سودی نظام: عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ اور سرکاری موقف

   
اگست ۲۰۰۲ء

وفاقی شرعی عدالت نے ملک میں سود سے متعلقہ مروجہ مالیاتی قوانین کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیتے ہوئے حکومتِ پاکستان کو ان قوانین کو ختم کرنے اور ان کی جگہ اسلامی مالیاتی قوانین نافذ کرنے کا جو حکم دیا تھا، اسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے منسوخ کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کو اس کیس کی ازسرِنو سماعت کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس فیصلے کے تحت حکومت سالِ رواں کی ۳۰ جون تک سودی قوانین کو ختم کرنے کی پابند تھی مگر یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی طرف سے سپریم کورٹ میں اس کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کی گئی جس میں حکومت بھی بطور فریق پیش ہوئی، اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک اپیل کی سماعت کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سودی قوانین کو خلافِ قرآن و سنت قرار دینے کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت اور اس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلٹ بنچ نے مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ نہیں لیا، اور بعض امور تشنہ رہ گئے ہیں جس پر غور ضروری ہے، اس لیے وفاقی شرعی عدالت اس کیس کی دوبارہ سماعت کرے اور تمام متعلقہ امور کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیتے ہوئے ازسرِنو فیصلہ صادر کرے۔

عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کے کے ساتھ ہی سالہا سال سے چلی آنے والی وہ کشمکش اپنے منطقی نتیجے تک پہنچ گئی ہے جو ملک کے معاشی نظام کو سود کی لعنت سے نجات دلانے کے لیے عدالتی محاذ پر جاری تھی۔ اور دینی حلقوں نے اس سلسلہ میں اب تک جو پیشرفت کی تھی اس کی بساط لپیٹ کر عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے نے انہیں پھر زیروپوائنٹ پر لا کھڑا کیا ہے۔

اب وفاقی شرعی عدالت میں ازسرِنو سود کی حلت و حرمت پر بحث ہو گی، اس کی اقسام کے حوالے سے نئے نئے نکتے پیدا کیے جائیں گے، مروجہ مالیاتی قوانین کے سودی ہونے یا نہ ہونے پر مباحثے ہوں گے، پھر وفاقی شرعی عدالت نیا فیصلہ صادر کرے گی، اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل اور پھر نظرثانی کے مراحل ہوں گے۔ اور تب پاکستان کے عوام تک یہ بات پہنچے گی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عدالتی نظام میں سود کی حیثیت کیا ہے؟ پاکستان کے مالیاتی قوانین کا سود کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اور ان سودی قوانین سے ملک کے معاشی نظام کو نجات دلانے کی کوئی صورت قابلِ عمل بھی ہے یا نہیں؟ اس صورتحال پر ہم اس کے سوا اور کیا تبصرہ کر سکتے ہیں کہ انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

البتہ سپریم کورٹ میں یو بی ایل کی مذکورہ رٹ کی سماعت کے دوران ایک اور سنجیدہ علمی سوال پیدا ہو گیا ہے، اور ہم اس کی طرف ملک کے اہلِ علم و دانش کو توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ یہ کہ عدالتِ عظمیٰ میں وفاقِ پاکستان کے نمائندہ وکیل ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی ایڈووکیٹ نے سرکاری موقف پیش کرتے ہوئے مروجہ معاشی نظام کو نقصان پہنچنے کی صورت میں نفاذِ اسلام کے عمل کو آگے بڑھانے سے انکار کر دیا ہے، جس کی رپورٹ ملک کے موقر اخبار روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۱۹ جون ۲۰۰۲ء کی اشاعت میں یوں پیش کی ہے کہ

’’عدالتِ عظمیٰ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے سامنے ربوٰا کیس کی سماعت کے دوران فیڈریشن کے وکیل ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ قومی معیشت کی قیمت پر اسلامائزیشن کا عمل قبول نہیں ہے، نیشنل اکانومی اسلامائزیشن پر بہرصورت مقدم ہے، اور یہ کہ اسلام کی روح کے مطابق خواہ کوئی عمل حرام و مکروہ ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر یہ عمل عوام کے مفاد میں ہے تو مستحسن کہلائے گا، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اسے ریگولیٹ کرے اور تحفظ فراہم کرے۔‘‘

غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس سے قبل پاکستان کو اس حوالے سے ایک اسلامی ریاست سمجھتے رہے ہیں کہ

  • قراردادِ مقاصد ملک کے دستور کا حصہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے مقننہ، منتظمہ اور عدلیہ کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی پابند قرار دیا گیا ہے۔
  • ۱۹۷۳ء کے دستور میں، جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے، ملک میں غیر اسلامی قوانین کے خاتمہ اور قرآن و سنت کے تمام قوانین کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔
  • آج تک کسی حکومت نے ریاست کی طرف سے نفاذِ اسلام سے انکار کا موقف اختیار نہیں کیا۔

چنانچہ ان حقائق کی بنیاد پر ہم نے ہمیشہ یہ عرض کیا ہے کہ عملی نظام میں کفر و نفاق کے تمام تر مظاہر کے باوجود عقیدہ اور نظریہ کے حوالے سے پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ لیکن ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی فورم پر ریاست کے نمائندہ وکیل کی طرف سے مذکورہ بالا موقف اختیار کیے جانے کے بعد ہمارے ناقص فہم اور رائے کے مطابق یہ صورتحال باقی نہیں رہی۔ لیکن ہم کوئی حتمی رائے دینے کی بجائے یہ معاملہ ملک کے اہلِ علم کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں کہ سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کا نوٹس لیتے ہوئے خالصتاً علمی اور دینی بنیادوں پر اس سلسلہ میں قوم کی راہنمائی اور حقیقتِ حال کی وضاحت کا اہتمام کیا جائے۔ مسئلہ اگرچہ نازک اور سنگین نوعیت کا حامل ہے، لیکن اہلِ علم و دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر اپنی رائے کا اظہار کریں اور قوم کی بروقت راہنمائی کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter