گزشتہ دو روز (۹ و ۱۰ فروری) لاہور میں خاصے مصروف گزرے۔ مولانا حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری نے ۹ فروری کو مجلس علماء اسلام پاکستان کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کر رکھا تھا جو موجودہ حالات کے حوالہ سے خاصی اہمیت کا حامل تھا کہ ملک بھر میں عموماً اور پنجاب میں بطور خاص دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان پر جس طرح عمل درآمد ہو رہا ہے اس سے بہت سے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں۔ مدارس پر چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے، فورتھ شیڈول کا ایک نیا نیٹ ورک وجود میں آگیا ہے، گرفتاریاں ہو رہی ہیں، لاؤڈ اسپیکر کی خلاف ورزی کے الزام میں سرسری مقدمات چل رہے ہیں، سزائیں دی جا رہی ہیں، مساجد سے لاؤڈ اسپیکر اتارے جا رہے ہیں اور دینی ماحول میں خوف و ہراس کی ایک عجیب سے فضا ابھر رہی ہے۔ اس صورت حال سے دیوبندی علماء کرام اور مساجد و مراکز سب سے زیادہ متاثر ہیں اس لیے فطری طور پر کارکنوں کی نظریں مجلس علماء اسلام پاکستان کی طرف اٹھتی ہیں کہ دیوبندی مراکز، جماعتوں اور جماعتوں کے اس مشترکہ فورم کی تشکیل کا ایک بڑا مقصد ان حالات پر نظر رکھنا اور علماء کرام اور کارکنوں کی راہ نمائی کرنا بیان کیا جاتا ہے۔
رابطہ کمیٹی کا اجلاس حافظ جی محترم کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا عزیز الرحمن ثانی، مولانا شاکر محمود، مولانا محمد اشرف طاہر اور دیگر حضرات کے علاوہ راقم الحروف نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں طے پایا کہ مجلس علماء اسلام پاکستان کی جنرل کونسل، سپریم کونسل اور رابطہ کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ۱۸ فروری بدھ کو لاہور میں امیر مرکزیہ حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر کی زیر صدارت منعقد ہوگا جس میں تمام دیوبندی جماعتوں کے سربراہ اور ذمہ دار حضرات شریک ہوں گے۔ جمعیۃ علماء اسلام (س) پاکستان اجلاس کی میزبان ہوگی اور اس میں موجودہ حالات اور مستقبل کے خطرات و امکانات کی روشنی میں اجتماعی پالیسی اور موقف و لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
پاکستان شریعت کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کے برادر گرامی مولانا قاری انیس الرحمن اطہر قریشیؒ کا ڈیڑھ سال قبل انتقال ہوگیا تھا، گزشتہ شب مرحوم کی اہلیہ محترم کا بھی انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ۱۰ فروری کو صبح دس بجے جنازہ تھا، اس میں تو شریک نہیں ہو سکا مگر بعد میں ان کے بیٹے حافظ محمد عبد اللہ انیس اور مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کے ہاں تعزیت کے لیے حاضری ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جوار رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
اسی روز مجلس احرار اسلام پاکستان نے حضرت مولانا عبد المجید لدھیانویؒ ، حضرت مولانا محمد نافع جھنگویؒ ، اور حضرت مولانا مشتاق احمد چنیوٹیؒ کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کر رکھا تھا جس کی صدارت پیر جی مولانا حافظ سید عطاء المہیمن شاہ بخاری نے کی اور اس سے مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا مفتی محمد انیس مظاہری، مولانا قاری علیم الدین شاکر، حافظ محمد اشرف گجر، قاری محمد رفیق وجھوی، مفتی محمد سفیان قصوری، حاجی عبد اللطیف خالد چیمہ، قاری محمد یوسف احرار اور دیگر حضرات کے خطابات کے علاوہ راقم الحروف نے بھی کچھ گزارشات پیش کیں۔ جبکہ مرکز سراجیہ لاہور کے مسند نشین مولانا خواجہ رشید احمد نے دعا کرائی۔ مقررین نے تینوں بزرگوں کی دینی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے مشن کے ساتھ مسلسل وابستگی کا اظہار کیا اور ان کی مغفرت و بلندی درجات کے لیے دعا کی گئی۔
اس کے بعد منصورہ میں ملی مجلس شرعی پاکستان کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس راقم الحروف کی صدارت میں ہوا جس میں مولانا عبد المالک خان، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا محمد رمضان، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، مفتی محمد سفیان قصوری، علامہ خلیل الرحمن قادری، حافظ ساجد انور، مولانا سید قطب اور دیگر حضرات شریک ہوئے۔ اجلاس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ ملک میں نفاذ شریعت کی عمومی جدوجہد کے لیے اور خاص طور پر موجودہ حالات میں دینی حلقوں کے لیے بڑھتی ہوئی مشکلات و مسائل کے ماحول میں مختلف مکاتب فکر کے درمیان رابطہ و مفاہمت کے فروغ کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ اور ملی مجلس شرعی کو اس سلسلہ میں متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔ اجلاس میں ملی مجلس شرعی کے اس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ قومی سیاست میں جدوجہد کرنے والی دینی جماعتوں کے متحدہ فورم کی تشکیل از بس ضروری ہے اور اس کے لیے جلد از جلد عملی پیش رفت ہونی چاہیے۔ لیکن اس سے ہٹ کر غیر سیاسی سطح پر مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کا مشترکہ ملی و قومی مقاصد کے لیے مل جل کر محنت کرنا اور قوم کو اجتماعی راہ نمائی فراہم کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ملی مجلس شرعی کا قیام اسی مقصد کے لیے عمل میں آیا تھا اور وہ اس مقصد کے لیے کسی نہ کسی حد تک مسلسل مصروف عمل ہے۔ لیکن موجودہ حالات زیادہ وسیع دائرے میں اس جدوجہد کو منظم کرنے کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ خاص طور پر مدارس و مساجد کو جس طرح ہدف بنایا جا رہا ہے اور علماء کرام و دینی کارکنوں کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں اس کے پیش نظر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور راہ نماؤں کا ایک جگہ مل بیٹھنا اور مشترکہ جدوجہد کا لائحہ عمل طے کرنا ضروری ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کے خلاف ملت اسلامیہ کے اجتماعی موقف کے اظہار کے لیے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر جناب سراج الحق نے ۱۷ فروری کو منصورہ میں کل جماعتی قومی کانفرنس طلب کر لی ہے جس میں تمام مکاتب فکر اور جماعتوں کے سربراہ شریک ہو رہے ہیں۔
ملی مجلس شرعی کی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں اس کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا گیا۔ اور ایک قرارداد کے ذریعہ کانفرنس میں شریک ہونے والی تمام جماعتوں اور مراکز کے سربراہوں سے اپیل کی گئی کہ وہ تحفظ ناموس رسالتؐ کے حوالہ سے عالمی سطح پر ملت اسلامیہ کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرے لیے مضبوط لائحہ عمل طے کریں اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں نفاذ شریعت اور دیگر مشترکہ ملی و قومی مقاصد کے لیے بھی مشترکہ جدوجہد کا پروگرام طے کریں۔ کیونکہ تمام مسائل کا حل نفاذ اسلام ہے اور اس کے لیے مؤثر جدوجہد ہم سب کی ذمہ داری ہے۔