے آتا ہے تو وہ رٹے رٹائے جملے لکھ کر اسے سناتے ہیں اور اس سے دستخط کروا لیتے ہیں جو کہ اکثر اوقات تین صریح طلاقوں کی صورت میں ہی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ایک نئی الجھن کھڑی ہو جاتی ہے کہ چاروں فقہی مذاہب یعنی حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مفتیان کرام کے نزدیک تین طلاقیں ایک مجلس میں یا یکبارگی دینے کی صورت میں وہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں رہتی، اور اس کے ساتھ رجوع یا دوسرے نکاح کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ جبکہ اہل حدیث مکتب فکر کے نزدیک تین طلاقیں اکٹھی دینے کی صورت میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے اور رجوع کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ چنانچہ کوئی شخص عرضی نویس یا نوٹری پبلک سے رٹے رٹائے جملوں میں طلاق لکھوانے کے بعد غصہ ٹھنڈا ہونے پر مفتیان کرام سے رجوع کرتا ہے تو وہ حنفی اور اہل حدیث مفتیان کرام کے درمیان شٹل بن کر رہ جاتا ہے، اور نئے مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے۔
یہ ساری صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ نہ تو طلاق دینے والا طلاق کے درجات اور دیگر نزاکتوں سے واقف ہوتا ہے اور نہ ہی طلاق لکھنے والے کو ان کی خبر یا احساس ہوتا ہے۔ اس مخمصے کا اصل حل یہ ہے کہ نوٹری پبلک اور وثیقہ نویس حضرات کو طلاق و نکاح کے معاملات و مسائل کی تربیت دینے کے لیے باقاعدہ کورس کرائے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ تین طلاقیں اکٹھی دینے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ویسے بھی مباحات میں طلاق مبغوض ترین شمار ہوتی ہے اور تین طلاقیں ایک بار دینے کو فقہاء کرام نے طلاق بدعت قرار دیا ہے۔ اس لیے اس سے پیدا ہونے والے مفاسد کو روکنے کے لیے یہ تجویز پیش کی گئی کہ اسے تعزیری جرم قرار دے دیا جائے اور خاص طور پر نوٹری پبلک اور وثیقہ نویسوں کو تنبیہ کی جائے تاکہ وہ طلاق لکھوانے کے لیے آنے والے کی صحیح راہ نمائی کر کے طلاق سے بچنے یا کم از کم رجعی طلاق تک اسے محدود رکھنے کی کوشش کریں۔