روزنامہ اردو نیوز جدہ میں ۱۳ جولائی ۲۰۱۰ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق سعودی عرب کی وزارت انصاف شادی کے لیے لڑکی کی کم از کم عمر ۱۷ برس مقرر کرنے والی ہے، اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے گا۔ المدینہ اخبار نے بتایا ہے کہ عدالتی مشیر ڈاکٹر صالح اللحیدان کا کہنا ہے کہ وزارت انصاف اس قرارداد کا جائزہ لے رہی ہے، جلد ہی یہ قرار داد جاری کر دی جائے گی، اس کے بموجب ۱۷ برس سے کم عمر کی لڑکی کو شادی کی اجازت نہیں ہو گی، نکاح خوانوں کو اس سے مطلع کیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے گا۔
شادی کے لیے کم از کم عمر کا تعین اور صغیر اور صغیرہ کے نکاح کی ممانعت آج کے ان عالمی قوانین کا حصہ ہے جو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے فلسفہ اور چارٹر کے زیر سایہ دنیا بھر میں نافذ کرنے کی کوشش کی جاری ہے اور مغربی ممالک ہر قسم کا دباؤ ڈال کر مسلم ممالک کو بالخصوص ان عالمی قوانین کی پابندی قبول کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔پاکستان میں کم و بیش نصف صدی قبل نافذ کیے جانے والے عائلی قوانین میں لڑکے کے لیے ۱۸ سال اور لڑکی کے لیے ۱۶ سال کی حد مقرر کی گئی ہے اور اس سے کم عمر میں شادی کو قابل سزا قرار دیا گیا ہے۔ ہمیں اس پر دو حوالوں سے اشکال ہے۔
- ایک اس لیے کہ اسلامی تعلیمات میں صغیر اور صغیرہ کے نکاح اور شادی کے باضابطہ احکام موجود ہیں اور حدیث و فقہ کی کتابوں میں انہیں مستقل ابواب کی صورت میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا۔ آج کے عالمی قوانین میں افادیت کے بہت سے پہلو ضرور موجود ہوں گے لیکن ان کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کے شوق میں اسلامی فقہ کے ایک مستقل باب کو معطل کر دینا اور اس سے دستبردار ہو جانا سمجھ میں نہیں آرہا۔
- اور دوسری بات یہ ہے کہ مغرب سولہ، سترہ، یا اٹھارہ سال کی عمر سے قبل باقاعدہ نکاح اور شادی پر تو پابندی لگائے ہوئے ہے مگر لڑکوں لڑکیوں کے آزادانہ اختلاط کے باعث وہاں عام طور پر لڑکیوں کی اکثریت بارہ تیرہ سال کی عمر میں حاملہ ہو جاتی ہے جبکہ نو سال کی حاملہ لڑکیوں کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں، اس کا حل مغرب نے اسقاط حمل کی کھلی اجازت کی صورت میں نکالا ہے جس میں اکثر اوقات ’’قتل نفس‘‘ تک کی نوبت آجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اسلامی دنیا کے ساتھ ساتھ پاپائے روم بھی اسقاط حمل کی آزادانہ اجازت کی مخالفت کر رہے ہیں۔
ہمارے نزدیک کم عمر لڑکیوں کی شادی کی ممانعت اور اسقاط حمل کی کھلی اجازت دونوں غیر فطری باتیں ہیں جس کا نتیجہ مغرب میں خاندانی نظام کی ابتری کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔آج کے دور میں جبکہ میڈیا کے پروگراموں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے آزادانہ اختلاط کے نتیجے میں بالغ ہونے کی عمر کم سے کم ہوتی جا رہی ہے اور دس سے چودہ سال تک کی لڑکیوں کے حاملہ ہونے کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے، کم عمری کی شادی کی یہ ممانعت سیکس کے فروغ اور سیکس فری سوسائٹی کی طرف پیشرفت کے سوا کوئی نتیجہ نہیں دے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم حکومتوں کو مبینہ عالمی قوانین اور مغربی ممالک کے ثقافتی دباؤ کے سامنے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر مضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے اور مسلم معاشروں کی بنیاد مغربی فلسفہ و ثقافت کی بجائے اسلامی تعلیمات پر استوار کرنے کے لیے مربوط اور مؤثر حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔