قادیانیوں کو صراطِ مستقیم کی دعوت

   
جامع مسجد نور، کبیر والا، خانیوال
۱۱ جون ۲۰۱۵ء

(شیخ الحدیث مولانا ارشاد احمد صاحب مدظلہ کی زیر صدارت ’’ختمِ نبوت کانفرنس‘‘ سے خطاب)

بعد الحمد والصلوۃ۔ ہم سب کے لیے سعادت کی بات ہے کہ عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کے مشن کے حوالے سے آج یہاں جمع ہیں۔ اس مسجد میں منکرینِ ختمِ نبوت کے گروہ قادیانیوں کے بارے میں تین روزہ تربیتی کورس ہوا ہے، جس میں مردوں اور خواتین نے شرکت کی ہے اور انہیں قادیانی گروہ کی سرگرمیوں اور دجل و فریب سے آگاہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک اہم دینی تقاضہ ہے کہ فتنوں سے آگاہی حاصل کی جائے اور امت کو ان سے روشناس کرا کے لوگوں کے ایمان و عقیدہ کے تحفظ کا اہتمام کیا جائے۔ قادیانیوں کے بارہ میں گفتگو کے بہت سے پہلو ہیں جن پر مختلف انداز سے بات کی جاتی ہے۔

ایک پہلو اعتقادی ہے کہ قادیانیوں نے ملتِ اسلامیہ کے اجماعی اور مسلم عقائد سے انحراف کیا ہے، جناب نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کا انکار کر کے جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کو اپنا پیشوا مان لیا ہے، سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع نزول کا انکار کیا ہے، اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کا ارتکاب کیا ہے، وغیر ذالک۔ اس لیے وہ مسلمان نہیں ہیں، اس بات کو مسلمانوں پر واضح کرنے کے لیے علماء کرام مسلسل محنت کر رہے ہیں تاکہ عام مسلمان اس گروہ کے فریب کا شکار نہ ہو۔

دوسرا پہلو علمی ہے کہ قادیانیوں نے اپنے غلط عقائد کو بزعمِ خود صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم کی آیات، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، اور اکابر امت کی توضیحات و تشریحات میں تحریفات و تاویلات کا دروازہ کھول کر خود ساختہ اشکالات و اعتراضات کا بازار سجا رکھا ہے، اور ایسی ایسی توجیہات ایجاد کی ہیں کہ اچھا خاصا مسلمان بھی ان سے پریشان ہو جاتا ہے۔ اکابر علمائے امت نے حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ، حضرت پیر مہرعلی شاہ گولڑویؒ اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ جیسے جید علماء کرام کی رہنمائی میں اس دجل و فریب کا پردہ چاک کیا ہے اور ہر دور میں امت کی صحیح اور بر وقت رہنمائی فرمائی ہے۔

تیسرا پہلو سماجی ہے کہ ایک نئے نبی اور وحی کے دعوے کے ساتھ معاشرے میں جو تقسیم رونما ہوئی ہے اور جس خلفشار نے جنم لیا ہے اس کو واضح کیا جائے اور امت مسلمہ کی معاشرتی وحدت کو بچانے کے لیے محنت کی جائے۔ اس پہلو پر سب سے زیادہ بات مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نے کی ہے اور قادیانیت کے مسئلہ پر پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ اپنی تاریخی خط و کتابت میں وضاحت کی ہے کہ نبی چونکہ اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے اطاعت کا مرکز ہوتا ہے اور اس کی غیر مشروط اطاعت بھی ایمان کی بنیاد ہوتی ہے، اس لیے نئے نبی کے ساتھ اطاعت کا یہ مرکز تبدیل ہو جاتا ہے اور ایک نئی امت وجود میں آجاتی ہے جو پہلی امت سے مختلف ہوتی ہے، اس لیے قادیانیوں کے مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ انہیں امتِ مسلمہ سے الگ ایک نئی امت قرار دیا جائے اور امتِ مسلمہ کو خلفشار سے بچایا جائے۔

اسی طرح قادیانی مسئلہ کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے کہ امتِ مسلمہ سے الگ راستہ اختیار کرنے والے اس گروہ کے سیاسی مقاصد کیا ہیں اور وہ سیاسی محاذ پر کیا ایجنڈا رکھتا ہے؟ اس پر بھی بہت سے مفکرین نے بات کی ہے اور خاص طور پر تحریکِ ختمِ نبوت کے عظیم مجاہد آغا شورش کاشمیریؒ نے اس پہلو کو سب سے زیادہ واضح کیا ہے۔ مگر میں آج پاکستان کے سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا حوالہ دینا چاہوں گا جن کے دور حکومت میں قادیانیوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دستوری طور غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا۔ بھٹو مرحوم کے آخری ایام کی یادداشتیں جیل میں ان کے نگران کرنل رفیع نے مرتب کی ہیں اور جنگ گروپ آف پبلیکیشنز کی طرف سے کتابی صورت میں شائع ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق بھٹو مرحوم نے کہا تھا کہ قادیانی گروہ پاکستان میں وہ حیثیت حاصل کرنا چاہتا ہے جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ ملک کی کوئی پالیسی ان کے مرضی کے بغیر تشکیل نہ پا سکے، اور ظاہر بات ہے کہ یہ صورت کسی مسلمان اور پاکستانی کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

قادیانیت کے حوالے سے گفتگو کا ایک پہلو تاریخی بھی ہے کہ منکرین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم اور نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے تاریخی پس منظر کو اجاگر کیا جائے اور بتایا جائے کہ نبوت کے جھوٹے دعوے کے ساتھ مختلف زمانوں میں کن لوگوں نے امت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلہ میں اردو خواں طبقہ کے لیے سب سے مفید اور لائق مطالعہ کتاب ’’ائمہ تلبیس‘‘ ہے جو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے شاگرد حضرت مولانا ابو القاسم محمد رفیق دلاوریؒ کی تصنیف ہے اور دو جلدوں میں عالمی مجلس تحفظ کے مرکزی دفتر حضوری باغ روڈ ملتان نے شائع کی ہے۔ اس میں انہوں نے ایسے لوگوں کا تعارف کروایا ہے جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر مرزا غلام احمد قادیانی تک مختلف ادوار میں نبی اور مہدی ہونے کا دعویٰ کر کے فتنہ خیزی کی ہے اور بہت سے لوگوں کی گمراہی کا ذریعہ بنے ہیں۔ ان میں سے پہلے چار حضرات کا آج کی محفل میں تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حیاتِ طیبہ میں سامنے آئے تھے اور ان کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے آمنا سامنا ہوا تھا۔ ایک مسیلمہ کذاب ہے، دوسرا اسود عنسی ہے، تیسرا طلیحہ اسدی ہے، جبکہ چوتھی ایک خاتون سجاح تھی۔

(۱) مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس کا یہ دعویٰ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں نہیں تھا بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی شہادت دیتے ہوئے ان کی اتباع اور پیروی میں نبوت کا دعوے دار تھا۔ اور وہ اپنے پیروکاروں سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرواتا تھا اور پھر اپنی رسالت کی بات کرتا تھا۔ اس کی اذان میں بھی یہی ترتیب تھی، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک وفد کے ذریعے جو خط بھیجا تھا اس کا عنوان بھی یہ تھا ’’من مسیلمۃ رسول اللّٰہ الٰی محمد رسول اللّٰہ‘‘۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشکش کی تھی کہ اسے اپنے بعد اپنا جانشین نامزد کر دیں یا اس کے ساتھ علاقے اس طرح تقسیم کر لیں کہ شہروں کے نبی وہ ہوں اور دیہات مسیلمہ کے سپرد کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا مگر اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ اپنے دعوے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پر نہیں بلکہ آپ کی پیروی میں اپنے لیے نبوت کی بات کرتا تھا۔

اس بات کی وضاحت آج کے دور میں اس لیے ضروری ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی کم و بیش اسی طرح کا موقف اختیار کیا ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اطاعت میں نبی اور رسول بنا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مسیلمہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ علاقے تقسیم کرنے کی بات کی تھی، اور مرزا قادیانی نے زمانے کی تقسیم کا تصور پیش کیا ہے کہ اب آئندہ کے لیے اس کی نبوت اور وحی حجت ہے۔ اس لیے جس طرح مسیلمہ کذاب کا دعویٰ اور موقف مسترد کر دیا گیا تھا، اسی طرح امتِ مسلمہ نے مرزا قادیانی کا دعویٰ اور موقف بھی مسترد کر دیا ہے۔

حضرت صدیق اکبرؓ کے دورِ خلافت میں مسیلمہ اور نبوت کی ایک دعوے دار خاتون سجاح نے مسلمانوں کے مقابلے میں اتحاد کر لیا تھا اور آپس میں شادی کر کے دونوں اکٹھے مسلمانوں کے مقابلے پر آگئے تھے، جس میں مسیلمہ کذاب قتل ہوگیا اور اس کے لشکر کو شکست فاش ہو گئی جبکہ سجاح اپنے علاقے میں واپس چلی گئی۔

(۲) اسود عنسی نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا، صنعاء میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ گورنر کو شہید کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور یمن کے پورے علاقے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمّال کو نکلنے پر مجبور کر دیا۔ یمن ہی کے ایک صحابی حضرت فیروز دیلمیؓ نے نبی کریمؐ کا اشارہ پا کر صنعاء کے گورنر ہاؤس پر شب خون مارا اور اسود عنسی کو قتل کر کے یمن کو اس کے تسلط سے آزاد کرا دیا۔ وہ اس معرکہ میں کامیابی کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری دینے کے لیے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے مگر انہیں راستے میں نبی اکرمؐ کی وفات کی خبر ملی اور انہوں نے اس کے بعد مدینہ منورہ پہنچ کر یہ خوشخبری حضرت صدیق اکبرؒ کو سنائی۔ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر وحی کے ذریعے بستر علالت پر مل چکی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’فاز فیروز‘‘ کہہ کر ساتھیوں کو اس سے آگاہ کر دیا تھا جس کی تفصیلات ان حضرات کو حضرت فیروز دیلمیؓ کے مدینہ منورہ پہنچنے پر معلوم ہوئی۔

(۳) طلیحہ اسدی نے جناب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں نبوت کا دعویٰ کیا، اس کی سرکوبی کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معروف کمانڈر حضرت ضرار بن ازاورؓ کو لشکر دے کر بھیجا، اس مقابلے میں طلیحہ کو شکست ہوئی مگر وہ بھاگ گیا۔ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معروف صحابی حضرت عکاشہ بن محسن فزاریؓ طلیحہ کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔

حضرت صدیق اکبرؓ کے دور میں طلیحہ پھر مقابلے پر آیا اور ایک معرکہ میں حضرت خالد بن ولیدؓ سے شکست کھا کر دوبارہ بھاگ جانے میں کامیاب ہو گیا۔

حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں طلیحہ بن خویلد اسدیؓ نے حضرت عمرو ابن العاصؓ کو سفارشی بنا کر توبہ کے لیے حضرت عمرؓ کے سامنے پیش ہوا۔ اس موقع پر حضرت عمرؓ کے ساتھ اس کا دلچسپ مکالمہ مؤرخین نے نقل کیا ہے۔ جب اس کا حضرت عمرو بن العاصؓ نے تعارف کرایا اور بتایا کہ یہ توبہ کے لیے آیا ہے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ تو توبہ کر لے گا مگر میں عکاشہؓ کو کیسے بھول سکوں گا جو اس کے ہاتھوں جنگ میں شہید ہوگیا تھا۔ اس پر طلیحہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے عکاشہؓ کو میرے ہاتھوں جنت بھجوا دیا اور مجھے اس کے ہاتھوں جہنم جانے سے بچا لیا، اور کل قیامت کے دن جب میں اور عکاشہؓ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اکٹھے جنت میں داخل ہوں گے تو آپ کو یہ منظر کیسا لگے گا؟ حضرت عمرؓ نے اس کی توبہ کو قبول کیا اور وہ قادسیہ سمیت مختلف معرکوں میں شریک ہونے کے بعد ایک معرکہ میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے۔ چنانچہ محدثین کرامؒ نے حضرت طلیحہ اسدیؓ کو صحابہ کرامؓ اور شہداء میں شمار کیا ہے۔

(۴) اسی طرح نبوت کی دعویدار خاتون سجاح کے علاقے میں حضرت معاویہؓ کے زمانہ خلافت میں قحط پڑا تو وہ بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ علاقہ چھوڑ کر دمشق آئیں۔ حضرت معاویہؓ کے ہاتھ پر توبہ کی اور ان کے حکم پر کوفہ میں آباد ہو گئیں، وہاں ان کی وفات ہوئی اور ان کا جنازہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سمرہ بن جندبؓ نے پڑھایا۔ ان کا تذکرہ محدثین ایک عابدہ اور زاہدہ خاتون کے طور پر کرتے ہیں۔

دورِ نبوت اور دورِ صحابہ کرامؓ کے ان چار مدعیان نبوت کا مختصر تذکرہ کرنے کے بعد میں اس بات کی طرف توجہ دلا نا چاہتا ہوں کہ ان میں سے دو قتل ہوئے تھے اور دو نے توبہ کر کے امتِ مسلمہ میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی تھی، ان کی توبہ قبول کی گئی تھی اور انہیں مسلم معاشرے کے باعزت شہری کے طور پر دوبارہ مقام حاصل ہوگیا تھا۔

اس حوالے سے ایک بات میں قادیانیوں سے کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ وہ مسیلمہ اور اسود عنسی کے راستے پر ڈٹے رہنے کے بجائے طلیحہ اور سجاح کا راستہ اختیار کریں، دنیا اور آخرت دونوں حوالوں سے ان کے لیے بہتر راستہ یہی ہے۔ وہ غلط عقائد سے توبہ کر کے امتِ مسلمہ میں واپس آجائیں اور اپنی بلا وجہ پریشانیوں سے نجات حاصل کریں۔

جبکہ دوسری بات اپنے مسلمان بھائیوں سے کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ قادیانیوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنا ضروری ہے اور ان کے دجل و فریب سے مسلمانوں کو آگاہ کرتے رہنا بھی ضروری ہے، لیکن انہیں توبہ اور مسلمانوں میں باعزت واپسی کا راستہ دینا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ توبہ اور ایمان کا دروازہ تو کھلا ہے لیکن اس کے مواقع فراہم کرنا اور اس کا ماحول پیدا کرنا بہرحال ہماری ذمہ داری ہے اور ہم سب کو سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ رکھنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے صحیح طور پر کام کرنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter