مولانا ولی رازی کی تصنیف ’’ہادیٔ عالم‘‘ پر ایک نظر

   
تاریخ : 
۶ مئی ۲۰۱۷ء

قرآن کریم کی بعض سورتوں کا آغاز حروف مقطعات (مفرد حروف) سے کیا گیا ہے جس کی علمی توجیہات میں مفسرین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے نکتہ رسی کا پورا گلدستہ سجا رکھا ہے۔ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے کلام اللہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہونے کی طرف اس پہلو سے توجہ دلائی ہے کہ قرآن کریم انہی مفرد حروف سے ترتیب پایا ہے جو عربی زبان کے حروف ابجد شمار ہوتے ہیں۔ یہ حروف انتیس ہیں اور قرآن کریم میں ان کے علاوہ کوئی حرف موجود نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کو کلام اللہ نہ ماننے والوں سے کہا گیا ہے کہ یہ حروف تمہاری دسترس میں بھی ہیں اگر ہمت ہے تو ان حروف سے تم بھی قرآن کریم جیسا کلام یا کم از کم ایک سورت بنا لاؤ گویا بعض سورتوں کے آغاز میں یہ حروف مقطعات تحدی اور چیلنج کے طور پر ذکر کیے گئے ہیں۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہونے کے ساتھ ساتھ ’’عربی مبین‘‘ کی فصاحت کا کمال بھی ہے جو دنیا کی فصیح ترین زبان شمار ہوتی ہے اور اس کی فصاحت و بلاغت کی بنیاد ان حروف پر قائم ہے۔

یہ انتیس حروف جب فصاحت و بلاغت کے بیسیوں پہلوؤں میں اپنی بہار دکھاتے ہیں تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن اگر ان حروف میں بھی کمی ہو جائے اور بعض حروف کو استعمال میں لائے بغیر ابلاغ و بیان کے تنوع و کمال کو قائم رکھا جائے تو اعجاز و کمال کی نئی جہتیں انسانی دل و دماغ کو حیرت و تعجب سے دوچار کر دیتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عباسی دور کے ایک معروف خطیب سحبان بن وائل اپنی زبان کی لکنت کی وجہ سے بعض حروف روانی کے ساتھ نہیں بول سکتے تھے لیکن جب وہ خطبہ کے لیے کھڑے ہوتے تو گھنٹوں بولتے چلے جاتے مگر ان کے خطاب میں وہ حروف نہیں ہوتے تھے اور ایسے حروف کو استعمال میں لائے بغیر وہ اپنا مافی الضمیر پوری مہارت اور اعتماد کے ساتھ بیان کر دیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے ان کی خطابت و فصاحت ضرب المثل بن گئی تھی اور بڑے بڑے فصیح اللسان خطباء کو اپنے وقت کا سحبان کہا جاتا تھا۔ جیسا کہ ہمارے بزرگوں میں سے حضرت مولانا احمد سعید دہلویؒ اپنی فصاحت کے باعث ’’سحبان الہند‘‘ کہلاتے تھے۔

مختلف زبانوں میں زبان و ادب کے متنوع پہلوؤں کے اظہار کے لیے ہر دور میں نئے نئے فنون سامنے آتے رہے ہیں جن کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔ اس حوالہ سے عربی کا دامن سب سے زیادہ وسیع دکھائی دیتا ہے مگر اردو کو بھی تنگ دامنی کا شکوہ نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا کی مستعمل زبانوں میں بولنے والوں کی تعداد کے حوالہ سے اردو (ہندی سمیت) دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے جبکہ دنیا کے کم و بیش ہر خطہ میں بولے جانے کے باعث اپنے دائرہ کی وسعت کے حوالہ سے اسے دنیا کی سب سے بڑی زبان ہونے کا درجہ حاصل ہے اور اس کا دامن بھی لسانی علوم و فنون کی وسعت و تنوع میں کمی کی شکایت نہیں رکھتا۔ اردو کے حروف ابجد عربی سے زیادہ ہیں اور اس کے نصف درجن کے لگ بھگ حروف ایسے ہیں جو عربی میں استعمال نہیں ہوتے۔ اگرچہ اردو میں فارسی اور عربی الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں جنہیں اب رفتہ رفتہ کم کر کے غیر محسوس طریقہ سے انگلش حروف کا تناسب بڑھایا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک لطیفہ یہ ہے کہ لاہور کی آس اکیڈمی میں انگلش پڑھانے والے ایک استاذ محترم سے جب میں نے سوال کیا کہ وہ کون سا مضمون پڑھاتے ہیں تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میں ’’جدید اردو‘‘ پڑھاتا ہوں۔ چنانچہ اردو میں انگلش الفاظ کا استعمال اسی طرح بڑھتا رہا تو بالآخر وہ انگلش ہی ہو کر رہ جائے گی۔

زبان کے استعمال و اظہار کا یہ بھی ایک نادر اسلوب ہے کہ اس کے حروف میں امتیاز قائم کر کے بعض حروف کے ساتھ کلام کیا جائے جیسا کہ منقوط اور غیر منقوط حروف کا فرق عربی زبان میں مختلف ادوار میں بعض حوالوں سے سامنے آتا رہا ہے اور اس سلسلہ میں ابوالقاسم حریری اور ابوالفضل کا بطور مثال نام لیا جاتا ہے۔ مگر اردو میں ایسی کوئی وقیع کاوش کم از کم ہمارے مطالعہ کے دائرہ میں نہیں ہے۔

اس پس منظر میں ہمارے محترم بزرگ حضرت مولانا ولی رازی زید مجدھم کی یہ کاوش بلاشبہ ایک تجدیدی کارنامہ کی حیثیت رکھتی ہے جو انہوں نے جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات و سیرت کے حساس اور نازک موضوع پر ’’ہادی عالم‘‘ کے نام سے تصنیف فرمائی ہے اور اس پر وہ بجا طور پر ’’صدارتی ایوارڈ‘‘ سے بہرہ ور ہوئے ہیں۔ اس صدارتی ایوارڈ پر ہماری رائے بھی وہی ہے جو ایک فاضل دوست کے حوالہ سے ہم نے پڑھی ہے کہ اس سے مصنف کے اعزاز میں کوئی اضافہ ہوا ہے یا نہیں البتہ ’’صدارتی ایوارڈ‘‘ کی عزت و وقار میں ضرور اضافہ ہوا ہے۔ اصلاً جناب سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت مبارکہ کی وجہ سے اور پھر مصنف کے علم و فضل کے حوالہ سے بھی کہ وہ خود ممتاز صاحب علم و فضل ہونے کے ساتھ ساتھ مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ کے فرزند گرامی اور مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی جیسے ارباب فضل و کمال کے برادر بزرگ ہیں۔

کتاب کے فنی پہلوؤں کے بارے میں تو اہل فن ہی اپنی رائے کا اظہار کریں گے البتہ مصنف کے جذبہ و حوصلہ اور خصوصاً جناب نبی اکرمؐ کی ذات اقدس اور تعلیمات کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت کو ضرور سلام پیش کرنا چاہوں گا۔ جبکہ اپنی اس گزارش کو مخدوم العلماء عارف باللہ حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الحئی عارفی نور اللہ مرقدہ کے ان متبرک الفاظ کے ساتھ مکمل کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں کہ

’’ماہرین علم و ادب و نکتہ سنجان فکر و نظر جب اس کتاب کا مطالعہ کریں گے تو ان کو جس طرح ادبِ اردو کی وسعت و جامعیت پر تعجب ہوگا، اسی طرح ادبِ اردو پر مصنف کے عبور کامل اور اسلوب نگارش کی جدت پر بھی حیرت ہوگی۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter