مرکزی جامع مسجد نارتھ لندن کا معاملہ

   
۳۰ جون ۲۰۰۴ء

گزشتہ روز چند گھنٹوں کے لیے پلندری جانے کا اتفاق ہوا جو آزاد کشمیر کا اہم شہر ہے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان دامت برکاتہم کا مسکن ہے۔ دارالعلو م تعلیم القرآن پلندری حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی جہد مسلسل کا ثمرہ ہے، اس وقت آزاد کشمیر کے مرکزی دینی اداروں میں شمار ہوتا ہے اور مولانا سعید یوسف خان کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے۔ انہوں نے دارالعلوم کے سالانہ جلسہ میں حاضری کے لیے کہا تو میں نے وعدہ کر لیا مگر اچانک سفر امریکہ کا پروگرام بن گیا جس کی وجہ سے پلندری حاضری کا مسئلہ ڈانواں ڈول ہونے لگا اور یہ صرف حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی کشش تھی کہ تذبذب زیادہ دیر تک دامن نہ پکڑ سکا اور برادرم مولانا قاری خبیب احمد عمر مہتمم جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے ہمراہ میں جمعرات کو ظہر تک پلندری پہنچ گیا۔

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کا ششماہی امتحان ۱۹ جون سے طے پایا تھاجو ایک ہفتہ جاری رہے گا اس کے بعد ایک ہفتے کی چھٹیاں ہیں، میں نے یہ دو ہفتے برطانیہ میں گزارنے کا پروگرام بنا رکھا تھا جو اﷲ تعالیٰ کو منظور نہیں تھا۔ میرا برطانیہ کا ویزا گزشتہ سال ختم ہو گیا تھا، خیال تھا کہ جانے سے قبل آخری دنوں میں درخواست دوں گا تاکہ ویزہ زیادہ دیر تک استعمال میں آسکے مگر آخری دنو ں کے تعین میں سستی اور تاخیر ہو گئی اور جب ویزے کی درخواست مکمل کر کے متعلقہ حضرات کے سپرد کی تو معلوم ہوا کہ ویزہ لگنے میں ایک ماہ لگ سکتا ہے کیونکہ رش بہت زیادہ ہے۔ ایک ماہ کا انتظار میرے لیے مشکل تھا کہ چھٹیاں اس سے قبل ختم ہو رہی تھیں، اسی شش وپنج میں تھا کہ واشنگٹن (ڈی سی) سے دارالہدیٰ کے ڈائریکٹر مولانا عبد الحمید اصغر کا فون آگیا اور انہوں نے دریافت کیا کہ میں ششماہی امتحان کی چھٹیاں کہاں گزار رہاہوں؟ میں نے عرض کیا کہ برطانیہ کا ارادہ تھا مگر ویزہ کا مسئلہ بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس آجائیں، میں نے کہا کہ آپ کے ہاں رجب میں حاضری کا ارادہ ہے، کہنے لگے کہ رجب میں پھر آجائیں۔ چنانچہ اس طرح امریکہ جانے کا پروگرام طے پا گیا۔ ۱۸ جون کا جمعہ گوجرانوالہ میں پڑھا کر رات لاہور سے پی آئی اے کے ذریعے نیویارک روانگی کا ارادہ ہے جس کے مطابق ۱۹ جون ہفتہ کو ظہر تک نیویارک پہنچنا ہے۔ وہاں ایک دو روز قیام کے بعد واشنگٹن ڈی سی چلا جاؤں گا اور شیڈول کے مطابق ۳ جولائی ہفتہ کو گوجرانوالہ واپس پہنچ کر اپنے تدریسی مشاغل میں مصروف ہو جاؤں گا، ان شاء اﷲ تعالیٰ۔

جمعرات کو پلندری پہنچا تو حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی زیارت و ملاقات سے شاد کام ہوا، انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور بہت دعائیں دیں۔ میرا ایمان ہے کہ دین کی جو تھوڑی بہت خدمت کا موقع مل رہا ہے وہ ایسے ہی چند بزرگوں کی دعاؤں، شفقتوں اور توجہات کا ثمر ہے، اﷲ تعالیٰ ان بزرگوں کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر سلامت رکھیں، آمین یا رب العالمین۔ دیگر بہت سے علماء سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں مولانا قاری عمران خان جہانگیری بطور خاص قابل ذکر ہیں، ان کا تعلق چناری ضلع مظفر آباد سے ہے، ایک عرصہ کراچی میں رہے، اس کے بعد کالا گوجراں جہلم میں خدمات سرانجام دیتے رہے، جمعیت علماء اسلام ضلع جہلم کے سرگرم رہنماؤں میں سے تھے، پھر برطانیہ چلے گئے اور برنلی کی جامع مسجد فاروق اعظمؓ میں خطیب رہے، اس کے بعد لندن آگئے اور سالہا سال سے نارتھ لندن کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب ہیں۔ یہ مسجد کچھ عرصہ سے سیل ہے، معروف مصری رہنما الشیخ ابو حمزہ نے اپنے عرب ساتھیوں کے ہمراہ اس مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اور عربوں کی مختلف دینی تحریکات کا یہ مسجد مرکز بن گئی، مسجد کی قانونی انتظامیہ کے ساتھ ان کا جھگڑا رہتا تھا جس کی وجہ سے انتظامیہ عدالت میں چلی گئی اور کئی سال کی عدالتی کاروائی کے بعد گزشتہ سال یہ مسجد سیل کر دی گئی۔ اس سے قبل مسجد کا نظم اس طرح چلتا تھا کہ پانچ وقت کی نمازیں اور درس وغیرہ مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری پڑھاتے تھے اور جمعہ تقسیم تھا۔ایک جمعہ وہ پڑھاتے تھے اور ایک جمعہ ابو حمزہ پڑھاتے تھے۔ قاری محمد عمران خان جہانگیری کے حصے کے کئی جمعے میں نے بھی وہاں پڑھائے ہیں، لندن میں جانے والے بہت سے پاکستانی علماء کا ڈیرہ مولانا جہانگیری کے حجرے میں رہتا ہے، بہت مہمان نواز ہیں اور مہمانوں بالخصو ص علماء کی خدمت کر کے خوش ہوتے ہیں، خود میں کئی روز ان کے حجرے میں قیام پذیر رہتا تھا۔ مگر گزشتہ سال جب میں برطانیہ گیا تو مسجد سیل ہو چکی تھی اور مولانا جہانگیری کسی دوسری جگہ کرائے کے کمرہ میں رہائش پذیر تھے، مسجد کی انتظامیہ اور عربوں کی کشمش میں مولانا جہانگیری انتظامیہ کے ساتھ تھے اور انتظامیہ کی طرف سے اس کے قانونی خطیب ابھی تک وہی ہیں۔ مسجد سیل ہوئی تو الشیخ ابو حمزہ نے مسجد کے سامنے کھلے روڈ پر جمعہ کا اجتماع کرنا شروع کر دیا جس کا سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ اس سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ شکوک و شبہات پیدا ہونے شروع ہو گئے کہ اگر حکومت برطانیہ کو ابو حمزہ کی سرگرمیوں پر اعتراض ہے تو وہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی سالہا سال تک سرگرمیوں کو کیسے برداشت کرتی رہی ہے اور مسجد سیل ہو جانے کے بعد کھلے روڈ پر کئی ماہ تک جمعہ کا اجتماع حکومت کے لیے کیسے قابل قبول ہوگیا ہے؟ حالانکہ کسی اور کے لیے حکومت برطانیہ اس طرح کی سہولت دینے کی روادار نہیں ہوتی، بہرحال ابو حمزہ گرفتار ہو کر جیل میں ہیں اور مسجد بدستور سیل ہے۔

مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری ادبی ذوق رکھنے والے شعلہ نوا مقرر ہیں اور حاضر باش امام وخطیب ہیں اس لیے اگرچہ برطانیہ میں کسی امام وخطیب کی امامت وخطابت کو دوام نہیں ہوتا مگر جس حوصلے اور صبر کے ساتھ مولانا جہانگیری نے مسجد کی انتظامیہ کے ساتھ مشکلات کا دور نبھایا ہے اس کی وجہ سے یہ امید ہے کہ مسجد کی واگزاری کے بعد بھی وہی نارتھ لندن کی مرکزی جامع مسجد کے امام وخطیب ہوں گے اور ان کا ڈیرہ پھر سے پاکستان سے آنے والے علماء کرام کے لیے آباد ہو جائے گا، ان شاء اﷲ تعالیٰ۔ جہانگیری صاحب چودہ سال کے بعد پاکستان آئے ہیں اور مختلف دوستوں کے پاس جا کر پرانی یادیں تازہ کر رہے ہیں، ان سے مل کر بے حد خوشی ہوئی اور یہ معلوم کر کے رنج وصدمہ بھی ہو ا کہ ان کے اور میرے ایک مشترکہ بزرگ دوست مولانا عبد الرؤف کا مانچسٹر میں انتقال ہو گیا ہے، انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ مولانا عبد الرؤف کا تعلق ضلع اٹک کے علاقہ جنڈ سے تھا، ایک عرصہ سے مانچسٹر میں مقیم تھے اور دینی خدمات کی انجام دہی میں مصروف تھے، ان کے ایک فاضل بیٹے مولانا حبیب الرحمان گلاسکو کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب ہیں جو برطانیہ بلکہ یورپ کی دو تین بڑی مساجد میں شمار ہوتی ہے۔ مولانا حبیب الر حمان اردو اور انگلش کے بہترین خطیب اور صاحب مطالعہ نوجوان ہیں۔ مولانا عبد الرؤف کا گھر بھی مانچسٹر میں مختلف علماء کی قرارگاہ ہوتا تھا، خود خواہش کر کے علماء کرام کو گھر لے جاتے تھے اور ان کی خدمت و ضیافت کر کے خوش ہوتے۔ مجھے تو میرے میزبانوں سے چھین کر لے جاتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ مانچسٹر میں میرے قیام کی صحیح جگہ ان کا گھر ہی ہو سکتی ہے، ان کی اچانک وفات کا سن کر صدمہ ہوا، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور پسماند گان کو صبر جمیل کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

بہرحال اب سفر کی تیاری میں ہوں، پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولاناقاری جمیل الرحمان اختر، کونسل کے صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا محمد نواز بلوچ سے تعزیت کے لیے گوجرانوالہ آئے جن کے والد محترم اور والدہ محترمہ گزشتہ ہفتے دو چار روز کے وقفے کے ساتھ یکے بعد دیگرے انتقال کر گئے ہیں، انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ وہاں سے ہو کر وہ میرے پاس آرہے ہیں ان کے ہمراہ لاہور ایئرپورٹ جاؤں گا اور قارئین کے ساتھ اگلی ملاقات، ان شاء اﷲ تعالیٰ نیویارک پہنچنے کے بعد ہو گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter