برطانیہ میں مسلمانوں کی دینی تعلیم کا مربوط سلسلہ

   
۲۴ جون ۲۰۰۵ء

برطانیہ کا اس سال کا گرم ترین ویک اینڈ میں نے بہت مصروف گزارا۔ محکمہ موسمیات نے پہلے ہی پیشگوئی کر دی تھی کہ ۱۹ جون کا اتوار اس موسم کا گرم ترین دن ہو گا۔ چنانچہ اس روز لندن کا درجہ حرارت ۳۳ سینٹی گریڈ تھا، مگر گرمی کے آثار ایک دو روز پہلے ہی شروع ہو گئے تھے۔ لیسٹر کے مولانا محمد فاروق مُلا نے مجھے پابند کر رکھا تھا کہ ۱۸ جون کو ہفتہ کا دن ان کے ساتھ گزاروں۔ وہ ہفتہ کے روز چند بستیوں میں قرآن کریم کی تعلیم کے ہفتہ وار مکتب چلاتے ہیں جس کی کلاس ہفتہ میں صرف ایک دن ہوتی ہے۔

بڑے شہروں میں جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، مساجد میں شام کے قرآن مکتب بڑی تعداد میں موجود ہیں جہاں ہزاروں بچے قرآن کریم اور عقائد و عبادات کے حوالے سے دینیات کی ضروری تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ مکاتب عام طور پر شام کو دو گھنٹے کام کرتے ہیں اور پورے برطانیہ میں مسلمانوں کی اکثریت ان سے استفادہ کرتی ہے۔ لیکن دور دراز کے علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور وہ دور دور رہائش رکھتے ہیں، ان کے لیے کسی مسجد یا باقاعدہ مکتب کا اہتمام مشکل ہو جاتا ہے، وہ حضرات ہفتہ وار مکاتب کے ذریعے اس ضرورت کو کسی نہ کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہفتہ میں ایک دن یا دو دن، یعنی ہفتہ اور اتوار، یا ان میں سے کسی ایک دن دو گھنٹے کی کلاس کسی گھر یا کمیونٹی ہال میں ہوتی ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کو لے آتے ہیں اور کوئی نہ کوئی حافظ، قاری یا عالمِ دین انہیں قرآن کریم اور دیگر ضروری باتوں کی تعلیم دیتے ہیں۔

مولانا محمد فاروق مُلا ہفتہ کے روز اس قسم کی تین کلاسیں مختلف بستیوں میں چلاتے ہیں، اور ان کی خواہش تھی کہ ایک دن ان کے ساتھ گزار کر میں ان کلاسوں کو دیکھوں۔ چنانچہ ۱۸ جون کا ہفتہ میں نے ان کے لیے مخصوص کر دیا۔ ہم صبح تقریباً ساڑھے آٹھ بجے لیسٹر سے روانہ ہوئے مگر ہماری پہلی منزل واٹن (Whatton) کا جیل خانہ تھا جہاں ہفتہ کے روز مسلمان قیدیوں کی کلاس ہوتی ہے اور مولانا محمد فاروق مُلا انہیں تعلیم دیتے ہیں۔ نوٹنگھم سے دس بارہ میل کے فاصلے پر اس قید خانہ میں بیسیوں مسلمان قید ہیں جو پروگرام کے مطابق ایک کمرے میں انتظار میں بیٹھے تھے۔ ان میں بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کے علاوہ مراکش اور دیگر ممالک کے قیدی بھی تھے جو مختلف جرائم میں وہاں قید کاٹ رہے ہیں۔

ہم جیل کے مین گیٹ پر پہنچے تو اندر جانے میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مولانا محمد فاروق مُلا جیل کے نظام سے اس حوالے سے پہلے سے منسلک ہیں اس لیے انہوں نے صرف ایک پیٹی اپنی کمر کے گرد حمائل کی جو اُن کی مخصوص علامت تھی۔ مجھے پاسپورٹ دکھانے کے لیے کہا گیا اور پاسپورٹ چیک کرنے کے بعد فاروق مُلا کے ساتھ اندر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ کوئی سوال جواب نہیں ہوا، البتہ موبائل فون اندر لے جانے کی اجازت نہیں تھی، وہ ہم نے باہر گاڑی میں رکھ دیے۔ مختلف دروازوں سے گزرتے ہوئے جب ایک کمرے میں مسلمان قیدیوں کے پاس پہنچے تو وہ ہمارے انتظار میں چائے، کافی اور فروٹ وغیرہ کا سامان سجائے بیٹھے تھے، ملاقات کر کے بہت خوش ہوئے۔ مجھ سے فرمائش کرنے لگے کہ میں ان سے نصیحت کے طور پر کچھ بات کروں۔

میں نے گزارش کی کہ جیل میں آپ کسی نہ کسی جرم میں آئے ہیں اور یہ آزمائش اور ابتلا کا مرحلہ ہے۔ اس میں آپ حضرات کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت اس آزمائش کے مرحلے کو مختصر کریں اور آپ کو آزادی اور وقار کے ساتھ اپنے گھروں میں جلد جانے کا موقع عطا فرمائیں۔ مگر اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کے پاس یہاں فراغت کا بہت موقع ہے، اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مسلمان کو فرصت اور فراغت کے مواقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اور اس سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آپ حضرات کو یہاں جو فرصت میسر ہے اس کو آپ ضائع نہ کریں، کسی نہ کسی کام میں اس وقت کو صَرف کرنا چاہیے۔ یہاں آپ کو تعلیم کے مواقع میسر ہوں گے، اپنی تعلیمی کمزور کو دور کرنے کی کوشش کریں، کوئی نہ کوئی کورس کریں۔ کوئی ہنر سیکھنے کی سہولت بھی یہاں ہو گی، اس سے فائدہ اٹھائیں۔ خاص طور پر قرآن کریم اور دینی ضروریات کی تعلیم کی طرف پوری توجہ دیں، اور اس کے ساتھ ساتھ نماز اور عبادات کا اہتمام کریں۔ قرآن کریم کی تلاوت کو معمول بنائیں، ذکر اذکار کا ماحول بنائیں اور بارگاہ ایزدی میں اپنے لیے اور دیگر مسلمانوں کے لیے دعائیں کریں۔ تاکہ یہ وقت جو آپ نے بہرحال یہاں گزارنا ہے، کسی نہ کسی کام آجائے۔

میں نے ان حضرات سے ان کے معمولات اور جیل میں انہیں ملنے والی سہولتوں کے بارے میں سوالات کیے، اور مجھے جو کچھ بتایا گیا اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ برطانیہ کے جیل خانے ہمارے ہاں کے درمیانے درجے کے ہوٹل یا ریسٹ ہاؤس سے کم نہیں ہیں۔ صرف باہر جانے کی اجازت نہیں ہے مگر چار دیواری کے اندر رہنے کی پابندی کے ساتھ انہیں جو سہولتیں حاصل ہیں وہ ہمارے ہاں کے درمیانے درجے کے ہوٹل کے برابر ہیں۔ ایک قیدی کو ایک کمرہ ملتا ہے جہاں اسے شام آٹھ بجے بند کر دیا جاتا ہے اور صبح آٹھ بجے نکالا جاتا ہے۔ صبح آٹھ بجے ناشتہ ملتا ہے جو دودھ اور توس وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے بعد مختلف کام کاج ان کے لیے ہوتے ہیں، جیل کی بعض خدمات ہوتی ہیں جو اُن کے لیے اختیاری ہیں، جس کا انہیں معاوضہ ملتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ سب سے زیادہ معاوضہ جھاڑو وغیرہ دینے کا ہوتا ہے جو دس بارہ پونڈ فی ہفتہ تک ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد عام خدمات پر پانچ چھ پونڈ فی ہفتہ ملتے ہیں۔ اور اگر کوئی قیدی کام نہ کرنا چاہے تو اسے فارغ رہنے کی اجازت ہوتی ہے اور اسے بھی ہفتہ میں دو پونڈ جیب خرچ کے طور پر مل جاتے ہیں۔ ساڑھے گیارہ بجے تک کام کے بعد لنچ ملتا ہے اور پھر ڈیڑھ گھنٹہ آرام کا وقفہ ہوتا ہے، پھر کام وغیرہ پر جاتے ہیں اور آٹھ بجے سے قبل ڈنر سے فارغ ہو کر لاک اپ میں بند ہو جاتے ہیں۔ اس سے قبل چار بجے کے بعد کھیل وغیرہ کا وقت ہوتا ہے اور مختلف گیموں کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ تفصیلات معلوم کر کے مجھے اپنے ہاں کے قید خانے یاد آگئے اور جیلوں میں قیدیوں اور حوالاتیوں کے ساتھ عام طور پر ہونے والے سلوک کا منظر نظروں کے سامنے گھومنے لگا۔

قیدیوں کی اس مجلس میں انہوں نے سوالات بھی کیے۔ ایک قیدی نے پوچھا کہ اگر کسی کو جن چمٹ جائے تو اس کا علاج کیسے کرنا چاہیے؟ میں نے کہا کہ قرآن کریم کی تلاوت کریں اور آیۃ الکرسی کے ساتھ آخری سورتوں کی تلاوت کثرت سے کریں۔ مراکش سے تعلق رکھنے والے قیدی نے سوال کیا کہ کیا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد بیان کرنے کے لیے اس کے ساتھ سند کا ذکر ضروری ہے؟ میں نے کہا کہ اگر تعلیم و تعلم کے لیے، یا باقاعدہ روایت کے طور پر حدیث پڑھی جا رہی ہے تو سند کا حوالہ دینا ضروری ہے، لیکن اس کے علاوہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد کسی مجلس میں بیان کرنے کے لیے سند کا تذکرہ ضروری نہیں، البتہ راوی کا ذکر اور کتاب کا حوالہ دینا ضروری ہے۔

وہاں سے فارغ ہو کر ہم نیوٹن کے شہر گرینتھم میں پہنچے جہاں ٹاؤن ہال کے سامنے نیوٹن کا مجسمہ کھڑا ہے، جبکہ ٹاؤن کے ہال کے ایک کمرے میں اردگرد کے علاقے سے جمع ہونے والے چند بچے قرآن کریم کی تعلیم کی ہفتہ وار کلاس میں بیٹھے تھے۔ تھوڑا سا وقت بچوں کے ساتھ بسر کیا، انہیں ایک کہانی میں نے سنائی جس کا مولانا فاروق مُلا نے انگلش میں ترجمہ کیا۔ وہاں سے ہم کنیزلی پہنچے جہاں ڈاکٹر صاحبان ایک ہال میں بچوں کی تعلیم کا اسی طرح کی کلاس کا اہتمام کرتے ہیں، انہوں نے عصر کے بعد میرے مختصر بیان کا بھی پروگرام رکھا ہوا تھا۔

ڈاکٹر رضوان انور شیخ وزیرآباد سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے ایک محترم بزرگ شیخ خورشید انور مرحوم کے فرزند ہیں۔ شیخ صاحب مرحوم وزیر آباد کی معروف دینی، سماجی اور سیاسی شخصیت تھے، انجمن تاجران کے تاحیات صدر رہے، بلدیہ میں قائد حزب اختلاف بھی رہے، مسلم لیگ کے سرگرم حضرات میں سے تھے، ایک عرصہ قبل جمعیت علماء اسلام کے ضلعی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دیتے رہے، ان کے فرزند ڈاکٹر رضوان انور شیخ کے ہاں کھانا کھایا اور عصر کے بعد کے پروگرام سے فارغ ہو کر کیمبرج کی طرف روانہ ہو گئے۔

مجھے برطانیہ آتے ہوئے بیس سال گزر گئے ہیں، ہر سال آنا ہوتا ہے اور آکسفورڈ کئی بار حاضری ہوئی، مگر کیمبرج میں آج تک نہیں جا سکا۔ مولانا محمد فاروق مُلا کی وساطت سے پہلی بار وہاں جانا ہوا۔ کیمبرج کے مختلف بازاروں میں طلبہ و طالبات کو گھومتے دیکھا، پارکوں میں ان کی ٹولیاں دیکھیں، شام کا وقت تھا، مغرب کی نماز کیمبرج کی واحد مسجد ابوبکرؓ مسجد میں ادا کی، اور مسجد کی انتظامیہ کی خواہش پر نماز کے بعد نمازیوں سے مختصر خطاب بھی کیا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک دوست اصرار کر کے کھانے کے لیے لے گئے، بعد میں معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ وہ ہمارے ایک مرحوم فاضل دوست جناب ریاض الحسن نوری کے بھانجے ہیں۔

رات کو ہم لندن میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے گھر پہنچ گئے جسے ہم دوستوں نے ’’خانقاہِ منصوریہ‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اتوار کو مولانا منصوری اور مولانا عبد الحلیم لکھنوی نے ایک پارک میں باربی کیو طرز کی تفریح اور کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ وسطِ لندن سے کم و بیش بیس میل دور کینٹ کے علاقہ میں ایک پارک میں بہت سی فیملیاں جمع تھیں، سارا دن رش رہا، اس دن کڑاکے کی دھوپ تھی، جس کے بارے میں مولانا منصوری نے کہا کہ آج تو دھوپ انگریز کی طرح چبھ رہی ہے۔ مولانا منصوری اور مولانا عبد الحلیم لکھنوی کے اہل خانہ بھی ساتھ تھے۔ چولہا اور کھانے پینے کا سامان ساتھ لے گئے تھے، وہاں پکاتے اور کھاتے رہے۔ اور تقریباً چار گھنٹے پارک میں گزارنے کے بعد ختم نبوت سنٹر فارسٹ گیٹ لندن میں الحاج عبد الرحمٰن باوا صاحب کے ہاں پہنچا جنہوں نے انٹرنیٹ پر میرے خطاب کا اہتمام کر رکھا تھا۔ عصر کے بعد اٹین لین کی جامع مسجد میں حجیتِ حدیث پر بیان ہوا، اور اس کے بعد گکھڑ سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ دوست میاں محمد اختر، جو کرکٹ کے قومی کھلاڑی رہ چکے ہیں، ان کے ہاں عشائیہ میں شریک ہو کر بارہ بجے سے قبل خانقاہِ منصوریہ میں پہنچ گیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter