(۴ مئی ۱۹۹۹ء کو دارالعلوم نعمانیہ ڈیرہ اسماعیل خان کی جامع مسجد میں مولانا زاہد الراشدی نے درسِ قرآن دیا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ ادارہ الشریعہ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا علاؤ الدین مدظلہ ہمارے محترم بزرگ ہیں، مخدوم ہیں اور مشفق ہیں۔ ان کے حکم کی تعمیل میں درسِ قرآن کریم کے عنوان سے گفتگو کے لیے آپ کے سامنے بیٹھ گیا ہوں، دعا فرمائیں کہ اللہ رب العزت کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق دیں، آمین۔
قرآن کریم کے درس کے حوالہ سے قرآن فہمی کے بنیادی اصولوں کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ غلط فہمی آج کل عام ہو رہی ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے صرف عربی زبان جان لینا کافی ہے اور جو شخص عربی زبان پر، گرامر پر اور لٹریچر پر عبور رکھتا ہے وہ براہِ راست قرآن کریم کی جس آیت کا جو مفہوم سمجھ لے وہی درست ہے۔ یہ گمراہی ہے اور قرآن فہمی کے بنیادی تقاضوں کے منافی ہے اس لیے اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
اس سلسلہ میں بنیادی گزارش یہ ہے کہ قرآن کریم کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس کی آیات کا صحیح مصداق و مفہوم معلوم کرنے کے لیے سنت نبویؐ سب سے بڑی بنیاد ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ہمیں قرآن کریم ملا ہے اور آپؐ نے قرآن کریم کے صرف الفاظ ہم تک نہیں پہنچائے بلکہ اس کی تعلیم بھی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جناب نبی اکرمؐ کے منصبی فرائض میں دو باتوں کا الگ الگ ذکر کیا ہے۔ ایک ’’یتلوا علیہم آیاتہ‘‘ کہ آپؐ لوگوں کو قرآن کریم کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں اور دوسرا ’’یعلمہم الکتاب‘‘ کہ لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ یتلوا کا تعلق الفاظ سے ہے اور یعلم کا تعلق ان الفاظ کے معنیٰ و مفہوم سے ہے اور یہ دونوں باتیں جناب نبی اکرمؐ کے فرائض منصبی میں سے ہیں۔ اس لیے ایسا نہیں ہوا کہ نبی کریمؐ نے (نعوذ باللہ) ایک چٹھی رساں کے طور پر قرآن کریم امت کے حوالہ کر دیا ہو اور خود فارغ ہوگئے ہوں بلکہ آپؐ نے قرآن کریم کے الفاظ و آیات پڑھ کر سنانے اور انہیں امت کے حوالہ کرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل ۲۳ برس تک ان کی تعلیم بھی دی ہے۔ اور وہی تعلیم سنت نبویؐ ہے جو قرآن کریم کی صرف تشریح و بیان ہی نہیں بلکہ اس پر ایمان کی بنیاد بھی ہے کیونکہ سنت و حدیث پر ایمان لائے بغیر قرآن کریم پر ایمان لانا ہی ممکن نہیں ہے۔
حضرت امام شافعیؒ سے ایک جملہ منسوب ہے کہ ’’القرآن احوج الی السنۃ من السنۃ الی القرآن‘‘ یعنی سنت قرآن کریم کی اتنی محتاج نہیں ہے جتنا قرآن کریم سنت کا محتاج ہے۔ اس جملہ کا مطلب عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم متن ہے اور سنت رسولؐ اس کی شرح ہے اس لیے شرح کے بغیر متن کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے، جبکہ شرح میں متن خودبخود موجود ہوتا ہے۔ مگر میں اس جملہ کو اور مفہوم میں لیتا ہوں اور اس کی تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ ایک جگہ گفتگو ہو رہی تھی کہ قرآن کریم کے بعد اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے اور حدیث و سنت چونکہ اختلافات کا ذریعہ بنتی ہے اس لیے انہیں قرآن کریم کے ساتھ لازم قرار دینا درست نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حدیث کے بغیر تو خود قرآن کریم پر ایمان لانا ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سورہ الکوثر قرآن کریم کی سب سے چھوٹی سورت ہے جو تین چھوٹی چھوٹی آیات پر مشتمل ہے۔ اگر کوئی شخص انکار کر دیتا ہے کہ میں سارے قرآن کو مانتا ہوں مگر اس سورت کو قرآن کریم کا حصہ نہیں مانتا تو ہمیں اس کے سامنے اس سورت کو قرآن کریم کا حصہ ثابت کرنے کے لیے کوئی اتھارٹی پیش کرنا ہوگی کہ ہم کس کے کہنے پر سورہ الکوثر کو قرآن کریم کا حصہ مان رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو براہ راست ہمیں کچھ نہیں فرمایا اور نہ ہی جبریل علیہ السلام سے ہمارا کوئی رابطہ ہے۔ ہمارے سامنے تو اس بارے میں ایک ہی اتھارٹی ہے اور وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے جنہوں نے جس جملہ اور آیت کو قرآن کریم کا حصہ قرار دیا اسے ہم نے قرآن کریم کا جزو تسلیم کر لیا۔ آپؐ کے علاوہ ہمارے پاس قرآن کریم کی آیات، سورتوں اور الفاظ کے تعین کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس لیے سورہ الکوثر کے حوالہ سے بھی اتھارٹی جناب نبی کریمؐ ہی کی ذاتِ اقدس ہے کہ چونکہ آپؐ نے سورہ الکوثر کو قرآن کریم میں شامل کیا ہے اس لیے یہ سورت کتاب اللہ کا حصہ ہے ورنہ اس سلسلہ میں اور کوئی ذریعہ اور اتھارٹی ہمیں میسر نہیں ہے۔
چنانچہ جب یہ طے ہوگیا کہ ہم نے سورہ الکوثر کو قرآن کریم کا حصہ اس لیے تسلیم کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے تو ’’جناب رسول اللہؐ نے فرمایا ہے‘‘ کے جملہ کو آپ کیا کہیں گے؟ یہ حدیث ہے اور اور آپ خود غور کر لیں کہ ہم پہلے حدیث پر ایمان لائے ہیں یا قرآن کریم پر؟ اس لیے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ رتبہ اور مقام میں قرآن کریم حدیث سے مقدم ہے مگر ایمان کی ترتیب میں حدیث قرآن کریم سے پہلے ہے۔ کیونکہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ ہو قرآن کریم پر ایمان لانا ممکن ہی نہیں ہے اور امام شافعیؒ کے مذکورہ جملہ کو میں اسی مفہوم میں لیتا ہوں۔
لہٰذا سنت و حدیث نہ صرف قرآن کریم کی تشریح اور اس کا بیان ہے بلکہ اس پر ایمان کی بنیاد بھی ہے۔ اور قرآن کریم کے ساتھ سنت کا تعلق قول اور عمل کا تعلق ہے اور یہ بات ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے اس ارشاد سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ ’’کان خلقہ القرآن‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات قرآن کریم تھے۔ یعنی وہ قرآن کریم جو الفاظ میں تلاوت کیا جاتا ہے اور سنا جاتا ہے اسے اگر عمل و کردار اور اخلاق و عادات کی شکل میں دیکھنا چاہو تو وہ جناب نبی کریمؐ کی حیاتِ طیبہ اور سیرت و سنت ہے۔ اسے یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے سکول اور کالج میں ایک استاد کلاس روم میں سائنس کا ایک فارمولا پڑھاتا ہے اور پھر لیبارٹری میں اسے عملی مرحلہ سے گزار کر دکھاتا ہے۔ جو کچھ اس نے کلاس روم میں پڑھایا ہے اسے تھیوری کہتے ہیں اور جس عملی تجربہ کا مظاہرہ لیبارٹری میں کیا ہے وہ پریکٹیکل کہلاتا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم تھیوری ہے اور سنت نبویؐ پریکٹیکل ہے جو اسی تھیوری کی عملی شکل ہے۔
اس سے ہٹ کر ایک اور انداز میں بھی بات کو دیکھ لیں، وہ یہ کہ کسی عام شخص سے یہ سوال کریں کہ اس قرآن کریم پر نسل انسانی میں کس شخصیت نے سب سے زیادہ اور مکمل عمل کیا ہے؟ اس کے جواب میں کوئی شخص بھی جناب نبی اکرمؐ کے علاوہ کوئی اور نام نہیں لے گا اور نہ ہی لے سکتا ہے۔ اور ظاہر بات ہے کہ جس کا عمل کتاب اللہ پر سب سے زیادہ مکمل ہوگا وہی اس پر عمل میں دوسروں کے لیے نمونہ اور معیار بنے گا ۔ اس لیے خود قرآن کریم نے جناب نبی اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ کو پوری امت کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔
اس کے بعد میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سنت نبویؐ کے بغیر قرآن کریم کو براہ راست سمجھنا ممکن نہیں ہے اور یہ دعویٰ کرنا گمراہی ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے صرف عربی گرامر اور لٹریچر پر عبور کافی ہے۔ اس پر چند واقعات عرض کروں گا کہ حضراتِ صحابہ کرامؓ عرب تھے اور عربی ان کی مادری زبان تھی مگر بعض مواقع ایسے آئے کہ انہیں قرآن کریم کے الفاظ و احکام کا مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی اور جب نبی کریمؐ نے وضاحت فرمائی تو وہ قرآن کریم کی مراد سمجھ سکے۔
حاتم طائی عرب کے مشہور سخی ہیں جن کی سخاوت کے قصے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں پایا البتہ چونکہ وہ تاریخی روایات کے مطابق بت پرستی ترک کر کے عیسائی مذہب اختیار کر چکے تھے اور آنحضرتؐ کی بعثت سے پہلے دنیا میں رائج الوقت حق مذہب عیسائیت ہی تھا اس لیے حاتم طائی کو اہلِ حق میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کا بیٹا عدیؓ اور بیٹی سفانہؓ دونوں صحابی ہیں۔ عدی بن حاتمؑؓ کا قصہ ہے کہ جب رمضان المبارک میں سحری کا حکم نازل ہوا کہ اس وقت تک سحری میں کھا پی سکتے ہو جب تک سفید اور سیاہ دھاریاں الگ الگ ظاہر نہ ہو جائیں۔ یہاں قرآن کریم کی مراد طلوعِ فجر کے وقت مشرق کی جانب آسمان پر نظر آنے والی سفید روشنی اور سیاہ اندھیرے کی دھاریاں ہیں جن کا الگ الگ نظر آنا طلوع فجر کی علامت ہے اور اسی کے ساتھ سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ مگر عدی بن حاتمؓ نے یہ کیا کہ دھاگے کی سفید اور سیاہ ڈوریاں اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیں اور سحری کے وقت انہیں دیکھ کر کھاتے پیتے رہتے اور جب وہ الگ الگ دکھائی دینے لگتیں تو کھانا پینا چھوڑ دیتے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک روز جناب رسول اکرمؐ کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو حضورؐ مسکرائے اور فرمایا کہ ’’اذا لو سادتک عریض یا عدی‘‘ پھر تو اے عدیؓ! تیرا تکیہ بہت چوڑا ہے۔ یعنی سفید اور سیاہ دھاریوں سے قرآن کریم نے جو مراد لیا ہے وہ اگر تیرے تکیے کے نیچے آجاتا ہے تو پھر تو تکیہ بہت چوڑا ہوگا۔ اس کے بعد آپؐ نے قرآن کریم کی مراد واضح کی تو عدی بن حاتمؓ بات سمجھے اور تکیہ کے نیچے سے دھاگے کی ڈوریاں نکال دیں۔
غور فرمائیے کہ عدی بن حاتمؓ عرب ہیں، عرب کے بیٹے ہیں، سردار ہیں اور سردار کے بیٹے ہیں مگر قرآن کریم کا بیان کردہ محاورہ سمجھنے میں غلطی لگ گئی اور اس وقت تک قرآن کریم کا مطلب نہیں سمجھ پائے جب تک خود حضورؐ نے اس کی وضاحت نہیں فرما دی۔ اس لیے اگر آج کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ وہ محض عربی دانی کے زور پر قرآن کریم کے مفہوم و مراد کو پا سکتا ہے تو یہ بات کیسے قبول کی جا سکتی ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک شخصی واقعہ ہے اور کسی بھی شخص کو ذاتی طور پر اس قسم کا مغالطہ ہو سکتا ہے، اس لیے اجتماعی واقعہ بھی عرض کر دیتا ہوں۔ یہ بھی بخاری شریف میں ہے کہ جب سورۃ الانعام کی آیت ۸۲ نازل ہوئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کا التباس نہ ہونے دیا، وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں اور انہی کے لیے امن ہوگا۔ یہ سن کر صحابہ کرامؓ میں بے چینی پھیل گئی، انہوں نے ظلم کا عام مفہوم سمجھا کہ لوگوں میں باہمی معاملات و حقوق اور لین دین میں جو کمی بیشی اور حق تلفی ہو جاتی ہے وہ ظلم ہے۔ بلاشبہ ظلم کا عمومی مفہوم یہی ہے مگر پریشانی اس بات پر ہوئی کہ یہ کمی بیشی تو انسانی معاشرت کا حصہ ہے اور روزمرہ معاملات میں کہیں نہ کہیں ہو ہی جاتی ہے، اس سے مکمل گریز کو اگر ایمان و نجات کے لیے شرط قرار دیا جائے تو بہت کم لوگوں کا ایمان قبولیت کے معیار پر پورا اترے گا۔ صحابہ کرامؓ کی پریشانی اس حد تک بڑھی کہ جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں کچھ حضرات پیش ہوئے اور اپنے اضطراب کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ’’اینا لم یظلم یا رسول اللہ‘‘ ہم میں سے کون ہے جس سے تھوڑی بہت زیادتی نہیں ہو جاتی؟ معصوم تو صرف پیغمبر ہیں باقی لوگ تو نہیں ہیں اور معاملات میں تھوڑی بہت کمی بیشی ہوتی ہی رہتی ہے، اس لیے ایمان و ہدایت کا یہ معیار بہت سخت ہے کہ ایمان کے ساتھ ظلم کا التباس بھی نہ ہو۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن کر صحابہ کرامؓ کو تسلی دی کہ یہ پریشانی بجا ہے مگر یہاں ظلم سے مراد وہ نہیں جو سمجھا جا رہا ہے بلکہ اس آیت کریمہ میں ظلم سے مراد وہ ہے جو حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یا بنی لا تشرک باللہ ان الشرک لظلم عظیم‘‘ بیٹا! شرک نہ کرنا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اس پر صحابہ کرامؓ کی پریشانی دور ہوئی کہ ایمان کی قبولیت کے لیے جس ظلم سے مکمل گریز کو شرط کے طور پر پیش کیا گیا ہے وہ عام ظلم نہیں بلکہ شرک ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں عام طور پر بولا جانے والا ایک لفظ استعمال ہوتا ہے اور مخاطب صحابہ کرامؓ سب کے سب عرب ہیں مگر انہیں لفظ کی مراد سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے اور وہ اس وقت قرآن کریم کا مقصد پا سکے ہیں جب آنحضرتؐ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
اس سلسلہ میں ایک اور واقعہ بھی سن لیجئے جو حافظ ابن کثیرؒ نے سورہ النساء کی آیت ۱۲۳ کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ اس آیت میں ایک جملہ ہے ’’من یعمل سوءًا یجز بہ‘‘ جس نے برائی کا کوئی کام کیا اسے ضرور بدلہ دیا جائے گا۔ یہاں ’’سوءًا‘‘ نکرہ ہے جس میں برائی کا معمولی سا کام بھی شامل ہے۔ جب نبی کریمؐ نے یہ آیت صحابہ کرامؓ کو سنائی تو مجلس میں حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی موجود تھے، یہ جملہ سنتے ہی ان کی حالت متغیر ہوگئی اور چہرے کا رنگ بدل گیا حتیٰ کہ خود حضورؐ نے ان کی کیفیت کو محسوس کر کے پوچھا کہ ’’مالک یا ابابکر‘‘ آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ! یہ آیت سن کر میری تو کمر ٹوٹ گئی ہے کیونکہ جب ہر چھوٹے بڑے کام پر قیامت کے روز گرفت ہوگی تو کون شخص وہاں کے عذاب سے بچ سکے گا؟ آنحضرتؐ نے یہ سن کر فرمایا کہ نہیں آپ نے ’’یجز بہ‘‘ کا معنٰی یہ سمجھا ہے کہ ہر عمل کا بدلہ قیامت کے روز ہی ملے گا، یہ ضروری نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی اہلِ ایمان کو جو تکالیف اور پریشانیاں پیش آتی ہیں وہ ان کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتی ہیں حتیٰ کہ کسی مومن کے پاؤں میں کانٹا چبھا ہے تو وہ بھی کسی گناہ کا کفارہ بن گیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ کی جان میں جان آئی کہ جو بات وہ سمجھے تھے وہ صحیح نہیں تھی۔ اب حضرت ابوبکرؓ نسلی عرب ہیں اور ان کی مادری زبان عربی ہے بلکہ انہیں ’’اعلم الصحابہؓ‘‘ کہا جاتا ہے مگر قرآن کریم کی ایک آیت کریم کا مفہوم نہیں سمجھ پائے اور نبی کریمؐ نے وضاحت کی تو بات ان کی سمجھ میں آئی۔
بلکہ میں تو اس سے اگلی بات کرتا ہوں کہ جناب رسول اللہ کی سنت تو قرآن فہمی کی بنیاد ہے، حضرات صحابہ کرامؓ کے ارشادات و تشریحات سے بھی ہم بے نیاز نہیں رہ سکتے اور بہت سے مقامات ایسے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے ارشادات سامنے نہ ہوں تو قرآن کریم کے ارشادات کا مصداق متعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں بھی دو واقعات عرض کرنا چاہتا ہوں۔
سورۃ المائدہ کی آیت ۱۰۵ کے ضمن میں حافظ ابن کثیرؒ نے روایت نقل کی ہے، اس آیت میں اہل ایمان سے خطاب کر کے فرمایا ہے کہ ’’اے ایمان والو! تم پر اپنا فکر لازم ہے، کوئی شخص گمراہ ہوتا ہے تو تمہیں کوئی ضرر نہیں دے سکتا اگر تم خود ہدایت پر ہو‘‘۔ ابن کثیرؒ کی روایت کے مطابق حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنے دورِ خلافت میں اسی آیت کریمہ کا مفہوم و مصداق بیان کرنا پڑا جس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ کسی نے اس دور کے حالات پر یہ آیت پڑھ دی ہوگی۔ اور آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ حضرت ابوبکرؓ کو منکرین ختم نبوت، منکرین زکوٰۃ اور دیگر مرتدین کے خلاف جس طرح محاذ آرا ہونا پڑا تھا، اس پس منظر میں کسی نے یہ آیت پڑھ دی ہو تو عام حلقوں میں اس کا کیا مطلب سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے برسرعام اس کا اعلان فرمایا کہ اس آیت کریمہ میں خطاب ہم لوگوں سے نہیں ہے بلکہ اس دور کے مسلمانوں سے ہے جب فتنے عام ہو جائیں گے اور عقائد و ایمان کے فتنوں کی اس قدر کثرت ہو جائے گی کہ ایمان بچانا مشکل ہو جائے گا۔ اسی زمانے کے لوگوں کے لیے یہ حکم ہے کہ جب اپنا ایمان بچانا مشکل ہو جائے تو دوسروں کی فکر کرنے کی بجائے اپنا فکر کرو اور اپنے ایمان کو بچانے کی کوشش کرو۔
حضرت صدیق اکبرؓ کے دور خلافت کے حالات، ان کی جنگوں اور اس آیت کریمہ کے حوالہ سے ان کی وضاحت کو سامنے رکھتے ہوئے ذرا غور کر لیں کہ اگر حضرت ابوبکرؓ آیت کریمہ کا یہ مصداق واضح نہ کرتے تو منکرین ختم نبوت، منکرین زکوٰۃ اور دیگر مرتدین کے خلاف ان کی کارروائیوں اور فیصلوں کی حیثیت محلِ نظر ہو جاتی ہے، بلکہ جس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے حضرت صدیق اکبرؓ نے وضاحت فرمائی وہ باقی رہ جاتی تو ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کا پورا دینی شعبہ ہی کالعدم ہو کر رہ جاتا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت کا مفہوم طے کرتے ہوئے اس دور کا پس منظر اور حضرات صحابہ کرامؓ کی تشریحات کو بھی سامنے رکھا جائے ورنہ قرآن کریم کی مراد تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اسی طرح امام ترمذیؒ نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ رومیوں کے خلاف معرکوں کے دوران ایک جنگ میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی شریک تھے، مسلمانوں اور رومیوں کے لشکر آمنے سامنے تھے اور لڑائی کی تیاری ہو رہی تھی کہ مسلمانوں کے لشکر میں سے ایک پرجوش نوجوان نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھا اور اکیلا ہی دشمن کی صفوں میں گھس گیا۔ اس پر لوگوں نے تبصرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے انداز میں باتیں کیں کہ اس نے جلد بازی کی، جذباتی کام کیا ہے اور غلطی کی ہے۔ اسی دوران کسی صاحب نے سورہ البقرہ کی آیت ۱۹۵ کا ایک جملہ پڑھ دیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت پڑو‘‘۔ یہ سن کر حضرت ابو ایوب انصاریؓ چونکے اور موجود لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اس آیت کا یہ مفہوم نہیں ہے جس مفہوم میں ان صاحب نے اسے پڑھا ہے۔ یہ آیت ہم انصارِ مدینہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس لیے اس کا مفہوم اور مصداق ہم بہتر جانتے ہیں۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو انصار مدینہ نے دل کھول کر ساتھ دیا اور مہاجرین کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ قریش کے ساتھ معرکہ آرائی میں بھی پوری قوت کے ساتھ شریک رہے۔ بدر، احد، احزاب اور دیگر جنگوں میں بھرپور حصہ لیا، اس دوران اپنی کھیتی باڑی کی طرف ان کی توجہ کم ہوگئی، باغات کی حالت بگڑنے لگی اور معاشی حالت خاصی متاثر ہوئی۔
ترمذیؒ کی روایت کے مطابق حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے کہا کہ جب غزوۂ خیبر کے بعد مسلمانوں کی حالت کچھ سنبھلی اور صورتحال بہتر ہونے لگی تو انصارِ مدینہ میں سے کچھ حضرات نے باہم مشورہ کیا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری اس طرح کی امداد کی ضرورت نہیں رہی جیسی ہم اب تک کرتے آرہے ہیں اور حالات خاصے بہتر ہوگئے ہیں اس لیے ہم اب اپنے باغات اور کھیتی باڑی کی طرف توجہ دیں اور خرچ کرنے کے معاملہ میں کچھ کمی کر لیں تاکہ اس دوران معاشی طور پر جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کی کوئی صورت نکل آئے۔ اس پر قرآن کریم کی مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے فرمایا کہ یہ اس آیت کا شانِ نزول ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاد اور دفاع پر بدستور پہلے کی طرح خرچ کرتے رہو کیونکہ اگر اس میں کمی کرو گے تو کمزور ہو جاؤ گے اور جہادی قوت کمزور کرنے کا مطلب خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں پڑنا ہوگا اس لیے اس آیت کا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھے ہو۔
اب ان دونوں واقعات کو سامنے رکھ لیجئے کہ قرآن کریم کی آیات کریمہ کا مطلب اور پس منظر حضرات صحابہ کرامؓ نے بیان کیا تو واضح ہوا ورنہ ان کا ظاہری مفہوم کچھ اور ہے۔
ان گزارشات کے بعد میں آپ حضرات کی خدمت میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر ارشادات و تعلیمات بھی اصولی طور پر قرآن کریم ہی کا حصہ ہیں، اس پر ایک دو واقعات عرض کروں گا۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ایک بار کوفہ کی جامع مسجد میں درس دیتے ہوئے یہ فرمایا کہ ’’جسم پر نام گدوانے والی، بال اکھاڑنے والی اور ریتی سے رگڑ کر دانت چھوٹے کرنے والی عورتوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے‘‘۔ یہ اس زمانے کا فیشن تھا جیسا کہ ہر دور میں عورتوں میں رواج ہوتا ہے کہ وہ خود کو سنوارتی ہیں، آرائش و زیبائش اختیار کرتی ہیں اور پھر ان کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ انہیں دیکھا جائے۔ یہ سن کر کوفہ کی ایک خاتون ام یعقوبؓ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے درس میں آئی اور پوچھا کہ آپ نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے، کیا یہ قرآن کریم میں ہے؟ خاتون کا مطلب یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے تو اس کا ذکر قرآن کریم میں ہونا چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے جواب دیا کہ ہاں یہ قرآن کریم میں ہے۔ ام یعقوبؓ نے کہا کہ قرآن کریم تو میں نے بھی سارا پڑھا ہے اس میں کہیں یہ مسئلہ مذکور نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ سورہ الحشر کی آیت ۷ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کے رسول تمہیں جو دیں وہ لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسا فیشن کرنے والی عورتوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اس لیے آپؐ کا یہ ارشاد بھی قرآنی تعلیمات ہی کا حصہ ہے۔
اس سے قطع نظر بھی یہ بات سوچ لیں کہ نمائندہ کسے کہتے ہیں؟ نمائندگی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ جو بات بھی کہتا ہے اس کی اپنی نہیں ہوتی بلکہ اس کی طرف سے ہوتی ہے جس کا وہ نمائندہ ہوتا ہے۔ ہم خود بھی اگر کسی کو نمائندہ بنا کر بھیجتے ہیں اور اس کی بات توجہ سے نہیں سنی جاتی تو شکایت ہمیں ہوتی ہے کہ فلاں صاحب نے ہمارے نمائندے کی بات پر توجہ نہیں دی اور اس کو ہم نمائندہ کی بجائے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ جبکہ ’’رسول‘‘ کا معنٰی ہی قاصد اور نمائندہ کے ہیں اس لیے جب اللہ تعالیٰ اصولی طور پر یہ بات فرما رہے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے نمائندہ ہیں، یہ جس کام کا کہیں وہ کرو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ، تو اس اصول کے تحت آنحضرت کے تمام تر ارشادات و فرمودات اللہ تعالیٰ ہی کے ارشادات قرار پاتے ہیں۔ میں آپ حضرات کے سامنے ایک اور مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ آپ کے ضلع کا حاکم ڈپٹی کمشنر ہے جو صوبائی حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے اور وہ جو حکم بھی دیتا ہے وہ صوبائی حکومت کی طرف سے تصور ہوتا ہے۔ آج تک کسی شخص نے کسی ڈپٹی کمشنر کے پاس جا کر یہ سوال نہیں کیا کہ آپ نے جو حکم جاری کیا ہے اس پر صوبائی حکومت کی تصدیق دکھائیں۔ اور اگر کسی کو شوق ہو تو وہ ڈپٹی کمشنر کے کسی حکم پر اس سے یہ سوال کر کے دیکھ لیں جواب خود معلوم ہو جائے گا۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ہی کا ایک اور ارشاد اسی آیت کے ضمن میں تفسیر قرطبی میں بھی مذکور ہے کہ ایک دفعہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ایک مرد کو دیکھا کہ وہ احرام کی دو چادروں کے ساتھ کوئی سلا ہوا کپڑا بھی پہنے ہوئے تھا۔ انہوں نے اسے روک کر بتایا کہ مرد کے لیے احرام کی حالت میں سلا ہوا کپڑا پہننا منع ہے۔ اس نے جھٹ سے سوال کر دیا کہ کیا یہ قرآن کریم میں ہے؟ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ ہاں قرآن کریم میں ہے اور پھر مذکورہ آیت پڑھ کر یہی استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا نبیؐ جس کام کا حکم دے وہ کرو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ، اور جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ مرد کے لیے حالت احرام میں سلا ہوا کپڑا پہننا درست نہیں ہے۔
حتٰی کہ حضرت امام شافعیؒ تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں، تفسیر قرطبی میں اسی آیت کے ضمن میں مذکور ہے کہ حضرت امام محمد بن ادریس شافعیؒ نے ، جو اہل سنت کے چار بڑے اماموں میں سے ایک ہیں، کسی روز اپنی محفل میں یہ فرما دیا کہ آج جو مسئلہ پوچھو گے قرآن کریم کی روشنی میں بیان کروں گا۔ ایک صاحب نے سوال کیا کہ کیا حالت احرام میں بھڑ مارنا درست ہے؟ جواب دیا کہ ہاں درست ہے۔ کسی نے سوال کیا کہ قرآن کریم میں کہاں ہے؟ حضرت امام شافعیؒ نے سورہ الحشر کی مذکورہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میرا رسول جس کام کے کرنے کا حکم دے وہ کرو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ، جبکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے بعد میرے خلفائے راشدینؓ کی اتباع بھی تم پر لازم ہے۔ اور حالتِ احرام میں بھڑ کو مارنے کا یہ سوال خلیفۂ راشد حضرت عمر بن الخطابؓ سے کیا گیا تھا اور انہوں نے فرمایا تھا کہ جائز ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کا یہ حکم سنت نبویؐ کا حصہ ہے اور ارشادِ نبویؐ قرآنی تعلیمات کا حصہ ہے اس لیے یہ مسئلہ بھی قرآن کریم کے احکام میں موجود ہے۔
اس استدلال پر ایک بار پھر غور فرما لیجئے، یہ میرا استدلال نہیں ہے بلکہ امام اہل سنت حضرت امام شافعیؒ استدلال کر رہے ہیں۔ اس لیے جہاں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن فہمی کے لیے سنت نبویؐ اور صحابہ کرامؓ کے تعامل کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور اس کے بغیر قرآن کریم کی کئی آیات کے صحیح مصداق تک پہنچنا مشکل ہے وہاں یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات اور خلفائے راشدینؓ کے فیصلے بھی قرآنی تعلیمات کا حصہ ہیں اور انہیں قرآن کریم سے الگ کرنا درست نہیں ہے۔
حضراتِ محترم! میں نے آپ کے سامنے قرآن و سنت کے باہمی تعلق اور قرآن فہمی کے چند بنیادی اصولوں پر کچھ گزارشات پیش کی ہیں، دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و سنت کا صحیح فہم نصیب فرمائیں اور ان پر عمل کی توفیق سے بھی نوازیں، آمین یا رب العالمین۔