قومی مقاصد کے لیے دینی حلقوں کی مسلسل جدوجہد

   
۲۵ جون ۲۰۲۳ء

(۲۵ جون ۲۰۲۳ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں نماز عصر کے بعد نمازیوں سے خطاب کا خلاصہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے گوجرانوالہ کی مختلف مساجد میں تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے دروس کا اہتمام کیا ہے جس کے تحت آج تیسواں درس ہے اور مجھے کچھ گزارشات پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

پہلی بات تو یہ عرض کروں گا کہ دروس کے اس تسلسل کا مقصد کیا ہے اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتیں اس محاذ پر مسلسل سرگرم عمل کیوں ہیں؟

ہمیں پاکستان کی نظریاتی اساس، تہذیبی امتیاز اور نظریۂ پاکستان کے حوالے سے قیام پاکستان کے بعد سے ہی بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ہم سے بیرونی قوتوں کا تقاضہ ہے کہ دستورِ پاکستان کی اسلامی اساس بالخصوص قرارداد مقاصد، تحفظ ختم نبوت، تحفظ ناموس رسالتؐ اور سودی نظام کے خاتمہ کے معاملات میں بیرونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے دستبردار ہو جائیں۔ اور اگر ان سے دستبردار نہیں ہو سکتے تو کم از کم ان پر عملدرآمد کی صورتحال کو عالمی اداروں کی شرائط کے دائرے میں لے آئیں۔ یہ کشمکش بتدریج آگے بڑھ رہی ہے اور قومی سطح پر ہمارے ارباب حل و عقد کوئی مستقل اور دوٹوک طرزعمل اختیار کرنے کی بجائے اس دباؤ کو قبول کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جس کا سامنا کرنے کے لیے عوامی حلقوں اور دینی جماعتوں کے پاس رائے عامہ کی بیداری اور عوامی دباؤ ہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے دینی قوتیں بہت سی باتوں میں رکاوٹ بننے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ رائے عامہ کی مسلسل بیداری اور عوامی دباؤ کے مؤثر اظہار کا یہ ماحول قائم رکھنا ہماری قومی و دینی ضرورت ہے اور دینی و ملی فرائض کا حصہ ہے۔

مثال کے طور پر ہم اس وقت معاشی حوالے سے آئی ایم ایف کے شدید دباؤ بلکہ حصار میں ہیں۔ قومی معیشت بدحالی کا شکار ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خودمختاری کے نام پر ریاستی نظم سے نکال کر آئی ایم ایف کی نگرانی میں دے دیا گیا ہے، اور قومی معیشت بے بسی کے عالم میں عالمی مالیاتی اداروں کے پنجوں میں پھڑپھڑا رہی ہے۔ اس دلدل سے قوم کو نجات دلانا اس وقت ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے۔ جبکہ مذکورہ بالا امور کے ساتھ ساتھ ایٹمی اثاثوں کو بین الاقوامی نگرانی میں دینے کے حوالے سے بیرونی قوتوں کے ایجنڈے کو ہر حال میں قبول کرنے کا تقاضہ بھی بے رحم تلوار کی طرح ہمارے سروں پر لٹک رہا ہے، جس کے مقابلہ کے لیے قوم کو تیار رکھنا اور عوامی دباؤ اور اتحاد کی قوت کو مضبوط بنانا ہماری دینی و قومی ذمہ داری ہے۔

اس کے ساتھ یہ پیش نظر رہے کہ یہ کام ماضی میں بھی دینی قوتوں نے کیا ہے اور اب بھی وہی کریں گی تو ہوگا۔ تحریکِ آزادی، تحریک خلافت، تحریک پاکستان، تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفٰیؐ کی تاریخ اس پر گواہ ہے، اس لیے قومی خودمختاری کی بحالی، معیشت کی آزادی اور دستور پاکستان کی عملداری بالخصوص تحفظ ختم نبوت کے معاملات میں دینی حلقوں کو ہی قیادت کی پہلی صف میں آنا ہو گا ورنہ محض سیاسی دائروں میں سرگرم حلقے یہ فریضہ سرانجام نہیں دے سکیں گے۔

اس تناظر میں یہ دروس و اجتماعات اور بیانات و مطالبات تسلسل کے ساتھ کیے جا رہے ہیں اور تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، جماعتوں اور کارکنوں کو اس میں سرگرم کردار ادا کرنا چاہیے۔

اس کے بعد ایمان کی تازگی، برکت اور راہنمائی کے لیے دور نبوتؐ کے ایک شہیدِ ختم نبوت کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ حضرت عکاشہ بن محصن فزاریؓ دور ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہدائے ختم نبوت میں سے ہیں جو اس زمانے کے مدعی نبوت طلیحہ بن خویلد اسدی کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ اور جب طلیحہ بن خویلد نے مسلمانوں کے خلاف دو جنگیں لڑنے کے بعد امیر المومنین حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور خلافت میں نبوت کے دعوے سے دستبردار ہو کر توبہ کی اور حضرت عمرؓ کے سامنے پیش ہو کر دائرہ اسلام میں واپس آنے کی بات کی تو حضرت عمرؓ کو ان کے ہاتھوں شہید ہونے والے نوجوان صحابی حضرت عکاشہؓ کی شہادت کی بات یاد تھی، اور انہوں نے طلیحہ بن خویلد کو ان کے سامنے پیش کرنے والے جرنیل حضرت عمرو بن العاصؓ سے کہا تھا کہ مجھے عکاشہؓ جیسے جوان کی شہادت نہیں بھولے گی ۔ مگر اس کے باوجود حضرت عمرؓ نے طلیحہ بن خویلدؓ کی توبہ کو قبول کیا اور جہاد کے ایک محاذ پر ان کی تشکیل کر دی جہاں وہ شہید ہو گئے۔

محدثین حضرت طلیحہ بن خویلد اسدیؓ کا صحابی اور شہید کے طور پر ذکر کرتے ہیں، اس لیے ان کے حوالے سے میں دو باتیں عرض کیا کرتا ہوں:

  1. ایک قادیانیوں سے کہ مسیلمہ بنے رہنا ضروری نہیں، طلیحہ کا راستہ بھی موجود ہے۔ اپنے غلط عقائد سے توبہ کر کے حضرت طلیحہؓ کی طرح امت مسلمہ کے اجماعی عقائد اور موقف کو تسلیم کر کے ملت کے دائرہ میں آ جائیں، ان کا پرجوش خیرمقدم کیا جائے گا۔
  2. اور دوسری بات مسلمان بھائیوں سے عرض کرتا ہوں کہ اپنے شہداء کو یاد رکھنا اور ان کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے رہنا بھی ضروری ہے جو امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت و روایت ہے۔

ان گزارشات کے ساتھ ملت اسلامیہ کے تمام طبقات، جماعتوں، علماء کرام اور کارکنوں سے درخواست کر رہا ہوں کہ (۱) قرارداد مقاصد (۲) دستور پاکستان کی عملداری (۳) تحفظ ختم نبوت (۴) ناموس رسالت کا قانون (۵) اور سودی نظام کے خاتمہ کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا تاریخی فیصلہ، یہ ہمارے قومی فیصلے ہیں، ان کے تحفظ اور ان پر عملدرآمد کے لیے ہر وقت متحرک رہنا ہمارا دینی و قومی فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی مسلسل توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter