بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اس سال کی ہماری نشستوں کا موضوع یہ چلا آ رہا ہے کہ مختلف طبقات کے ساتھ (مسافروں، قیدیوں، غلاموں، مہمانوں، مزدوروں کے ساتھ) حضورؐ کی سنت مبارکہ کیا تھی؟ آج کی نشست کا عنوان ہے کہ افسروں کے ساتھ حضورؐ کا طرزعمل کیا تھا۔ جناب نبی کریمؐ جن لوگوں کو ڈیوٹی پر مقرر فرماتے، وقتی طور پر یا مستقل طور پر، اس زمانے میں عامل اور والی کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ آپؐ مالیات پر، انتظامی امور میں، ڈیوٹیز پر مختلف عامل مقرر فرماتے تھے، تو ان کی ضروریات کا خیال کرتے تھے، ان کی نگرانی اور احتساب بھی کرتے تھے، اور اگر ان پر غلط الزام لگایا جاتا تو ان کا دفاع بھی کرتے تھے۔ یہ تین دائرے تھے عاملین کے ساتھ حضورؐ کے معاملات کے۔ ان تینوں پر ایک ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔
- پہلا یہ کہ آپؐ عاملین کی ضروریات کا خیال کرتے، ان کا حق الخدمت ادا کرتے اور یہ تلقین فرماتے تھے کہ جو بھی حق الخدمت بنتا ہو، لینا چاہیے۔ اس پر حضرت عمرؓ کا واقعہ ہے، بخاری شریف کی روایت کے مطابق وہ خود کہتے ہیں کہ مجھے جناب نبی کریمؐ نے ایک ڈیوٹی پر مقرر کیا کہ جاؤ یہ کام کر کے آؤ۔ میں کام پورا کر کے آیا تو حضورؐ نے مجھے اس کا وظیفہ، حق الخدمت دیا کہ تم نے ڈیوٹی کی ہے یہ تمہارا حق بنتا ہے، وصول کرو۔ میں نے کہا مجھے ضرورت نہیں ہے۔ پھر فرمایا، وصول کرو۔ میں نے کہا مجھ سے زیادہ ضرورت مند اور لوگ بھی ہیں، کسی اور کو دے دیں۔ حضورؐ نے فرمایا لے لو۔ میں نے پھر کہا، مجھے اللہ تعالٰی نے بہت کچھ دیا ہوا ہے، میں للہ خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا، نہیں! یہ تمہارا حق بنتا ہے ’’خذہ فتمولہ‘‘ اسے وصول کر کے اپنے مال میں شامل کر لو اس کے بعد اگر چاہو تو صدقہ کر دینا۔ حضرت عمرؓ کا بھی یہی معمول تھا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک عامل نے حضرت عمرؓ کے سامنے تنخواہ لینے سے انکار کیا تو آپؓ نے اسے کہا کہ تنخواہ وصول کرو، اور اپنا مذکورہ واقعہ اسے سنایا۔
اس کی بہت سی حکمتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جب آدمی تنخواہ لے گا تو کام ذمہ داری سے کرے گا، اور اگر مفت میں کرے گا تو ویسی ذمہ داری نہیں ہو گی۔ دوسرے یہ کہ تنخواہ نہ لینے سے دوسروں میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ یہ تو بغیر تنخواہ کے کام کر رہا ہے اور ہم تنخواہ لے رہے ہیں، اس لیے بھی بلا معاوضہ کام کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے آپؐ نے بلاتنخواہ ڈیوٹی لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا کام کے بعد جو بھی تمہارا حق بنتا ہے، وصول کرو۔
عقبہ بن عامرؓ حضورؐ کے عمّال میں سے تھے، انہوں نے سوال کیا کہ یارسول اللہ! آپ ہمیں کسی علاقے میں ڈیوٹی پر بھیجتے ہیں، ہم جاتے ہیں، ہم وہاں مہمان ہوتے ہیں، ہمارا کھانا پینا اور رہنا ان کے ذمے ہوتا ہے، لیکن اگر اس علاقے والے ہماری ضروریات کا خیال نہ کریں تو ہم کیا کریں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا، اگر تو وہ تمہاری ضروریات کھانا، رہائش وغیرہ کا انتظام کر دیں تو ٹھیک، ورنہ جو تمہارا مہمانداری کا حق بنتا ہے، تو جو تم وصول کر کے لاؤ گے اس میں سے (سرکاری خزانے میں سے) اتنا حق بالمعروف (اپنے اسٹیٹس کے مطابق) وصول کر سکتے ہو۔ اس کو آج کی اصطلاح میں ٹی اے ڈی اے (TA&DA) کہا جاتا ہے یعنی آنے جانے کا خرچہ۔ ہمارے ہاں تو عام طور پر اس میں بہت گڑبڑ ہوتی ہے کہ ٹی اے ڈی اے بھی لے لیتے ہیں، وہاں کسی کا مہمان بھی بن جاتے ہیں، وہاں سے بھی کھاتے ہیں اور یہاں سے بھی لیتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ سرکاری طور پر پی سی ہوٹل منظور کروا کے اس کے مطابق خرچہ لے لیا اور وہاں جا کر عام ہوٹل میں رہے، اس طرح جو بچت ہوئی وہ اپنی جیب میں ڈال لی، یہ درست نہیں ہے۔ حضورؐ نے اس کا اصول یہ طے کیا ہے کہ اگر تمہاری حیثیت کے مطابق وہ ضروریات پوری کر دیں تو پھر تم ہم سے وصول نہیں کرو گے، اگر انہوں نے انتظام نہیں کیا تو پھر تم سرکاری رقم میں سے وصول کر سکتے ہو اور وہ بھی بالمعروف، معروف طریقہ سے، جس کا معنٰی فقہاء یہ کرتے ہیں کہ جو تمہارا عام رہن سہن کا معیار ہے اس کے مطابق لے سکتے ہو۔ یہ تو آپؐ نے ملازم، افسر، عامل کا حق قرار دیا کہ حق الخدمت بھی لے اور اگر ضروری خرچہ وہاں سے نہ ملے تو وہ بھی وصول کرے۔
- دوسرے یہ کہ حضورؐ نگرانی اور احتساب کیا کرتے تھے کہ عامل وہاں سے کیا لے کر آیا ہے، اگر اسے ناجائز سمجھتے تو ضبط بھی کر لیا کرتے تھے۔ جو لوگ مالیات کے محکمے میں ہوتے تھے، قرآن نے انہیں عاملین فرمایا ہے یعنی صدقہ وصول کرنے والے۔ آج کل مالیات وصول کرنے والے دو محکموں میں تقسیم ہیں شہروں میں صنعت کاروں اور تاجروں سے ٹیکس وصول کرنے والا انکم ٹیکس آفیسر، اور دیہاتیوں سے مالیات وصول کرنے والا تحصیلدار۔ اس زمانے میں ان کو عاملین کہا جاتا تھا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے ایک صاحب ابن اللتبیہؓ کو خیبر سے سالانہ جزیہ، زکوٰۃ، عشر وغیرہ لینے کے لیے بھیجا۔ خیبر بڑا زرخیز اور سرسبز علاقہ تھا۔ وہ وہاں گئے، وصولی کر کے لائے اور سامان پیش کیا۔ سامان میں کھجوریں، گندم، جَو وغیرہ ہوتے تھے، نقدی کی شکل میں بہت کم ہوتا تھا، یہ عام طور پر غلہ کی صورت میں ہوتا تھا۔ انہوں نے سامان لا کر اس کی ڈھیری لگا دی کہ یہ بیت المال کے لیے وصول کر کے لایا ہوں اور ایک ڈھیری الگ رکھ دی۔ آپؐ نے پوچھا، یہ کیا؟ انہوں نے کہا، یا رسول اللہ! یہ انہوں نے مجھے ہدیے دیے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا، ’’ھلا جلست فی بیت امک‘‘ اپنی ماں کے گھر بیٹھے ہوئے تمہیں یہ تحفے ملتے ہیں؟ یہ تمہارا گفٹ نہیں ہے بلکہ تمہاری ڈیوٹی کی وجہ سے لوگوں نے دیا ہے، یہ تمہارا نہیں، بیت المال کا ہے۔ حضورؐ نے وہ مال ضبط فرما کر بیت المال میں جمع کرا دیا اور مسجد میں جا کر خطبہ ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ ہماری ڈیوٹی پر جاتے ہیں اور تحفے اپنے لیے رکھ لیتے ہیں۔
اس طرح حضورؐ نے ایک اصول طے فرما دیا کہ ڈیوٹی کی وجہ سے کہ یہ افسر ہے، جو گفٹ ملیں گے تو وہ اس کے ذاتی نہیں ہیں، وہ بیت المال اور سرکاری خزانے کے ہیں۔ ہاں اگر کسی کا ذاتی دوست کچھ دے تو وہ الگ بات ہے۔ اس پر آج کی دنیا کا اصول اور عالمی قانون بھی موجود ہے، اگرچہ داخلی ماحول میں اس اصول کی پاسداری نہیں ہوتی اور سب کچھ ہڑپ ہو جاتا ہے، ضابطہ یہ ہے کہ ایک ملک کا سربراہ کسی دوسرے ملک میں جائے تو اسے وہاں سے جو گفٹ ملتے ہیں وہ اس کی ملکیت نہیں ہوتے، ملک کا حق ہوتے ہیں، وہ کتنے ہی قیمتی کیوں نہ ہوں، واپس آ کر جمع کروانے پڑتے ہیں اور رپورٹ دینا پڑتی ہے کہ مجھے یہ یہ گفٹ ملا ہے۔ اسی طرح جو گفٹ وہ لے کر جاتا ہے وہ بھی سرکاری خزانے سے لے کر جاتا ہے۔ حضورؐ ہدیہ دیتے بھی تھے، لیتے بھی تھے اور آپؐ نے یہ تلقین فرمائی ہے کہ باہر سے آنے والا وفد کچھ لے کر آئے تو صرف وصولی نہ کرو، ان کو کچھ دو بھی، بلکہ کوشش کرو کہ بہتر ہدیہ دو۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کو ڈیوٹی کی وجہ سے جو تحفہ ملے وہ سرکاری ہے اس کا ذاتی نہیں ہے۔
حضرت عمرؓ بھی اپنے عاملین کا سخت احتساب کرتے تھے۔ ایک گورنر کو بحرین بھیجا، سال دو سال بعد گورنر صاحب واپس آئے تو بہت سا سامان بھی ساتھ لائے۔ ان سے پوچھا کہ جب تم گئے تھے خالی ہاتھ تھے اور اب آئے ہو اتنا سارا مال بھی ساتھ لائے ہو، یہ تمہارے پاس کدھر سے آیا؟ انہوں نے جواب دیا میں وہاں تجارت کرتا رہا ہوں۔ ڈیوٹی بھی کرتا تھا اور تجارت بھی کرتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا، عامل کو ڈیوٹی کے ساتھ تجارت کی اجازت نہیں ہے۔ چنانچہ جتنا جاتے وقت اس کے پاس تھا اس کو دیا اور باقی سب لے کر بیت المال میں جمع کر دیا۔
- تیسرے یہ کہ اگر آپؐ کے عاملین میں سے کسی پر غلط الزام لگتا تو آپؐ اس کا دفاع کرتے تھے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ بڑے جرنیل تھے۔ ایک دفعہ مدینہ منورہ میں آپؐ نے کسی کی ڈیوٹی لگائی کہ سب سے زکوٰۃ وصول کرو، زکوٰۃ وصول کی گئی اور پورٹ پیش کی گئی کہ دو آدمیوں نے زکوٰۃ نہیں دی۔ ایک حضرت عباسؓ اور دوسرے خالد بن ولیدؓ نے۔ حضورؐ نے فرمایا، حضرت عباسؓ کی زکوٰۃ تو میں دے دوں گا، جتنی بنتی ہے مجھ سے لے لو۔ ’’انتم تظلمون خالدًا‘‘ لیکن خالد پر تم ظلم کر رہے ہو، اس کے پاس کیا ہے کہ تم اس سے زکوٰۃ لینا چاہتے ہو؟ لوگوں نے کہا، یارسول اللہ! اس کے پاس تو بہت سرمایہ ہے، اتنے اتنے قیمتی ہتھیار رکھے ہوئے ہیں۔ حضرت خالدؓ بہت قیمتی ہتھیار رکھا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا، اس نے ہتھیار اور زرہیں جہاد کے لیے رکھی ہوئی ہیں، بیچنے کے لیے تو نہیں رکھی ہوئیں۔ تو اس طرح اگر آپؐ کے افسر کے خلاف کوئی ناجائز بات ہو رہی ہوتی تو حضورؐ اپنے افسر کا دفاع بھی کرتے تھے۔
اسی طرح جناب نبی کریمؐ نے اپنی زندگی میں جہاد کے لیے آخری لشکر اسامہ بن زیدؓ کی سربراہی میں تیار کیا۔ موتہ کی جنگ میں حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت جعفر طیارؓ شہید ہوئے تھے، اس کا بدلہ لینے کے لیے آپؐ نے لشکر تیار کیا اور عرب روایات کے مطابق حضرت زیدؓ کے بیٹے اسامہ بن زیدؓ کو کمانڈر بنایا، جو ابھی بیس اکیس سال کے نوجوان تھے۔ یہ بات لوگوں کو محسوس ہوئی کہ بڑے بڑے صحابہ لشکر میں ہیں اور اسامہ کو امیر بنا دیا۔ لوگوں کے اس اشکال پر آپؐ نے فرمایا ’’انکم تطعنون فی امارۃ اسامۃ‘‘ اسامہ کی امارت پر تم اعتراض کر رہے ہو، میں نے جب اس کے باپ کو امیر بنایا تھا اس وقت بھی کچھ لوگوں نے ناک چڑھائے تھے کہ ایک آزاد کردہ غلام کو بڑے بڑے صحابہ پر امیر بنا دیا ہے ’’واللہ انہ لخلیق بالامارۃ‘‘ اللہ کی قسم وہ بھی امارت کا اہل تھا اور یہ بھی امارت کا اہل ہے، یہ ہی امیر رہے گا، تمہارا اعتراض غلط ہے۔
آج میں نے افسروں اور عاملوں کے متعلق تین دائرے بیان کیے کہ حضورؐ ان کے حقوق کا خیال کرتے تھے کہ ان کو تنخواہ، حق الخدمت ملنا چاہیے۔ ان کا احتساب کرتے تھے اگر وہ کوئی زائد چیز لاتے تو اسے ضبط کر لیا کرتے، اس کے ساتھ اگر کسی نے ان کے بارے میں زیادتی کی بات کی ہے تو آپؐ اس کا دفاع بھی کرتے تھے۔
حضرت عمرؓ کا اپنے افسروں کے دفاع کے متعلق ایک واقعہ عرض کرتا ہوں جو بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کوفہ کے گورنر تھے۔ کوفہ والوں نے ان پر کوئی اعتراض کر دیا اور شکایت مدینہ بھیج دی۔ حضرت عمرؓ نے انکوائری کمیشن بنایا، محمد بن مسلمہؓ کو بھیجا کہ ہمارے گورنر پر اعتراضات ہیں، شکایات ہیں، تم جا کر تحقیق کرو۔ انہوں نے تحقیقات کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ کوفے کی ساری مسجدوں میں گورنر صاحب کو ساتھ لے کر باری باری نماز پڑھتے۔ کوفہ میں اس وقت چوالیس، پینتالیس مسجدیں تھیں۔ نماز کے بعد کھڑے ہو کر کہتے کہ میں محمد بن مسلمہ مدینہ سے آیا ہوں، حضرت عمرؓ کا نمائندہ ہوں، ان کے پاس آپ کے گورنر صاحب کی شکایات گئی ہیں، آپ میں سے جس کو کوئی اعتراض ہو تو اب بیان کرے۔ کوئی بھی اعتراض نہ کرتا بلکہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی تعریف کرتا۔ آخری دن ایک مسجد سے ایک صاحب کھڑے ہو گئے، کہا کہ ہمیں ان پر اعتراض ہے کہ یہ ہمیں بیت المال سے حق پورا نہیں دیتے اور نماز میں قرآن مجید صحیح نہیں پڑھتے۔ ایک اعتراض اور بھی کیا۔ سعد بن ابی وقاصؓ مستجاب الدعوات بزرگ تھے، کھڑے ہو کر کہا کہ میں تیری کسی بات کا جواب نہیں دیتا اور اس کو بد دعا دی۔ کہا، یااللہ! اگر یہ جھوٹ بول رہا ہے تو ’’اطل عمرہ واطل فقرہ‘‘ یااللہ اس کو لمبی عمر دے اور لمبی محتاجی دے، ساری زندگی کی محتاجی دے اور اس کو عورتوں کے فتنے میں مبتلا کر۔ اس کے بعد حضرت سعدؓ نے گورنری سے معذرت کر لی، حضرت عمرؓ نے ان کی معذرت قبول فرما لی۔ اللہ کی قدرت، اس حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ میں نے خود اس بوڑھے کو دیکھا، سو سال سے زیادہ عمر تھی، کانپتا لڑکھڑاتا ہوا کوفے کے بازار میں گھومتا تھا، پلکیں جھک گئی تھیں، مانگتا پھرتا تھا اور راہ جاتی لڑکیوں کو چھیڑا کرتا تھا اور کہتا تھا ’’انا دعوۃ سعد‘‘ میں سعد کی بد دعا ہوں۔
جب حضرت عمرؓ نے اپنی جگہ چھ آدمی مقرر کیے کہ یہ آپس میں کسی کو خلیفہ بنا لیں تو ان میں سعدؓ بھی تھے۔ چونکہ حضرت سعدؓ پر گورنری کے زمانے کا اعتراض تھا تو حضرت عمرؓ نے اس کی صفائی دی، کہا کہ میں نے سعدؓ کا نام لکھوایا ہے، ان کو میں نے گورنری سے کسی غلطی یا اعتراض کی وجہ سے نہیں ہٹایا تھا بلکہ ان کی عزت کے تحفظ کے لیے ہٹایا تھا کہ معزز آدمی ہیں، غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ یہ تیسرا دائرہ ہے کہ عامل اور افسر کی صفائی بیان کرنا اور اس کا دفاع کرنا، یہ بھی افسر کا حق ہے۔