اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا قضیہ

   
نومبر ۱۹۹۵ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۵ اکتوبر ۱۹۹۵ء کے مطابق اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں محاذ آرائی شدید ہو گئی ہے اور ملازمین اور انتظامیہ کے درمیان کسی بھی وقت تصادم کا خطرہ ہے۔ خبر کے مطابق اس محاذ آرائی کی وجہ یونیورسٹی میں کمپیوٹر کی چوری کے بعد پولیس کی تفتیش کے دوران پیدا ہونے والی صورتحال ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کسی دور ’’جامعہ عباسیہ‘‘ کہلاتی تھی، جو خودمختار ریاست بہاولپور کے زمانہ میں درسِ نظامی کی ایک اچھی درسگاہ تھی، اور اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء اس سے وابستہ رہے۔ لیکن جب ریاست بہاولپور کو باقاعدہ پاکستان میں ضم کر دیا گیا تو کچھ عرصہ بعد صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دورِ حکومت میں اسے اسلامی یونیورسٹی قرار دے کر درسِ نظامی کے نصاب کو کالج کے مروجہ نصاب کے ساتھ ملا کر پڑھانے کے تجربہ کا آغاز کیا گیا۔ جس کا پورے ملک میں خیرمقدم کیا گیا اور مختلف مکاتبِ فکر کے اکابر علماء اس تجربہ کو کامیاب بنانے کے لیے اسلامی یونیورسٹی سے وابستہ ہو گئے۔ لیکن عصری تعلیم کا ’’اونٹ‘‘ کچھ اس طرح اسلامی یونیورسٹی کے خیمے میں داخل ہونا شروع ہوا کہ درسِ نظامی وہاں سے بتدریج خارج ہو گیا۔ اور اب کہنے کو یہ اسلامی یونیورسٹی ہے مگر اس کا نصاب و نظام وہی ہے جو ملک کی باقی یونیورسٹیوں کا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت نے دینی مدارس کے حسابات کی چیکنگ اور نصاب کی اصلاح کے نام سے اقدامات کا ارادہ ظاہر کیا تو جامعہ عباسیہ کا حشر نگاہوں کے سامنے گھوم گیا۔ اچھا ہوا کہ دینی مدارس نے ان اقدامات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ورنہ ان کا انجام بھی اسلامی یونیورسٹی بہاولپور سے مختلف نہ ہوتا۔

   
2016ء سے
Flag Counter