موجودہ حالات میں قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت

   
۲۷ دسمبر ۲۰۱۴ء

دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ’’سانحہ پشاور‘‘ نے ایک نیا رخ دے دیا ہے اور اس کے لیے قومی سطح پر اقدامات کو منظم کرنے کی طرف پیش رفت جاری ہے۔ سیاسی راہ نماؤں کے مشترکہ اجتماعات اور ان کے ساتھ عسکری راہ نماؤں کی مشاورت کے بعد دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام پر بحث ہو رہی ہے۔ سیاسی قیادت میں اس سلسلہ میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہو رہا اور اس سے قبل ملک میں مختلف مواقع پر قائم ہونے والی فوجی عدالتوں کے فیصلوں اور طریق کار کے بارے میں بعض سیاسی راہ نماؤں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پر دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی دینی و سیاسی جماعتوں کے متحدہ محاذ ’’مجلس علماء اسلام پاکستان‘‘ کی سپریم کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں راقم الحروف بھی شریک تھا۔ اجلاس میں مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے دی گئی بریفنگ بہت معلوماتی اور فکر انگیز تھی، جس کی روشنی میں سپریم کونسل نے اپنی حکمت عملی اور طریق کار کا تعین کیا ہے۔ اس میں یہ بات سرفہرست ہے کہ ہم دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے قومی یک جہتی کا حصہ ہیں، ملک کی دینی و سیاسی قیادت کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس میں بھرپور کردار ادا کریں گے، مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا۔

مولانا حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری کی صدارت میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں مختلف جماعتوں کے راہ نماؤں نے جن خیالات کا اظہار کیا، ان کے چند پہلوؤں پر بطور خاص توجہ کی ضرورت ہے۔

ایک یہ کہ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ کے باوجود ابھی تک دہشت گردی کی کوئی تعریف واضح نہیں کی گئی۔ نہ عالمی سطح پر اور نہ ہی قومی سطح پر اس بات کا تعین کیا گیا ہے کہ ”دہشت گردی“ کیا ہے اور دہشت گرد کون ہیں؟ عالمی سطح پر تو یہ تعریف جان بوجھ کر متعین نہیں کی جا رہی تاکہ عالمی استعمار کو یہ آسانی حاصل رہے کہ وہ دنیا کے جس ملک، قوم، طبقہ، گروہ یا فرد کو جب چاہے دہشت گرد قرار دے کر اپنا ہدف بنا لے اور کوئی فورم اس سلسلے میں اسے پوچھنے والا اور ان زیادتیوں کی نشاندہی کرنے والا موجود نہ ہو۔ جبکہ قومی سطح پر بھی چونکہ اپنے معاملات اور پالیسیاں طے کرنے میں ہم آزاد اور خود مختار نہیں ہیں، اس لیے طوعاً یا کرہاً ہمیں اسی دائرے میں رہنا پڑتا ہے۔ اس لیے جب تک دہشت گردی کی تعریف واضح طور پر طے کر کے مسلمہ طریق کار کے مطابق اس پر عالمی رائے عامہ کا اعتماد اور توثیق حاصل نہیں کر لی جاتی، اس وقت تک یہ جنگ اپنے اہداف اور مقاصد کے لحاظ سے ابہام کا شکار رہے گی، جس کا فائدہ ظاہر ہے کہ دہشت گردوں کو بھی ہو سکتا ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

دوسری بات جو اس معاملے میں ابہام کو بڑھا رہی ہے کہ امریکا کے تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن نے کئی سال قبل یہ کہا تھا کہ اس کے تجزیے کے مطابق مشرق وسطیٰ میں سلفی اور جنوبی ایشیا میں دیوبندی مسلک کے لوگ مذہبی انتہا پسندی کے علمبردار ہیں اور دینی مدارس اس کے مراکز اور سرچشمے ہیں۔ اور صرف رینڈ کارپوریشن نہیں بلکہ مغربی فلسفہ و ثقافت کی نمائندگی اور تحفظ کرنے والے دیگر بہت سے فکری ادارے بھی مغربی فلسفہ و تہذیب کے فروغ میں سامنے آنے والی رکاوٹوں میں انہی تین ناموں کا تذکرہ سب سے زیادہ کرتے ہیں۔ ان کا یہ تجزیہ زمینی حقائق اور معروضی صورت حال سے کس حد تک مطابقت رکھتا ہے؟ اس کی بحث ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن ان کے اس مسلسل پراپیگنڈے بلکہ وسیع تر لابنگ کے بعد جب پاکستان کے بعض دانش ور، میڈیا کے اینکرز اور مسلکی عصبیت کے دائرے میں سیاست کرنے والے مذہبی راہنما دہشت گردی کی اس جنگ میں دیوبندیت اور دینی مدارس کو ٹارگٹ کرنے کی بات کرتے ہیں تو رینڈ کارپوریشن اور دیگر مغربی اداروں کی یہ رپورٹیں پھر سے ذہنوں میں تازہ ہو جاتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان رپورٹوں کی بنیاد پر قومی پالیسی کو مخصوص رخ دینے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ابہام اور شکوک و شبہات کی ایک تہہ اور چڑھ جاتی ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر کسی بھی مسئلہ کے معروضی پس منظر اور منطقی نتائج پر حقیقت پسندانہ غور کرنے کی بجائے اس مسئلہ سے شخصی، گروہی اور طبقاتی مفادات حاصل کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس کا دائرہ صرف سیاست یا مذہب کی حد تک محدود نہیں ہوتا بلکہ معاشرہ کی ہر سطح پر یہ بیماری ہماری رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ بالکل نچلی سطح پر عام دیہاتی ماحول میں بھی اگر کوئی تنازع ہوتا ہے اور ہم قانونی کاروائی کے لیے ایف آئی آر درج کراتے ہیں تو ہماری ترجیحات میں یہ بات سر فہرست ہوتی ہے کہ اس کیس میں مخالفین میں سے کس کس کو پھنسایا جا سکتا ہے، اور دوسری طرف سے اس مقدمہ کی پیروی کرنے والوں کو اس میں کیسے باندھا جا سکتا ہے۔ ملک کے کسی بھی حصہ میں تھانوں میں درج ہونے والی ایف آئی آرز کا جائزہ لیا جائے تو ان میں نوے فی صد کے لگ بھگ رپورٹوں میں یہی ذہنیت کار فرما دکھائی دے گی۔ یہی ذہنیت پھر مذہبی اور سیاسی تنازعات میں بھی ہر سطح پر ہمارے تنازعات اور معاملات کے لیے اولین ترجیح قرار پاتی ہے۔

ماضی میں اس سے قبل قائم ہونے والی فوجی عدالتوں اور احتسابی اداروں کے بارے میں ایک دوسرے سے یہی شکایت چلی آ رہی ہے کہ انہیں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور بہت سے معاملات میں سے یہ شکایت صرف الزام کی حد تک محدود نہیں ہے، اس لیے سپریم کونسل کے اعلامیے میں یہ کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات بلا تفریق ہونے چاہئیں اور ان میں سے کسی مسلک، جماعت اور دینی یا سیاسی حلقے کے خلاف انتقامی کاروائی اور کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف جانبداری کا تاثر نہیں ملنا چاہیے۔

اگر ہمارے قومی، سیاسی اور عسکری راہنما دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اس فیصلہ کن مرحلہ پر اپنی مشترکہ پالیسی کے تعین میں ان تحفظات کو سامنے رکھ کر قومی اتفاق رائے کے ساتھ آگے بڑھ سکیں تو نہ صرف یہ کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ مؤثر اور نتیجہ خیز ہو گی، بلکہ قومی وحدت، یک جہتی، ہم آہنگی اور باہمی اعتماد میں بھی اضافہ ہو گا، جو آنے والے حالات میں پہلے سے کہیں زیادہ ہم سب کی مشترکہ ضرورت ہو گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter